پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ اگر اس ملک میں ذرا سا بھی قانون اور انصاف ہے تو گرفتاری شہباز شریف کی نہیں، عاصم سلیم باجوہ کی ہونی چاہیے تھی۔
وہ لاہور میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پریس کانفرنس کر رہی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’99 کمپنیاں شہباز شریف کی نہیں نکلیں، یہ سینکڑوں فرینچائز ان کی نہیں ہیں، بلکہ عاصم سلیم باجوہ کی نکلی ہیں نیب اس معاملے میں کیوں خاموش ہے؟‘
یاد رہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی نے حال ہی میں اپنی ایک خبر میں باجوہ خاندان کے مالی مفادات کے بارے میں الزامات عائد کیے تھے۔ لیفٹیننٹ جرنل ریٹائرڈ عاصم باجوہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ہونے کے ساتھ ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری کے سربراہ بھی ہیں اور انھوں نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی تھی اور تفصیلی پریس ریلیز میں خود پر لگائے گئے الزامات کا تفصیلی جواب دیا تھا۔
مریم نواز نے نیب کے کردار کو ’جانبدار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’نیب پشاور بی آر ٹی، نہ ان بسوں میں لگنے والی آگ نظر آتی ہے نہ بلین ٹری سونامی نظر آتا اور نہ ان کو بڑے بڑے وزرا کی کرپشن نظر آتی ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’کبھی مولانا فضل الرحمان کو نوٹس بھیجا جاتا ہے تو کبھی شہباز شریف کو گرفتار کیا جاتا ہے، ہے کسی میں اتنی ہمت کے عاصم سلیم باجوہ کو نوٹس بھیجے۔‘
انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا جو 1930 سے کاروبار کر رہا ہے اور ان کا وسیع کاروبار سیاست میں آنے سے پہلے کا تھا، لیکن عاصم سلیم باجوہ ایک تنخواہ دار ملازم تھے ان کا لکھ پتی نہیں کروڑ پتی نہیں ارب پتی بن جانا، یہ ہے قابلِ احتساب الزام۔
’نیب چیئرمین کہتے ہیں کہ وہ فیس نہیں کیس دیکھتے ہیں، تو وہ کیس انھیں نظر نہیں آ رہا؟ اگر عاصم باجوہ کے بچوں کا عاصم باجوہ پر مالی طور پر انحصار نہیں ہے تو شہباز شریف کے بچوں پر زبردستی اسے حوالے سے مقدمے کیوں بنائے گئے۔‘
انھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر کی بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے سر توڑ کوششوں کے باوجود اپنے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
’ان کی بیوی کو اشتہاری بنا دیا گیا، ان کے بیٹوں پر ریفرنس بنائے گئے اور حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن شہباز شریف اڑے رہے‘۔
انھوں نے کہا کہ میڈیا پر بھی قدغنیں لگائی گئیں اور عاصم سلیم باجوہ سے متعلق لکھی گئی تحقیقاتی تحریر کو شائع ہونے سے روکا گیا، اور پھر ان کی وضاحت چلائی گئی۔
انھوں نے کہا کہ اگر میڈیا کو آپ دبائیں گے اور عدلیہ پر دباؤ ڈالیں گے تو اس سے زیادہ کوئی چیز اداروں کو متنازع نہیں بنا سکتی۔
مریم کا کہنا تھا کہ ’ش میں سے ن نکالنے والے، ن میں سے ش اور م نکالنے والوں کی چیخیں نکل گئیں کیوںکہ ن اور ش ہمیشہ ایک ساتھ رہیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ عمران خان کو یہ خوف ہے کہ شہباز شریف ان کے متبادل ہیں، عمران خان ایک کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں جو مسلط شدہ ہو، جس کی اتنی حیثیت نہ ہو کہ گلگت بلتستان کی میٹنگ جی ایچ کیو میں چل رہی ہے اور وہ ساتھ والے کمرے میں بیٹھا ہے۔
’پنجاب کی عوام کی نظر میں شہباز اکلوتی آپشن ہیں۔ عمران خان کے پاس جب تک بیساکھیاں ہیں اور ادارے بھی جو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں ان کو بھی توجہ دینی چاہیے کہ ایک ناتجربہ شخص، ایک نادان دوست نے ملک کو اس دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر عمران خان کی اسی طرح حمایت کی جاتی رہی، ملک کو اندھیروں میں جھونکا جاتا رہا تو پھر یہ مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے بھی بات باہر چلی جائے گی۔
’جہاں تک اے پی سی کے ایجنڈا کا تعلق ہے آپ چاہے شہباز شریف کو گرفتار کریں،چاہے مریم نواز کو گرفتار کریں، چاہے آپ میرے ساتھ بیٹھے مسلم لیگ ن کے شیروں کو گرفتار کریں یہ تحریک اب رکنے والی نہیں ہے۔‘
منی لانڈرنگ کیس میں درخواست ضمانت مسترد ہونے پر شہباز شریف گرفتار
لاہور ہائی کورٹ نے قائد حزب مخالف اور مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف کی منی لانڈرنگ ریفرنس میں درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر مسترد کر دی۔صحافی عباد الحق کے مطابق ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے مختصر تحریر فیصلے میں قرار دیا کہ عدالتی حکم کے شہباز شریف کے وکلا نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی جو منظور کر لی گئی۔مختصر احکامات میں لاہور ہائیکورٹ نے یہ قرار دیا کہ شہباز شریف کو اس سال تین جون کو دی گئی عبوری ضمانت کا حکم بھی واپس لے لیا ہے۔
گذشتہ پیشی پر لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شہباز شریف کے وکلا کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ پیر (آج) تک دلائل مکمل کریں۔
پیر کے روز شہباز شریف کے وکلا کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے درخواست ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد نیب اہلکاروں نے قائد حزبِ اختلاف کو کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا۔
انھیں کل یعنی منگل کے روز نیب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
صحافی عباد الحق کے مطابق شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کے الزام میں اس سال جون میں ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور اس پر لگ بھگ چار ماہ تک سماعت ہوتی رہی اور اس دوران مختلف دو رکنی بنچز نے سماعت کی۔
آج کی سماعت کے دوران شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور کہا کہ وہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور گلگت بلتستان میں انتخابات ہونے والے ہیں اور حکومت اُن کی زبان بندی چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اپنے دورِ حکومت میں انھوں نے قومی خزانے کا ایک ارب بچایا اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کیے اور اُن کے فیصلوں سے ان کے خاندان کو کاروباری نقصان ہوا۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ ریفرنس عدالت دائر ہو گیا اور عدالتی حکم پر شہباز شریف عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے نشاندہی کی کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے اس مرحلے پر گرفتاری کا کیا جواز ہے۔
وکیل کے مطابق اگر شہباز شریف ہوتے ہیں اور چھ ماہ جیل میں رکھیں تو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ وکیل نے دلیل دی کہ جس نے ایک ہزار ارب روپے بچائے ہوں وہ چند ارب کا خطرہ کیوں مول لے گا۔
ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے دعویٰ کیا کہ حکومت بلدیاتی انتخابات سے پہلے شہباز شریف کو جیل میں ڈالنا چاہتی ہے اور شعرہ پڑھا کہ ‘سنجیاں ہو جان گلیاں، وچ مرزا یار پھرے۔’
ادھر نیب کے وکیل فیصل بخاری نے استدعا کی کہ شہباز شریف سے ابھی تک تفتیش نہیں کی گئی اس لیے اس کی گرفتاری کی ضرورت ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نیب کسی بھی کرپشن کی تحقیقات شروع کر سکتا ہے اور نیب کا قانون 18 از خود کارروائی کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال جون میں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔
شہباز شریف کی گرفتاری پر ردعمل
مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’شہباز شریف کا صرف یہ قصور ہے کہ اس نے نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
’اس نے جیل جانے کو ترجیح دی مگر اپنے بھائی کو ساتھ کھڑا رہا۔ یہ انتقامی احتساب نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کا حوصلہ پست نہیں کر سکتے۔ اب وہ وقت دور نہیں جب اس حکومت اور ان کو لانے والوں کا احتساب عوام کرے گی۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’اگر اس ملک میں احتساب اور انصاف ہوتا تو شہباز شریف نہیں، عاصم سلیم باجوہ اور اس کا خاندان گرفتار ہوتا۔‘
اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عالمی وبا کے باوجود حزب اختلاف کے ساتھ سیاسی انتقام کا سلسلہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ آج ہی کے دن وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سمیت 14 ملزمان پر منی لانڈرنگ کے مقدمے میں فرد جرم عائد کر دی ہے، تاہم ملزمان نے فرد جرم سے انکار کیا ہے۔
وفاقی حکومت کے ترجمان شبلی فراز نے نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شہباز شریف کی گرفتاری کو سیاسی نہ بنایا جائے۔۔۔ ان کے خلاف شواہد موجود تھے اس لیے انھیں نیب نے حراست میں لیا ہے۔‘
پنجاب حکومت کے ترجمان فیاض الحسن چوہان نے نیب کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف ’اب عدالتی اور تحقیقاتی عمل سے گزریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نے اپنے شوق سے گرفتاری نہیں دی۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’آج نیب، نیازی گٹھ جوڑ نے شہباز شریف کو گرفتار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات کی طرح گلگت بلتستان کے الیکشن میں دھاندلی کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔
’نیب نے شہباز شریف کو عمران خان کے حکم پر گرفتار کیا کیونکہ وہ ایسی جماعت کو نشانہ عبرت بنانا چاہتے ہیں جنھوں نے اس ملک کے لیے کام کیا۔ یہ ہر مخالف آواز کو بند کرنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا یہ شہباز شریف کی گرفتاری حزب اختلاف کی اے پی سی کا ردعمل ہے۔
شہباز شریف کی گرفتاری کے موقع پر پولیس اور مسلم لیگ کے کارکنان کے درمیان دھکم پیل بھی ہوئی تاہم نیب اہلکار انھیں بحفاظت وہاں سے نکال کر نیب دفتر لے گئے ہیں۔
عدالتی فیصلے سے ایک دن قبل آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کو نیب کے سامنے پیش ہونا تھا تاہم انھوں نے پیش ہونے کے بجائے ایک تفصیلی جواب جمع کروا دیا۔
اس تفصیلی جواب میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس اس وقت عروج پر ہے اور نیب کے کچھ افسران بھی کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ میری عمر 69 سال اور میں کینسر کا مریض بھی ہوں اس لیے نیب تحقیقاتی ٹیم مجھ سے سکائپ کے ذریعے سوالات کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے نیب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ شہباز شریف کی پیشی کے لیے کورونا وائرس سے بچاؤ کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پاکستان کے قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر ملز کیس سنہ 2018 میں گرفتار کیا تھا تاہم 14 فروری 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت منظور کی تھی۔
گذشتہ سماعت کے دوران کیا ہوا تھا؟
اس کیس میں ہونے والی گذشتہ سماعت میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے اب تک جو فیصلے پیش کیے ہیں وہ ضمانت بعد از گرفتاری کے ہیں جس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ وہ ابھی ضمانت قبل از گرفتاری کی جانب آ رہے ہیں۔
تاہم اس کے بعد شہباز شریف کے وکیل کی جانب سے وقفے کی درخوست کی گئی جو عدالت نے قبول کرتے ہوئے انھیں ضمانت بعد از گرفتاری پر دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی، جس کے بعد سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی۔
شہباز شریف کے وکیل نے اس موقع پر عدالت کے سامنے ضمانت کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ قتل کے کیس میں بھی جب چالان پیش ہو جائے اور فرد جرم عائد ہو جائے، تو پھر بھی ضمانت یا ریلیف مل جاتا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکل کو ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کیے ہوئے تین ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا اور اس دوران نیب نے صرف ایک مرتبہ بلایا جس پر وہ پیش ہوئے۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ نیب کے تفتیشی افسر کی جانب سے ان کے مؤکل کو کہا گیا کہ اب مزید تفتیش کی ضرورت نہیں اور جب ضرورت ہو گی آپ کو بتایا جائے گا۔
بعد ازاں شہباز شریف نے عدالت سے بات کرنے کی اجازت حاصل کرکے کہا کہ نیب کا الزام ہے کہ ان کے بچوں کے اثاثے درحقیقت ان کے بے نامی اثاثے ہیں۔ انھوں نے عدالت سے کہا کہ اگر عدالت چاہے تو وہ بینچ کو مکمل بریفنگ دے سکتے ہیں۔
اس پر عدالت نے کہا تھا کہ اگر وہ عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے وکیل سے مشورہ کر لیں، اور اگر کوئی بات رہ جائے تو وہ دلائل کی تکمیل کے بعد کر سکتے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اُردو