بلھے شاہ کی ’’بہنوں اور بھرجائیوں‘‘ کی طرح راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کئی ہفتوں سے شہباز شریف کو سمجھاتے چلے آرہے تھے کہ سرجھکاتے ہوئے ’’میری پارٹی‘‘ بن جائو۔ حالانکہ بہت عرصے سے وہ ’’حاضر جناب‘‘ ہوئے نظر آرہے تھے۔ وہ یہ رویہ اختیار نہ کرتے تو عمران حکومت کسی صورت پارلیمان سے ’’وہ‘‘ قانون منظور نہیں کرواسکتی تھی جسے ایک دستی بم کی مانند ’’سسیلین مافیا‘‘ کے خلاف برسرپیکار رہے کھوسہ صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل ’’عوام کے منتخب نمائندوں‘‘ کی جانب اچھالا تھا۔ اپنی ذمہ داری منتخب ایوان کے سپرد کرتے ہوئے کھوسہ صاحب کمال رعونت سے یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ ایک وزیر اعظم کو چٹھی نہ لکھنے کی پاداش میں نااہل کرتا فیصلہ لکھتے ہوئے انہوں نے ’’حیف ہے اس قوم پہ…‘‘ والا نوحہ بھی پڑھا تھا۔اسی ’’قوم کے نمائندوں‘‘ سے ’’انقلابی قانون‘‘ کی توقع باندھتے ہوئے انہیں قوی امید تھی کہ مطلوبہ قانون پاس نہیں ہوپائے گا۔ہمیں ’’جمہوری نظام‘‘ کا جھانسہ دیتا ڈھانچہ اس کے بعد زمین بوس ہوجائے گا۔شہبازصاحب نے مگر قائدِ حزب اختلاف ہوتے ہوئے اس ضمن میں حکومت کے تیار کردہ مسودہ قانون کو پڑھے بغیر ہی اس کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا۔دونوں ایوانوں سے ’’وہ قانون‘‘ 12-12منٹ کی تاریخی عجلت میںپاس ہوگیا۔ کھوسہ صاحب کو ایک اور نوحہ لکھنے کا موقع نصیب نہ ہوا۔مذکورہ حوالے سے ’’جی حضوری‘‘ اختیار کرنے سے قبل البتہ شہباز صاحب نے جانے کس کس سے نجانے کہاں اور کب ملاقاتیں کرتے ہوئے اپنے بڑے بھائی کو جیل سے ہسپتال منتقل کروایا۔ ’’عدالت سے سزا یافتہ شخص‘‘ بعدازاں طیارے میں سوار ہوکر لندن چلا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ حیران کن واقعہ ہوا تھا۔ ’’عدالتوں سے سزا یاب ہوئے قیدی‘‘ وگرنہ بیمار ہوجائیں تو ان کا طبی معائنہ بھی نہیں ہوتا۔بسااوقات تو سردرد کی گولی بھی میسر نہیں ہوتی۔شہباز صاحب نے مگر ’’معجزہ‘‘ برپا کردیا۔اپنی ذات سے منسوب Deal Makingصلاحیتوں کا خیرہ کن جلوہ دکھایا۔ان کی ’’جی حضوری‘‘کا پھکڑپن سے تمسخر اُڑاتے ہوئے بھی اگرچہ یاد دلاتا رہا کہ شہباز صاحب سے ہر سادہ کاغذ پر انگوٹھے لگوائے جاسکتے ہیں۔ان میں سے ’’برادرِ یوسف‘‘ برآمد کرنا مگر ناممکن ہے۔نواز شریف ان کی کاوشوں سے لندن جاکر خاموش ہوگئے تھے۔ان کی دُخترنے بھی اپنے ٹویٹر اکائونٹ کو عملاََ Deactivateکردیا۔ شہباز شریف کی ’’جی حضوری‘‘ مگر ان کی ذاتی مدد نہ کرپائی۔ ان کے فرزند حمزہ شہباز گزشتہ ڈیڑھ برس سے جیل میں ہیں۔دریں اثناء ٹی وی سکرینوں پر بینڈ،باجہ بارات کے ساتھ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کا سیلاب اُمڈآیا۔اس کی بدولت کہانی یہ پھیلی کہ شہباز شریف اپنے پورے خاندان سمیت ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے عادی مجرم ہیں۔اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں ’’خادم اعلیٰ‘‘ نے مبینہ طورپر کمیشن وغیرہ کے نام پر جو کمایا وہ بیرون ملک منتقل ہوا۔ وہی رقوم اب TTکی صورت پاکستان لوٹ کر حمزہ اور سلمان شہباز کے کاروبار کو فروغ دے رہی ہیں۔ان کہانیوں کے سیلاب کے بعد شہباز صاحب کی گرفتاری لازمی تھی۔پیرکے دن وہ ہوگئی۔ نون سے ’’شین‘‘ برآمدنہیں ہوئی۔ ہوا بلکہ یہ کہ نواز شریف کی ’’وارث‘‘ تصور ہوتی محترمہ مریم نواز صاحبہ نے اپنے چچا کی گرفتاری کے بعد ایک طولانی پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ہمارے آزاد اور بے باک میڈیا نے اسے براہِ راست دکھایا۔ چند ہی ہفتے قبل تک اگرچہ محترمہ کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔لوگوں کو دوش نہ دیں اگر اب وہ ’’نون‘‘ میں سے ’’شین‘‘ کے بجائے ’’میم‘‘ نمودار ہوتا دیکھ رہے ہیں۔اسلام آباد میں سرگوشیاں شروع ہوگئی ہیں جو دعویٰ کررہی ہیں کہ ’’کوئی تو ہے‘‘ جو محترمہ مریم نواز کو ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ’’لیڈر‘‘ بنارہا ہے۔’’چہیتا‘‘ ہونے کا شک اب شہباز شریف کے بجائے ان کی بھتیجی کے بارے میں پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔میں ذاتی طورپر اگرچہ بلھے شاہ کے بیان کردہ ’’شک شبہے دا ویلا‘‘ میں ایسی کہانیوں کوسنجیدگی سے نہیں لیتا۔بنیادی حقیقت یہ ہے کہ 20ستمبرکے روز آل پارٹیز کانفرنس سے طویل خاموشی کے بعد ’’اساں مننا ناہیں‘‘ والا خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے تخت یا تختہ والی جنگ کے ایک اور رائونڈ کا آغاز کردیا ہے۔ایسی جنگ شروع ہوجائے تو کئی مقامات ایسے آتے ہیں جنہیں Fog of Warکا نتیجہ تصور کیا جاتا ہے۔یعنی افراتفری کے موسم میں فریقین کا Unnerveہوجانا۔ایسے مراحل جہاں میرے اور آپ کی طرح ٹی وی سکرینوںکے لئے Contentکا حتمی فیصلہ کرنے والوں کو بھی سمجھ نہیں آتی کہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق کس کی ماں کو ’’ماسی‘‘کہیں۔ کسی پریس کانفرنس کو براہِ راست دکھانے سے قبل شہباز گِل صاحب کے حکم کا انتظار کریں یاتھوڑی دیر تک اسے چلاتے ہوئے منتظر رہیں کہ کہیں اور سے اسے روکنے کا حکم صادر ہوتا ہے یا نہیں۔Fog of Warکی حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ ایک بہترین مثال ہے۔فروعی باتوں اور پھکڑپن میں وقت ضائع کرنے کو لیکن اب دل نہیں چاہتا۔عملی صحافت سے ریٹائر ہونے کے بعد گوشہ نشینی میں کالم لکھتے ہوئے خواہش یہی ہوتی ہے کہ جواب میسر ہوں یا نہیں چند بنیادی سوالات ضرور اٹھادئیے جائیں۔ ایک رپورٹر کے اعتماد کے ساتھ آپ کو یہ اطلاع دینے کو مجبور ہوں کہ نواز شریف صاحب نے اے پی سی سے خطاب کا فیصلہ 20ستمبر سے کم از کم ایک ماہ قبل کرلیا تھا۔ان کے ارادے اور خطاب کے ممکنہ متن کی بابت شہباز صاحب قطعاََ بے خبر ر ہے۔وجہ ا س کی یہ نہیں تھی کہ نواز شریف کواپنے بھائی پر اعتماد واعتبار نہیں تھا۔انہیں خدشہ تھا کہ ان کے خطاب کے متوقع نتائج سے گھبرا کر شہباز صاحب اسے رکوانے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کریں گے جو ’’بھائی جان‘‘ کو ’’ٹھنڈا‘‘ رکھنے کے لئے اب تک کامیابی سے استعمال ہوتا رہا ہے۔گزشتہ ماہ کے آغاز میں نیب کے لاہور آفس کی جانب سے محترمہ مریم نواز کی طلبی نے نواز شریف کو مشتعل کیا۔اس کے بعد شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر وسیم شہزاد کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہوئی تقاریر نے انہیں مزید اشتعال دلایا۔ سینٹ میں نون لیگ کے وفاداروں کو ’’ذہنی غلام‘‘ پکارا گیا تو ان ’’غلاموں‘‘ نے یکسوہوکر منی لانڈرنگ سے متعلق اس قانون کو ایوانِ بالا سے ’’مسترد‘‘ کروادیا جو اپوزیشن کی نیم دلانہ رضامندی کی بدولت قومی اسمبلی سے پاس کروالیا گیا تھا۔نواز شریف کو اس کے بعد خوف لاحق ہوا کہ شہباز شریف کی اپنائی حکمت عملی پر کاربند رہا گیا تو ’’ذہنی غلاموں‘ ‘میں بغاوت امڈ آئے گی۔نون کا ’’ووٹ بینک‘‘ تتر بتر ہوجائے گا۔نواز شریف ہرگز اتنے بھولے نہیں کہ اس گماں میں مبتلا ہوجائیں کہ اے پی سی سے ان کا دھواں دھار خطاب کوئی ’’انقلاب‘‘ برپا کرسکتا ہے۔انہیں بخوبی علم ہے کہ ’’قدم بڑھائو…‘‘ کا نعرہ لگانے والے بوقتِ ضرورت دائیں بائیں ہوجاتے ہیں۔لوگ بھول چکے ۔ میں اگرچہ یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ جب افتخار چودھری اپنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ مشرف حکومت کی زندگی اجیرن کئے ہوئے تھے تو نواز شریف ایک جہاز میں بیٹھ کر سعودی عرب سے اسلام آباد آئے تھے۔ خواجہ آصف سپریم کورٹ کی عمارت میں Stay Orderکے لئے خجل خوار ہوتے رہے۔ افتخار چودھری مگر نواز شریف کی سعودی عرب واپسی کو روکنے کے لئے میسر نہ ہوئے۔’’عوام کا جمِ غفیر‘‘ بھی ان کے ’’استقبال‘‘ کے لئے جمع نہیں ہوپایا تھا۔ ’’عوام کی طاقت‘‘ کو انہوں نے ایک بار پھر حال ہی میں جولائی 2018کے انتخاب سے چند ہی دن قبل لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہوئے بھی آزمایا تھا۔ان کے بھائی ’’استقبالی ہجوم‘‘ کے ساتھ ایئرپورٹ تک پہنچ نہیں پائے تھے۔وہ اپنی اہلیہ کو بستر مرگ کے سپرد کرتے ہوئے اپنی دختر سمیت ’’گرفتار‘‘ ہونے اترے تھے۔ بآسانی یہ گرفتاری بھی ہوگئی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ حالیہ تاریخ ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔’’عوام کی طاقت ‘‘ کے حوالے سے قصہ مختصر نواز شریف صوفیؔ تبسم کی طرح ’’دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے…‘‘والا رویہ اختیار کرچکے ہیں۔اس رویے نے انہیں طویل عرصہ تک خاموش رکھا۔20ستمبر2020کے روز اپنی طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے وہ بالآخر پھٹ پڑے ہیں تو اس کی”Inspiration”عوام کی طاقت کا گماں ہرگز نہیں ہے۔ہر سیاست دان اپنے تجربے اور معلومات کی بنیاد پر کوئی گیم لگاتا ہے۔جو معلومات پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کو لندن بیٹھے ہوئے بھی میسر ہیں مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹروں کی نگاہ سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔چند اشارے مل بھی جائیں تو انہیں کنایوں میں بیان کرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ہماری سیاسی تاریخ میں لیکن اکتوبرکا مہینہ اکثر بہت ’’تاریخ ساز‘‘ ثابت ہوا۔جنرل ایوب اکتوبر1958میں ہمارے ’’دیدہ ور‘‘ ہوئے۔جنرل مشرف کے طویل اقتدار کا آغاز بھی 12اکتوبر1999کے روز ہوا۔ایک اکتوبر2011میں بھی آیا تھا جب عمران خان صاحب نے لاہور کے مینارِ پاکستان کے تلے کھڑے ہوکر ’’موروثی سیاست‘‘ کے خلاف طبل جنگ بجایا تھا۔2020کا اکتوبر بھی اس تناظر میں کچھ ہل چل مچاتا نظر آرہا ہے۔اس مہینے مثال کے طورپر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس ہونا ہے۔دیکھنا ہوگا کہ منی لانڈرنگ کے خلاف ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں برتی اپوزیشن کی معاونت سے بنائے کڑے قوانین کی منظوری کے باوجود FATFپاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے باہر نکالتا ہے یا نہیں۔تین نومبر کے روز امریکی صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ٹرمپ اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لئے عمران حکومت سے دوحہ میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کو اکتوبر2020ہی میں ہر صورت بارآور بنانے کا طلب گارہے۔گوشہ نشین ہوا رپورٹر فی الوقت محض ’’ٹیوے‘‘ لگاتے ہوئے ان دو Pointsکی نشان دہی کرسکتا ہے۔نوازشریف نے یقینا اپنی گیم ان سے کہیں زیادہ Pointsکو ذہن میں رکھتے ہوئے لگائی ہوگی۔