Site icon DUNYA PAKISTAN

سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی عسکری نمائندوں سے ملاقاتوں کے قواعد کیا ہیں؟

Share

پاکستان کی وزارت دفاع کے مطابق اب کوئی بھی ’سیاستدان، بیوروکریٹ اور سرکاری ملازم‘ مسلح افواج کے سربراہان یا اہلکاروں سے سرکاری معاملات کے سلسلے میں براہِ راست نہیں مل پائے گا بلکہ اب یہ ملاقاتیں وزارت دفاع کے ذریعے طے کی جائیں گی۔

یہ ہدایات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب گذشتہ چند روز میں فوجی قیادت اور سیاستدانوں کے درمیان ملاقاتوں کی خبریں خاصی تنقید کی زد میں رہی ہیں، جن میں آل پارٹیز کانفرنس سے قبل آرمی چیف کی جانب سے وہ دعوت بھی ہے جس میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے متعلق بات چیت کی گئی تھی اور اس میٹنگ میں پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے دو مرتبہ ملے۔ ان ملاقاتوں کی اطلاع نے بھی سیاسی منظرنامے پر خاصی ہلچل مچائی۔

جبکہ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف پہلے ہی اپنی جماعت کے اراکان پر فوج کے نمائندوں کے ساتھ بلااجازت ملاقاتوں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

پاکستان میں دو روز قبل مقامی نیوز چینلز نے خبر چلائی کہ وزیراعظم عمران خان نے تمام وفاقی وزرا اور سرکاری اہلکاروں کو ہدایات کی ہیں کہ وہ عسکری قیادت اور حکام سے براہ راست رابطہ نہ کریں۔

بی بی سی کے پاس موجود دستاویز کے مطابق وزارت دفاع نے تین ستمبر کو کابینہ ڈویژن کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’وزارت دفاع کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ مختلف اتھارٹیز اور سول محکمے مختلف معاملات پر رائے کے لیے مسلح افواج کے ہیڈکوارٹرز سے براہ راست رابطہ کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران وزارت دفاع کو آگاہ ہی نہیں کیا جاتا یا تاخیر سے آگاہ کیا جاتا ہے۔‘

خط کے متن کے مطابق اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تاخیر کے سبب صورتحال کے تفصیلی جائزے کا موقع نہیں ملتا یا یہ عمل ملاقات میں تاخیر کا باعث بنتا ہے جس سے کابینہ کے اراکین کے وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔

،تصویر کا کیپشنآئین کے مطابق جی ایچ کیو، بحریہ، فضائیہ کے ہیڈکوارٹرز اور ان کے تمام ذیلی فارمیشنز کے ساتھ تمام رابطے وفاق میں دفاعی ڈویژن کے ذریعے ہی کیے جا سکتے ہیں

خط میں کہا گیا کہ رولز آف بزنس کے مطابق وزارت دفاع کے ذریعے ہی ان ملاقاتوں کی اجازت ہونی چاہیے اور آئندہ تمام وزارتیں اور محکمہ جات یہ یقینی بنائیں کہ تمام خط و کتابت وزارتِ دفاع کے ذریعے ہی ہو۔

حکومتی اہلکاروں کا مسلح افواج سے رابطے کا طریقہ کار

سنہ 1973 کے رولز آف بزنس کے نویں حصے میں آرٹیکل 56 میں سرکاری رابطہ کاری سے متعلق طریقہ کار درج ہے۔

اس کی مختلف شقوں میں دیگر ممالک سے مختلف امور پر رابطوں، خط و کتابت سے متعلق اصول و ضوابط تحریر کیے گئے ہیں جبکہ صوبائی حکومتوں اور حکام سے کس قاعدے کے تحت کس طرح رابطہ کیا جائے گا۔

مثال کے طور پر عام طور پر کسی بھی دوسرے ملک کی حکومت، ادارے وغیرہ سے رابطہ کرنے کی مجاز صرف خارجہ ڈویژن ہے، بیرون ملک حکومت یا ادارے سے معیشت یا اس سے متعلق رابطہ کاری کے لیے اکنامک ڈویژن کو اختیار ہے۔ اسی طرح صوبوں کے معاملے میں متعلقہ وفاقی ڈویژن کے اہلکار صوبوں کی متعلقہ محکمے سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں جو کہ اس محکمے کے سیکریٹری کے نام ہو گی۔

اسی حصے کی شق پانچ مسلح افواج سے متعلق ہے۔

اس شق میں کہا گیا ہے کہ جی ایچ کیو، بحریہ، فضائیہ کے ہیڈکوارٹرز اور ان کے تمام ذیلی اداروں کے ساتھ تمام رابطے وفاق میں دفاعی ڈویژن کے ذریعے ہی کیے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ڈویژن، وزارت دفاع کے ماتحت ہے۔ تاہم ڈیفنس ڈویژن اس ضمن میں براہ راست رابطے کی اجازت دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

وزارتِ دفاع کے ترجمان نے بی بی سی کو اسی شق کے حوالے سے بتایا کہ ’اس شق میں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ ہدایات ’سروس کمانڈر‘ اور ’سول اتھارٹیز‘ کے درمیان روزمرہ خط و کتابت اور رابطے کو متاثر نہیں کریں گی۔‘

تاہم یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ رولز آف بزنس سرکاری اہلکاروں اور حکومتی وزرا کی رابطوں کا طریقہ کار طے کرتے ہیں۔ مگر وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ان قواعد کا اطلاق تمام سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین پر ہو گا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری کابینہ تیمور عظمت عثمان نے کہا کہ یہ تمام قواعد و ضوابط سرکاری ملازمین کے لیے ہیں اور یہ تب لاگو ہوتے ہیں جب کوئی سرکاری کام کیا جا رہا ہو۔ تاہم دفتری کاموں میں رسمی اور غیررسمی دونوں طرح کی بات چیت اور خط و کتابت چلتی ہے۔ اور اکثر روزمرہ کے مسائل غیر رسمی بات چیت سے ہی طے پائے جاتے ہیں۔‘

ان کے خیال میں اگر تمام تر بات چیت اسی طریقے سے کریں تو روز مرہ کے امور مکمل کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر کسی وزارت کا وفاقی وزیر آرمی چیف سے اہم اور فوری سرکاری مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہے تو ان کی وزارت پہلے وزارتِ دفاع کو خط لکھے گی، وہ سیکریٹری دفاع کے پاس جائے گا، پھر اس پر بات چیت ہو گی، یہ فوج کے متعلقہ برانچ یعنی ایس ڈی ڈائریکٹوریٹ میں جائے گا جو پھر فوجی سربراہ کے پاس جائے گا جہاں سے دوبارہ اسی راستے سے وزارت دفاع کے پاس نوٹ آئے گا۔

انھوں نے کہا کہ دوبارہ متعلقہ وزیر کی وزارت کے سیکریٹری کے پاس خط آئے گا اور یوں آخر میں وزیر کو بتایا جائے گا کہ وہ ملاقات طے ہو پائی یا نہیں؟ اس لیے وزارت خارجہ کے علاوہ ملک کے اندر روز مرہ کے امور کی انجام دہی کے لیے ہونے والے رابطوں پر ایسی پابندی کا اطلاق سے کام سست روی کا شکار ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل، خاص طور پر وفاقی وزرا اور دیگر اراکین پارلیمان کی جانب سے یہ طریقہ کار رہا ہے کہ آرمی چیف سے ملاقات کے لیے ایس ڈی یعنی سٹاف ڈیوٹیز ڈائریکٹوریٹ سے رابطہ کیا جاتا ہے اور یوں ملاقات طے ہوتی ہے۔ اسی طرح دیگر اعلی فوجی افسران سے بھی افواج کے اپنے متعلقہ محکمے کے ذریعے ہی ملاقاتیں طے کی جا رہی تھیں۔

دوسری جانب مسلح افواج بھی خط و کتابت کے لیے انھی قواعد و ضوابط کی پابند ہیں اور عام طور پر ان کا رابطہ وزارتِ دفاع سے براہ راست یا جوائنٹ سٹاف ہیڈکوارٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ اس شق کے مطابق وزیر اعظم کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت، کسی بھی فرد کے لیے بھی ان قواعد میں تبدیلی، سختی یا نرمی کر سکتے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اُردو

Exit mobile version