انڈیا کی شمالی ریاست اترپردیش کے علاقے ہاتھرس میں مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنائی جانے والی ایک 20 سالہ دلت لڑکی کی گذشتہ رات دہلی کے صفدرجنگ ہسپتال میں موت ہوگئی ہے۔
متاثرہ لڑکی کے بھائی نے بی بی سی سے ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ اسی کے ساتھ ہاتھرس پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں چار ملزمان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
متاثرہ لڑکی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میڈیکل کالج سے سوموار کو دہلی کے صفدرجنگ ہسپتال لایا گیا تھا۔ وہ گذشتہ دو ہفتوں سے موت کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں۔
متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ گینگ ریپ کا یہ واقعہ 14 ستمبر کو اس وقت پیش آیا جب وہ لڑکی اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ گھاس کاٹنے گئی تھی۔
متاثرہ لڑکی کے بھائی نے بتایا ‘میری بہن، والدہ اور بڑے بھائی گھاس کاٹنے گئے تھے۔ بھائی گھاس لے کر گھر آیا تھا۔ ماں آگے کی طرف گھاس کاٹ رہی تھی، وہ پیچھے تھی۔ اسے گھسیٹا گیا اور گینگ ریپ کیا گیا۔ وہ میری ماں کو بے ہوشی کی حالت میں ملی تھی۔’
لواحقین کے مطابق متاثرہ لڑکی کو بے ہوشی کی حالت میں پہلے مقامی کمیونٹی ہیلتھ سینٹر لے جایا گیا تھا جہاں سے اسے علی گڑھ میڈیکل کالج ریفر کر دیا گیا۔
وہ 13 دنوں تک میڈیکل کالج میں وینٹیلیٹر پر تھی اور پھر پیر کو انھیں صفدرجنگ ہسپتال لایا گیا جہاں تقریباً صبح تین بجے ان کی موت ہوگئی۔
لڑکی کے بھائی نے بی بی سی کو بتایا ‘اس کی زبان کٹ گئی تھی، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، جسم کا ایک حصہ کام نہیں کر رہا تھا۔ وہ بولنے سے قاصر تھی۔ وہ کسی طرح اشاروں سے بات کر رہی تھی۔’
اجتماعی ریپ کا الزام اسی گاؤں کے چار اونچی ذات کے لوگوں پر ہے۔ پولیس نے چاروں کو گرفتار کرلیا ہے۔
ہاتھرس کے ایس پی وکرانت ویر نے بی بی سی کو بتایا ‘چاروں ملزمان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ہم عدالت سے فاسٹ ٹریک سماعت کا مطالبہ کریں گے۔ متاثرہ کے اہل خانہ کو گاؤں میں سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔’
ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ نے بھی ٹویٹ کر کے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انھوں نے ٹویٹ کیا ‘چاندپا پولیس سٹیشن والے معاملے میں متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو پہلے چار لاکھ 12 ہزار 500 روپے کی مالی امداد دی گئی تھی۔ آج پانچ لاکھ 87 ہوار 500 روپے کی امداد دی جارہی ہے۔ اس طرح 10 لاکھ روپے کی مجموعی مالی امداد دی گئی ہے۔’
پولیس پر غفلت کے الزامات
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے متاثرہ لڑکی کے بھائی کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر پولیس نے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور یہ کہ واقعے کے دس دن بعد تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ریپ کی دفع بھی اس وقت شامل کی گئی جب ’میری بہن نے سرکل آفیسر کو ایک بیان دیا اور اشارے سے اپنے ساتھ ہونے والی درندگی کے بارے میں بتایا‘۔
ابتدائی طور پر پولیس نے قتل کی کوشش کا مقدمہ درج کیا تھا اور صرف ایک ملزم کا نام لیا گیا تھا۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ متاثرہ بے ہوش تھی اور ان لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
متاثرہ کے بھائی نے بتایا ‘میری ماں اور بھائی بدحواسی میں تھانے پہنچے تھے۔ انھوں نے وہی شکایت کی جیسا کہ اس وقت انھیں سمجھ آیا۔ لیکن پولیس نے دس دن تک کوئی کارروائی نہیں کی۔’
پولیس پر غفلت برتنے کے الزام پر ایس پی کا کہنا ہے کہ ‘مقدمہ ابتدائی طور پر کنبے کی جانب سے دیے جانے والے بیان پر درج ہوا۔ جب تفتیش کے دوران بچی کا بیان لیا گیا تو گینگ ریپ کا انکشاف ہوا اور اسے شامل کیا گیا۔’
کیا میڈیکل رپورٹ میں گینگ ریپ کی تصدیق ہوئی ہے؟ اس سوال پر ایس پی نے کہا کہ ابھی ان معلومات کو شیئر نہیں کیا جاسکتا۔
دلت تنظیموں کا احتجاجی مظاہرہ
آزاد سماج پارٹی کے بانی چندر شیکھر آزاد سنیچر کے روز متاثرہ لڑکی سے ملنے علی گڑھ پہنچے تھے۔ انھوں نے متاثرہ لڑکی سے بہتر سلوک نہ کرنے اور تحقیقات میں غفلت برتنے کا معاملہ اٹھایا تھا۔
بھیم آرمی کے کارکنوں نے واقعے کے بعد متعدد شہروں میں مظاہرہ بھی کیا ہے۔ پارٹی کے ایک کارکن نے بی بی سی کو بتایا ‘دلت لڑکی کو نشانہ بنایا گیا ہے اس لیے سب خاموش ہیں۔ ایک دلت لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ اور پھر اس کی موت سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔’
ریاست کی اہم پارٹی بہوجن سماج پارٹی کی رہنما مایاوتی نے بھی اس واقعے کے بارے میں اترپردیش حکومت پر شدید سوالات اٹھائے ہیں۔
مایاوتی نے ایک ٹویٹ میں لکھا ‘یو پی کے ضلع ہاتھرس میں پہلے ایک دلت لڑکی کو بری طرح سے پیٹا گیا، پھر اس کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جو انتہائی شرمناک اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ جبکہ معاشرے کی دیگر بہن اور بیٹیاں بھی اب یہاں محفوظ نہیں ہیں۔ حکومت کو اس طرف دھیان دینا چاہیے، یہ بی ایس پی کا مطالبہ ہے۔’
متاثرہ لڑکی کی موت کے بعد مایاوتی نے کیس کو فاسٹ ٹریک عدالت میں چلانے اور ملزم کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ یو پی کے ضلع ہاتھرس میں اجتماعی ریپ کا شکار دلت لڑکی کی موت کی خبر بہت افسوسناک ہے۔ بی ایس پی کا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت متاثرہ کنبے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرے اور فاسٹ ٹریک عدالت میں قانونی چارہ جوئی کر کے مجرموں کی سزا پر جلد عملدرآمد کو یقینی بنائے۔’
اہل خانہ میں خوف و ہراس
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے متاثرہ لڑکی کے بھائی کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد ملزمان کی جانب سے انھیں نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ پولیس کو اطلاع دینے کے بعد پی اے سی گاؤں میں تعینات کی گئی تھی۔
انھوں نے کہا ‘ہم بہت خوفزدہ ہیں۔ وہ بہت طاقت ور ہیں۔ ہمیں گاؤں سے بھی بھاگنا پڑ سکتا ہے۔’
کیا حکومت نے ان کے اہل خانہ کو کوئی مدد فراہم کی ہے؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں ‘ابھی تک کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ سانسد جی (رکن پارلیمنٹ) نے چیف منسٹر سے ملنے لکھنؤ جانے کا کہا تھا۔ ہم اپنی بہن کا علاج کراتے یا وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے جاتے؟’
ریپ کے واقعات رک نہیں رہے ہیں
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن یوگیتا بھایانہ اس معاملے پر کئی دنوں سے مسلسل ٹویٹ کر رہی ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ‘حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود اس طرح کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں کیونکہ کہیں نہ کہیں انتظامیہ اور حکومت خواتین کے تحفظ کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔’
وہ کہتی ہیں ‘ایک طرف ہم خواتین کو دیوی کہتے ہیں اور دوسری طرف اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں یو پی میں اس طرح کے بہت سے سنگین واقعات ہوئے ہیں۔ بارہ بنکی میں ریپ کے بعد ایک 13 سالہ دلت لڑکی کا قتل کیا گیا تھا۔ ہاپوڑ میں چھ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد آنکھیں پھوڑ دی گئیں۔ ایسے واقعات وقفے وقفے سے پیش آرہے ہیں لیکن پولیس انتظامیہ کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کر رہی ہے۔’