Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا کے 90 فیصد مریضوں کو صحتیابی کے بعد مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے، تحقیق

Share

کورونا وائرس کے 90 فیصد مریضوں کو صحتیابی کے بعد بھی مختلف مضر اثرات کا سامنا ہوتا ہے۔

یہ بات جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اس ابتدائی تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا کے صحتیاب ہر 10 میں سے 9 مریضوں کو مختلف اثرات جیسے تھکاوٹ، نفسیاتی مسائل اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے۔‎

اس تحقیق کے نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے مریضوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہوگئی ہے۔

کوریا ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن ایجنسی کے عہدیدار کون جون ووک نے نیوز بریفننگ کے دوران بتایا اس تحقیق میں کورونا کو شکست دینے والے 965 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 879 یا 91.1 فیصد نے بتایا کہ انہیں کم از کم ایک مضر اثر کا سامنا ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ تھکاوٹ ایسے افراد میں سب سے عام علامت تھی جو 26.6 فیصد مریضوں نے رپورٹ کی جبکہ 24.6 فیصد نے توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا ذکر کیا۔

دیگر مضر اثرات میں نفسیاتی یا ذہنی مسائل اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی نمایاں تھے۔

انہوں نے بتایا کہ محققین کی جانب سے ساڑھے 5 ہزار افراد سے رابطہ کیا گیا، جن میں سے 16.7 فیصد افراد نے سروے میں شرکت کی۔

ابھی تحقیق کے نتائج آن لائن جاری کیے گئے ہیں مگر محققین کا کہنا ہے کہ بہت جلد تفصیلی تجزیے کے ساتھ تحقیق کو شائع کیا جائے گا۔

جنوبی کوریا میں ایک الگ تحقیق پر بھی کام ہورہا ہے جس میں 16 طبی ادارے کووڈ 19 کی ممکنہ پیچیدگیوں کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے چند ماہ بعد صحتیاب افراد کے مختلف ٹیسٹ اور سی ٹی اسکین کیے جائیں گے۔

جنوبی کوریا سے ہٹ کر دنیا کے مختلف ممالک میں بھی کورونا وائرس کو شکست دینے والے افراد میں بیماری کے اثرات کا جائزہ لینے پر کام کیا جارہا ہے۔

21 ستمبر کو برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ماہرین نے بتایا تھا کہ کووڈ 19 کے شکار ایسے مریض جو کئی ماہ پہلے اسے شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تھے، وہ کئی ماہ بعد بھی ‘دماغی دھند’ کا سامنا کرتے ہیں۔

ویلنگٹن ہسپتال کے ڈاکٹر اور این ایچ ایس کے ماہر ڈاکٹر مائیکل بیکلس نے بتایا کہ انہوں نے متعدد مریضوں میں اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے مریضوں میں بنیادی علامت سانس لینے میں مشکل ہونا ہے جبکہ ان کی جانب سے ذہن میں دھند چھائے ہونے کی شکایت بھی کی گئی۔

انہوں نے بتایا ‘میں متعدد ایسے مریضوں کا مشاہدہ کرچکا ہوں جو پہلے کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی تھی اور بعد میں لیبارٹری ٹیسٹوں میں انہیں بیماری سے کلیئر قرار دیا گیا تھا، مگر وہ تاحال علامات کا سامنا کررہے ہیں’۔

انہوں نے مزید کہا ‘کچھ مریضوں کی علامات نظام تنفس سے منتعلق تھیں یعنی سانس لینے میں مشکلات، مسلسل کھانسی، جبکہ دیگر کی علامات الگ تھیں جیسے دماغی دھند اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، جبکہ کھ مریضوں کی سونگھنے یا چکھنے کی حس تاحال کام نہیں کررہی’۔

ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کو ذہنی الجھنوں کا بھی سامنا ہے کیونکہ بیماری کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ سب کچھ معمول پر آجائے گا مگر علامات اب بھی برقرار ہیں۔

ڈاکٹر مائیکل بیکلس ان ماہرین کی ٹیم کا حصہ ہیں جو ویلنگٹن ہسپتال میں کووڈ 19 کے مریضوں کی بحالی نو پر کام کررہے ہیں۔

اس سے چند دن قبل آئرلینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے لاتعداد افراد کو تاحال شدید تھکاوٹ کا سامنا ہے چاہے ابتدا میں بیماری کی شدت جو بھی رہی ہو۔

آن لائن medRxiv میں شائع ہونے والی تحقیق میں زور دیا گیا کہ صحتیاب مریضوں کی مناسب نگہداشت کی جانی چاہیے اور سنگین حد تک بیمار افراد پر مزید تحقیق کرکے دیکھنا چاہیے کہ انہیں کس طرح کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔

اس تحقیق کے دوران آئرلینڈ کے سینٹ جیمز ہاسپٹل میں زیرعلاج رہنے والے 128 مریضوں کی نگرانی کی گئی تھی جن کو صحتیابی کے بعد ڈسچارج کردیا گیا تھا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ 52 مریضوں نے صحتیابی کے 10 ہفتوں بعد بھی مسلسل تھکاوٹ کو رپورٹ کیا۔

تحقیق میں یہ نہیں دیکھا گیا تھا کہ ان مریضوں میں کووڈ 19 کی شدت کتنی کم یا زیادہ تھی اور محققین نے دریافت کیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والوں کو ہی طویل المعیاد اثرات کا خطرہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر عمر کے مریضوں کے لیے ہوتا ہے۔

رواں ماہ اٹلی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔

تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا ‘لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا’۔

تحقیق میں ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو مارچ اور اپریل کے دوران کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے، یعنی وائرس ان کے جسمانی نظام سے نکل چکا تھا۔

تحقیق کے دوران ابتدائی 750 افراد کا معائنہ کیا گیا اور 30 فیصد میں سانس کی مشکلات اور پھیپھڑوں پر خراشوں کو دریافت کیا گیا جبکہ دیگر 30 فیصد کو خون کے گاڑھا ہونے یا بلڈ کلاٹس اور ورم کے مسائل درپیش تھے۔

محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔

کچھ مریض جو وائرس سے متاثر ہونے سے پہلے کسی پر انحصار نہیں کرتے تھے، وہ اب بہت کمزور ہوچکے ہیں اور انہیں اپنے کاموں کے لیے رشتے داروں کی ضرورت پڑتی ہے یا وہیل چیئر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ اس وائرس کے چند اسرار میں سے ایک ہے کہ کچھ افراد کی صحتیابی کا عمل تو ہموار ہوتا ہے مگر کچھ کے لیے بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں برطانیہ میں طبی ماہرین نے بھی انتباہ دیا تھا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں لاکھوں کو ممکنہ طور پر گردوں کے ڈائیلاسز یا پیوندکاری کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

یہ انتباہ طبی ماہرین کی جانب سے جاری کیا گیا جو کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات پر کام کررہے ہیں۔

طبی ماہرین نے برطانوی پارلیمان کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمیٹی کو بتایا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 90 فیصد مریضوں کو 2 سے 3 ماہ بعد بھی مختلف علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات، جوڑوں میں تکلیف، تھکاوٹ سینے میں درد کا سامنا ہوسکتا ہے۔

سالفورڈ رائل این ایچ ایس ٹرسٹ کے ماہرین ڈونل او ڈونوگوف نے بتایا کہ گردوں کو پہنچنے والا نقصان زیادہ بڑا خدشہ ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ یہ وائرس براہ راست گردوں پر حملہ کرتا ہے جبکہ گردوں کو وائرس کے نتیجے میں پھیلنے والے ورم سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘عام حالات میں آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے 20 فیصد افراد میں ڈائیلاسز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، کووڈ کے دوران یہ شرح 40 فیصد تک چلی گئی اور 85 فیصد افراد کو کسی قسم کے گردوں کے نقصان کا سامنا ہوا’۔

انہوں نے بتایا کہ یہ معلوم نہیں کہ کتنے افراد کو زیادہ سنگین گردوں کے امراض کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر یہ اعدادوشمار ممکنہ طور پر بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘لاکھوں افراد کو ڈائیلاسز یا پیوندکاری کی ضرورت ہوسکتی ہے’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عام حالات میں ہر سال ساڑھے 6 ہزار افراد کو ڈائیلاسز اور پیوندکاری کے پروگرامز کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

لیورپول یونیورسٹی کے نیورولوجی کے پروفیسر ٹام سولومن نے کمیٹی کو بتایا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والوں کو زیادہ تعاون فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ڈاکٹروں نے متعدد مریضوں میں کووڈ 19 کے نتیجے میں مسائل کو دیکھا ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان افراد کو کس قسم کی ضرورت ہوسکتی ہے’۔

سالفورڈ رائل این ایچ ایس ٹرسٹ کے ماہرین ڈونل او ڈونوگوف نے بتایا کہ گردوں کو پہنچنے والا نقصان زیادہ بڑا خدشہ ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ یہ وائرس براہ راست گردوں پر حملہ کرتا ہے جبکہ گردوں کو وائرس کے نتیجے میں پھیلنے والے ورم سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘عام حالات میں آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے 20 فیصد افراد میں ڈائیلاسز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، کووڈ کے دوران یہ شرح 40 فیصد تک چلی گئی اور 85 فیصد افراد کو کسی قسم کے گردوں کے نقصان کا سامنا ہوا’۔

انہوں نے بتایا کہ یہ معلوم نہیں کہ کتنے افراد کو زیادہ سنگین گردوں کے امراض کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر یہ اعدادوشمار ممکنہ طور پر بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘لاکھوں افراد کو ڈائیلاسز یا پیوندکاری کی ضرورت ہوسکتی ہے’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عام حالات میں ہر سال ساڑھے 6 ہزار افراد کو ڈائیلاسز اور پیوندکاری کے پروگرامز کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

لیورپول یونیورسٹی کے نیورولوجی کے پروفیسر ٹام سولومن نے کمیٹی کو بتایا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والوں کو زیادہ تعاون فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ڈاکٹروں نے متعدد مریضوں میں کووڈ 19 کے نتیجے میں مسائل کو دیکھا ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان افراد کو کس قسم کی ضرورت ہوسکتی ہے’۔

کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات پر کام کرنے والی تحقیقی ٹیم میں شامل لیسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر کرس برائٹلنگ نے اس حوالے سے بتایا کہ ‘اس سے عندیہ ملتا ہے کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد ڈسچارج ہونے والے مریضوں کا جائزہ 2 سے 3 ماہ بعد لیا جائے تو صرف 10 سے 15 فیصد افراد ہی مکمل طور پر علامات سے محفوظ ہوتے ہیں’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی تحقیق میں شامل 50 مریضوں کے مکمل جسمانی اسکینز سے کووڈ 19 کے جسم پر مرتب اثرات کا انکشاف ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے گردوں، جگر، پھیپھڑوں اور دل کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھا اور کسی حد تک دماغ بھی متاثر ہوا۔ جن مریضوں کا 2 ماہ بعد جائزہ لیا گیا ان میں سے ایک تہائی سے زائد میں یہ اثرات دیکھنے میں آئے، ہمیں متعدد شواہد ملے ہیں کہ متعدد اعضا اس ایک بیماری کے نتیجے میں کس طرح متاثر ہوئے، جسے آغاز میں نظام تنفس کی ایک بیماری سمجھا گیا تھا’۔

اگرچہ ابھی زیادہ تر تحقیق ان افراد پر ہورہی ہے جو کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہے مگر پروفیسر کرس برائٹلنگ نے خبردار کیا کہ طویل المعیاد اثرات خاص طور پر تھکاوٹ اور دائمی تکلیف اس بیماری سے معتدل حد تک بیمار رہنے والے افراد کے لیے بھی مسئلہ بن سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ‘کچھ افراد کو شاید نمونیا ہوا ہو اور انہیں ہسپتال جانے کی ضرورت نہ پڑی ہو، مگر متعدد کو زیادہ اثرات کا سامنا ہوا ہوگا جس سے جسم کے متعدد اعضا متاثر ہوئے ہوں گے’۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کچھ مسائل شاید وقت کے ساتھ مزید بدتر ہو، جیسے گردوں کو پہنچنے والا ابتدائی نقصان یا ذیابیطس کا آغاز۔

ماہرین کی جانب سے کمیٹی کو ایسے شواہد بھی فراہم کیے گئے جن سے کووڈ 19 سے جسم کو اعصابی مسائل جیسے فالج اور دماغی ورم پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔

Exit mobile version