ایک بات مانتا نہیں، دوسرا سمجھتا نہیں!
میرے نزدیک وزیروں ،مشیروں، معاونین وغیرہ کے لئے تعلیم یا فتہ ہونے کی شرط عائد کرنا ایک بے معنی سی بات ہے کیونکہ انہوں نے عوام کے مسائل حل کرنا ہوتے ہیں اور عوام ان پڑھ ہیں چنانچہ ان پڑھ لوگوں کے مسائل اگر کسی پڑھے لکھے شخص کے سپرد کر دیئے جائیں تو وہ ان مسائل کو کیسے سمجھے گا؟ ایک صاحب اقتدار کے حلقے کا ایک سائل ان کے دفتر میں داخل ہوا اور کہا چودھری صاحب آپ سے ایک چھوٹا سا کام پڑ گیا ہے، وزیر صاحب نے کام پوچھا تو اس نے کہا کہ بڑے لڑکے نے تین قتل کر دیئے ہیں اور پولیس اس کی تلاش میں خواہ مخواہ گھر پر چھاپے مار رہی ہے۔ چودھری صاحب آپ تو جانتے ہیں کہ جوانوں کی دشمنیاں تو ہوتی ہی ہیںنا! چودھری صاحب چونکہ خود بھی ماشاءاللہ ’’جنے‘‘ ہیںلہٰذا انہیں یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی ،سو انہوں نے سائل کو یقین دلایا کہ ان کے ہوتے ہوئے اسے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کی جگہ اگر کوئی پڑھا لکھا شخص ہوتا تو اسے یہ بات ہی سمجھ نہ آتی جس کی وجہ سےسائل مایوس لوٹتا اور یوں حکومت کی بدنامی ہوتی !
البتہ ان پڑھ وزیروں مشیروں کے اپنے کچھ مسائل ہوتے ہیں جنہیں حل کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ماضی میں ایک ایسے ہی وزیر کو یہ پرابلم پیش آئی کہ انگریزی فائلوں کو وہ پڑھیں کیسے ؟ ان کے دوست نے بتایا کہ یہ فائلیں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بس ان پر SEENلکھ کر نیچے دستخط کر دیئے جاتے ہیں جب یہ فائلیں گھوم پھر کر واپس سیکشن تک پہنچیں تو اس نے دیکھا کہ وزیر صاحب نے ان پر اردو میں ’’س‘‘ لکھا ہوا تھا اور نیچے دستخط کئے ہوئے تھے!
اوپر کی سطور میں ان پڑھ صاحبانِ اقتدار کے لطیفے بیان کرنے کو تو میں نے بھی بیان کر دیئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ وزارت کے لئے اعلیٰ مناصب کے حقدار ہوتے ہیں ۔بہت پہلے کی بات ہے میں نے اسلام آباد کی ایک محفل میں ایک وزیر صاحب کو ’’جینٹری‘‘ میں پھنسے دیکھا، بیچارے بڑی مشکل میں تھے، محفل کے مطابق گفتگو کرنے کی کوشش میں ایسے ایسے لطیفے چھوڑ رہے تھے کہ جنہیں یادگار کہا جاسکتا ہے، مثلاً ایک ادیب سےپوچھنے لگے کیا آپ اپنی ’’برسی‘‘ہر سال مناتے ہیں، ادیب نے ’’پولا ‘‘ سا منہ بنا کر کہا ’’نہیں جی کئی دفعہ سال میں دو دفعہ بھی اپنی برسی منالیتا ہوں، محفل کے اختتام پر میں نے ایک دوست سے کہا یار سمجھ نہیں آتی یہ لوگ وزیر کس طرح بن جاتے ہیں؟ دوست نے جواب دیا ’’تم بھی بھولوں جیسی باتیں کرتے ہو، میاں یہ شخص سینکڑوں مربعے زمین کا مالک ہے، دیہات کے دیہات اس کے زیر نگیں ہیں، اگر یہ شخص سالگرہ کو ’’برسی‘‘ کہہ دے تو اس سے اس کی طاقت کو کیا فرق پڑتا ہے ؟ مجھے اپنے اس دوست کی بات سمجھ آ گئی اور یہ بات سمجھ میں آنے کی وجہ ایک اور بات کا یاد آنا بھی تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں جب بلوچستان پر فوج کشی کی وجہ سے مرکز اور صوبے کے درمیان سخت کشیدگی پائی جا رہی تھی ۔ نیشنل سنٹر لاہور میں ’’قومی یکجہتی ‘‘ کے لئے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر طاہر محمد خان کر رہے تھے اور مقرر لاہور کے ایک وفاقی وزیر تھے جو ان پڑھ نہیں بلکہ بہت پڑھے لکھے تھے۔ ان پڑھے لکھے وزیر صاحب نے پنجاب اور بلوچستان کے مابین خیرسگالی کے جذبات پیدا کرنے کی غرض سے اپنی عالمانہ تقریر کا آغاز کیا اور کہا خواتین وحضرات آج کے موضوع کی اہمیت اور نزاکت کے مدنظر میں بلوچستان کے بارے میں پوری ریسرچ اور پوری تیاری کے بعد حاضر ہوا ہوں، سب سے پہلے میں آپ کو بلوچستان کے لغوی معنی بتانا چاہتا ہوں بلوچستان کا مطلب ہے مکرو فریب کی زمین …. ‘‘یہ سن کر صدارت کی کرسی پر بیٹھے بلوچی رہنما طاہر محمد خان کا رنگ زرد ہو گیا میں نے اس تقریب پر کالم لکھتے ہوئے متذکرہ ’’عالم‘‘ وزیر صاحب کا بیان ’’کوٹ‘‘ کیا اور اپنے کالم میں ان کی جتنی ’’خدمت‘‘کر سکتا تھا کی، اس کالم کی اشاعت پر وزیر موصوف کو قومی اسمبلی اور اپنی پارٹی میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے انہوں نے ’’نوائے وقت‘‘ کو اپنا وضاحتی مضمون ارسال کیا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ تو ایک علمی بحث تھی اور یوں اسے اس حوالے سے دیکھا جانا چاہئے تھا ۔بس ان پڑھ وزیروں اور پڑھے لکھے وزیروں میں تقریباً وہی فرق ہے جو پنجاب کے دو گورنروں امیر محمد خاں اور موسیٰ محمد خان میں تھا۔ یعنی بقول ایوب خان ان میں سے امیر محمد خان بات سنتا نہیں تھا اور موسیٰ محمد خان سمجھتا نہیں تھا ،تاہم یہ صورتحال بعض صورتوں میں ہے ورنہ وزیر بہرحال وزیر ہوتا ہے، پڑھا لکھا ہو تو کسی نہ کسی سطح پر اسے ان پڑھ ہونا ہی پڑتا ہے اور ان پڑھ ہوتو بہرحال اسےکہیں نہ کہیں خود کو پڑھا لکھا ظاہر کرنا ہی پڑتا ہے تاہم دونوں صورتوں میں اس کی وفاداری شک و شبے سے بالاتر ہوتی ہے اور اس وفاداری کا تعلق اس کی وزارت سے ہوتا ہے ۔ وزارت ہاتھ سے جا رہی ہو تو علم اور جہالت دونوں کی خوبیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں ،وزارت کو بچانے کےلئے کچھ دیر ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود اگرانہیں کوئی امید نظر نہ آئے تو یہ پنچھی اڑ کر کسی اور ڈال پرجا بیٹھتے ہیں!