منتخب تحریریں

پرائیویٹ میڈیکل ایجوکیشن کے مسائل

Share

بیرون ملک پاکستانیوں، چاہے وہ جس بھی شعبے سے وابستہ ہیں، نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں، اپنی کارکردگی اور امانت و دیانت کے ساتھ نہ صرف اپنے لیے عزت و احترام کا مقام حاصل کیا بلکہ اپنے وطنِ عزیز کی نیک نامی اور عزت و توقیر میں اضافے کا باعث بھی بنے۔ قومی معیشت میں ان کی ترسیلاتِ زر کا حصہ اس کے علاوہ ہے۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں‘ ”مقامی لوگوں‘‘ کے ساتھ مسابقت کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دینے والے پاکستانی ان سے پیچھے نہ رہے۔ مڈل ایسٹ، خصوصاً سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں کی تعمیر و ترقی میں تو پاکستانیوں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں عام مزدور اور کاری گر سے لے کر آرکیٹیکٹ اور انجینئر تک سب شامل تھے۔ یہاں کے تعلیمی اداروں میں پاکستانی اساتذہ نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور چھوٹے، بڑے ہسپتالوں میں پاکستانی ڈاکٹروں نے اپنے لیے خاص مقام حاصل کیا۔ سعودی شہری اپنے علاج معالجے کے لیے، بڑے بڑے ہسپتالوں میں پاکستانی ڈاکٹروں کو امریکی و یورپی ڈاکٹروں سے کم اہمیت نہیں دیتے‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ وہ پاکستانی ڈاکٹروں سے علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میانوالی کے ڈاکٹر غلام اکبر نیازی تو شاہ عبداللہ کے ذاتی معالج بھی رہے۔ انہوں نے 1960 کی دہائی میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد سعودی عرب میں، ”حرس الوطنی‘‘ (نیشنل گارڈز) میں طبی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز ان کے کمانڈر تھے۔ نیشنل گارڈز میں بڑی تعداد انہی کے قبیلے کے نوجوان پر مشتمل تھی۔ اسے سعودی عرب کی یونیفارم فورسز میں ایلیٹ کا درجہ حاصل تھا۔ نوجوان ڈاکٹر نیازی، اپنی بہترین کارکردگی کے باعث جلد ہی شہزاد ہ عبداللہ کی نظروں میں سما گئے اور شہزادے کے ولی عہد بننے تک ان کے ذاتی معالج کے طور پر ان سے وابستہ رہے۔ دوپہر کے کھانے پر عموماً دونوں اکٹھے ہوتے تھے۔ ڈاکٹر نیازی کی حیثیت وزیر مملکت کی تھی۔ پھر وہ ولی عہد کی اجازت سے پاکستان لوٹ آئے۔ فروری 2006 میں شاہ عبداللہ پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کی خواہش پر اسلام آباد میں ڈاکٹر نیازی بھی ان کے وفد کا حصہ بن گئے۔
جنرل ضیاالحق کے دور میں بے شمار پاکستانی ڈاکٹر سعودی عرب میں خدمات کے لیے منتخب کئے گئے ان میں لیڈی ڈاکٹرز بھی تھیں لیکن لیڈی نرسز کو جانے کی اجازت نہ تھی کہ ضیاالحق اسے پاکستان کے قومی وقار کے منافی سمجھتے تھے۔
پاکستان میں میڈیکل ایجوکیشن کا معیار (وسائل کی کمی کے باوجود) دنیا کے کسی بھی ملک کے معیار سے کم نہ تھا بلکہ پڑوسی ملک بھارت سمیت دوسری اور تیسری دنیا کے متعدد ملکوں سے تو ہم کہیں آگے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اندرون ملک بھی طبی خدمات کی ضرورت بڑھتی چلی گئی۔ بد قسمتی سے تعلیم اور صحت کے شعبے ہماری اکثر و بیشتر حکومتوں کی ترجیحات میں بہت نیچے رہے ہیں۔ اس سے جو خلا پیدا ہوا‘ اس کو پُر کرنے کے لیے نجی شعبہ آگے آیا۔ اسے اپنے مسائل اور مطالبات اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس مقصد کے لیے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مالکان نے پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشنز (پامی) کی بنیاد رکھی۔ پامی کے نومنتخب عہدیداروں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر چودھری عبدالرحمن سے برسوں پرانی شناسائی ہے۔ ہم مبارک باد دینے پہنچے تو ان سے میڈیکل ایجوکیشن میں نجی شعبے کو درپیش مسائل پر بھی گفتگو رہی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں 160 میڈیکل کالجوں میں سے 110 نجی شعبے کے ہیں۔ ملک میں ہر سال بارہ سے چودہ ہزار داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات میں سے چھ، سات ہزار نجی شعبے میں آتے ہیں۔ متمول گھرانوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طلبا و طالبات ایسٹرن یورپ، سینٹرل ایشیا اور چین کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر وہاں غیر الحاق شدہ اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
چودھری صاحب کے بقول، پاکستان میں ہیلتھ کیئر کی ضرورتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ ابھی کورونا کے دنوں میں جو صورتِ حال بنی وہ تشویشناک سے بڑھ کر خطرناک حد کو پہنچ گئی تھی۔ ہمارے پاس نہ تو مطلوبہ تعداد میں ڈاکٹر تھے، نہ نرسز اور نہ ہی وینٹی لیٹر سمیت دیگر ضروری آلات اور سہولتیں۔ یو این او کی ایک قرارداد کے مطابق ہیلتھ کیئر پر کم از کم سات فیصد خرچ ہونا چاہیے لیکن اپنے ہاں، یہ بمشکل ایک فیصد ہے۔ ایک ہزار مریضوں پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں اڑھائی ہزار پر بھی ایک ڈاکٹر نہیں۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار رجسٹرڈ پریکٹیشنرز میں سے کچھ وفات پا گئے‘ کچھ بیرون ملک چلے گئے جبکہ لیڈی ڈاکٹرز کی خاصی بڑی تعداد پریکٹس نہیں کرتی اور شادی کے بعد گھر بیٹھ رہتی ہے‘ جس کے بعد اب اپنے ہاں کم و بیش صرف ایک لاکھ میڈیکل پریکٹیشنرز رہ گئے ہیں۔ گویا پاکستان کی 24 کروڑ آبادی میں‘ اڑھائی تین لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا، 1960 کی دہائی سے میڈیکل ایجوکیشن کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) موجود تھی۔ دنیا اس پر اعتبار اور اعتماد کرتی تھی۔ اب اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کونسل (PMC) آ گئی ہے۔ ہمیں کسی بھی ریگولیٹری باڈی کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس کے لیے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت تو ہو۔ کسی ریگولیٹری باڈی کی ریکوائرمنٹ اگر تین ایکڑ ہے تو ہمارے ادارے بیس، بائیس ایکڑ پر محیط ہیں۔ فیکلٹی میں اگر دو سو کی ضرورت ہے تو ہمارے اداروں میں ان کی تعداد چار سو تک پہنچ رہی ہے۔
”پامی‘‘ کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ہم کوالٹی ایجوکیشن کو فروغ دینا چاہتے ہیں، جس کے لیے نصاب میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں ضروری ہیں۔ دوسرا مقصد قومی اور بین الاقوامی اشتراک کو بڑھانا ہے۔ بڑے کالجوں میں ہارورڈ کے فارغ التحصیل اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ ریسرچ کلچر کا فروغ بھی ”پامی‘‘ کے مقاصد کا اہم حصہ ہے۔
اب بات پھر نجی شعبے کے مسائل کی طرف آ گئی تھی: مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج، ہائوس جاب خود فراہم کریں حالانکہ ساری دنیا میں اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں، ہائوس جاب کے دوران وظیفہ دینے کا بھی کہا جا رہا ہے، لیکن اس کا بوجھ سٹوڈنٹس پر بھی پڑے گا۔ سنٹرل میڈیکل پالیسی اپنی جگہ ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ پالیسی ناکام ہو چکی، سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر تین چار افراد کی اس پالیسی نے ناکام ہی ہونا تھا۔ اس پالیسی کے تحت ایک طالب علم کی سارا سال لسٹ لگتی رہتی ہے اور وہ سکون سے کسی ایک جگہ تعلیم حاصل کرنے کی بجائے کالج بدلتا رہتا ہے۔ ان دو برسوں میں یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا ہے۔ آپ کسی بچے کو زبردستی کسی کالج میں کیسے داخل کر سکتے ہیں؟ جو سٹوڈنٹ رحیم یار خان میں پڑھنا چاہتا ہے، اسے کبھی ملتان اور پھر لاہور بھیج دیتے ہیں۔ طالب علم ساہی وال کا ہوتا ہے اور اس کا داخلہ ڈیرہ غازی خان میں کر دیا جاتا ہے۔ فیصل آباد والے کو راولپنڈی بھجوا دیا جاتا ہے؛ چنانچہ وہ رٹ کر دیتا ہے کہ میں جہاں نہیں پڑھنا چاہتا وہاں مجھے کیوں بھیجا جاتا ہے؛ چنانچہ سنٹرل ایڈمشن پالیسی کے تحت میڈیکل کالجوں کی آدھی سے زیادہ سیٹیں خالی رہ جاتی ہیں۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے نظامِ امتحانات کے سامنے بھی پروفیسر عبدالرحمن کئی سوالیہ نشانات لگا رہے تھے، یہاں آئے روز پرچے لیک ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں، جس پر وائس چانسلر صاحب کو ہتھکڑیاں لگ جاتی ہیں۔