پاکستان کی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک حکومت مخالف اتحاد قائم کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس میں پیش پیش ہیں جبکہ جمعیت علما اسلام (ف) کو اس احتجاجی تحریک کا ایک اہم کردار تصور کیا جا رہا ہے۔
تاہم یہ تینوں جماعتیں گذشتہ ادوار میں سیاسی مخالف رہ چکی ہیں اور ایک دوسرے سے متصادم نظر آنے والے سیاسی نظریات رکھتی ہیں۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ایک دوسرے پر حکومتوں کو گرانے یا پارلیمان میں ایک دوسرے کے خلاف جوڑ توڑ کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں۔
اس کی حالیہ مثال سنہ 2018 میں سینیٹ چیئرمین کا انتخاب تھا جب (ن) لیگ کی حکومت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ مل کر مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا تھا اور انتخابات میں (ن) لیگ کو شکست ہوئی تھی۔
تاہم اگلے ہی سال جب پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ہی مدد سے منتخب ہونے والے سینیٹ چیئرمین کے خلاف متحدہ حزبِ اختلاف سے مل کر عدم اعتماد کی تحریک لائی تو اکثریت رکھنے کے باوجود (ن) لیگ وہ سینیٹ چیئرمین کا ہٹانے میں ناکام ہوئی، جس کا مطلب تھا کہ چند سینیٹرز نے اپنی جماعتوں کے خلاف ووٹ دیا۔
ایسی صورت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حوالے سے یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا حزبِ اختلاف کی ان سیاسی جماعتوں میں با معنی اتحاد بن پائے گا؟ یا پھر ان کے درمیان موجود دراڑیں وقت گزرنے کے ساتھ گہری ہو سکتی ہیں؟
عدم اعتماد کا اظہار کس نے کیا؟
حال ہی میں (ن) لیگ کے رہنما اور سابق وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری پر ’آج میں اعتماد نہیں کرتے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ لوگوں کو معلوم ہے کہ میں کس تناظر میں بات کر رہا ہوں۔۔۔ میں بار بار یہ کہوں گا کہ میں ان صاحب پر اعتماد نہیں کرتا۔’
تاہم (ن) لیگ کے قائد نواز شریف نے جلد ہی ان کے بیان سے یہ کہہ کر جماعت کو علیحدہ کر دیا کہ یہ ان کی ’جماعت کا مؤقف نہیں ہے۔‘ اسی روز لندن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں آصف علی زرداری کی عزت کرتا ہوں۔ وہ پی ڈی ایم کا اہم جُزو ہیں۔‘
سابق صدر آصف علی زرداری کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ترجمان نے مقامی ذرائع ابلاغ میں خواجہ آصف کے بیان پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے انھیں ’مشکوک‘ شخص قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں پی ڈی ایم کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔‘
کیا اس سے پی ڈی ایم کو خطرہ ہو سکتا ہے؟
سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس نوعیت کی متحدہ حزبِ اختلاف کی تحریکوں میں ابتدائی طور پر ایسی مشکلات کوئی نئی بات نہیں۔
صحافی اور تجزیہ نگار راشد رحمان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تین بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سے فطری اتحاد کی توقع رکھنا غیر حقیقی ہے۔
راشد رحمان کے مطابق ان تینوں جماعتوں کی اختلافات کی ایک تاریخ ہے اور اس کی وجہ سے ان جماعتوں میں ایک دوسرے پر عدم اعتماد رکھنے والی آوازیں بھی موجود ہیں۔ تینوں جماعتوں کے حالات بھی مختلف ہیں۔
’تاہم اہم بات یہ ہے کہ ان تینوں اور حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کا باہمی مفاد اس وقت اتحاد ہی میں ہے۔ اس طرح وہ ایک دوسرے کی طاقت کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اس لیے اختلافات پر ضرورت حاوی ہو جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ (ن) لیگ کے قائد نواز شریف نے اپنی جماعت کے رہنما کے بیان سے خود کو اور جماعت کو علیحدہ کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔
اتحاد حزبِ اختلاف کی ضرورت کیوں ہے؟
صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی بھی راشد رحمان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’گو کہ حزبِ اختلاف کے اتحاد میں دراڑیں پہلے سے موجود تھیں اور رہی ہیں لیکن اب یہ دراڑیں مزید بڑھیں گی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ کم ہوں گی۔‘
وہ بھی سمجھتے ہیں کہ حالات کو دیکھتے ہوئے نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان یہ طے کر چکے ہیں کہ اتحاد کی فضا کو برقرار رہنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ (ن) لیگ کے قائد نواز شریف نے فوری طور پر خواجہ آصف کے بیان سے دوری اختیار کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خواجہ آصف کو بھی نیب کی طرف سے طلبی کا نوٹس آ چکا ہے اس لیے وہ خود بھی ذاتی طور پر پارٹی قیادت کی آواز سننے کی طرف مائل ہوں گے۔
’قیادت ایسی آوازوں کو دبا دے گی‘
راشد رحمان کا استدلال ہے کہ پی ڈی ایم یا متحدہ حزبِ اختلاف کی تحریک میں ایسی آوازیں سامنے آتی رہیں گی تاہم جماعتوں کی اعلیٰ قیادت ان پر قابو پا سکتی ہے۔ ان کے مطابق نواز شریف اور ان کی جماعت پی ڈی ایم میں مرکزی حیثیت حاصل کر چکی ہے اور ان کے فیصلوں کی اہمیت ہو گی۔
مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا جوں جوں حزبِ اختلاف کی تحریک آگے بڑھے گی اس قسم کی آوازیں دب جائیں گی۔ ’ان جماعتوں کی قیادت ایسی آوازوں کو دبا دے گی جیسا کہ خواجہ آصف کے حوالے سے دیکھنے میں آیا۔‘
راشد رحمان کے مطابق نواز شریف ہمیشہ سے اپنی جماعت اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی یہ منوانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ جے یو آئی (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمان کو ساتھ لے کر چلا جائے۔
’فی الوقت وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں نہیں کھیل رہے‘
راشد رحمان اس تاثر کو نہیں مانتے کہ (ن) لیگ یا پی پی پی کے اندر سے عدم اعتماد کے آوازیں اٹھانے والے رہنما ’پی ڈی ایم کو سبوتاژ کرنے کی نیت سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہوں گے۔‘
’یہ بنیادی طور پر ان کا ماضی ہے اور اس کے تلخ تجربات ہیں جن کی وجہ سے ایسے بیان سامنے آ رہے ہیں اس سے زیادہ فی الوقت کچھ نہیں۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اس قسم کے مواقع کی تاک میں رہتی ہے تاکہ مخالف تحریک کو نقصان پہنچایا جائے۔
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ (ن) لیگی رہنما خواجہ آصف کے بیان پر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے نواز شریف سے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ’اس کے بعد نواز شریف نے جماعت کی مجلس میں بھی خواجہ آصف سے معاملے کو ختم کرنے کا کہا تھا۔‘
کیا حزبِ اختلاف کی تحریک حکومت کو مشکل میں ڈال سکتی ہے؟
حکومت مخالف تحریک کے مستقبل کے حوالے سے تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کا استدلال ہے کہ متحدہ حزبِ اختلاف نے تحریک کے لیے درست وقت کا انتخاب کیا ہے اور وہ حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔
’عوام پہلے ہی مہنگائی اور بدعنوانی معاشی بحران کی وجہ سے پریشان ہیں اور حزبِ اختلاف نے دو برس کا عرصہ انتظار کرنے اور حکومت کو کارکردگی دکھانے کی مہلت دینے کے بعد تحریک کا فیصلہ کیا ہے۔‘
مجیب الرحمان شامی کے مطابق مذہبی جماعتوں کے پاس تحریک کے لیے لوگوں کو باہر نکالنے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے تاہم پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ (ن) لیگ کا کارکن بھی متحرک ہوگا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے بھی سڑکوں پر نکلیں گے۔
لیکن تجزیہ کار راشد رحمان سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے غیر یقینی کی سی فضا ہے جس کے لیے حزبِ اختلاف کی طرف سے پی ڈی ایم کا 11 تاریخ کو بلوچستان میں ہونے والا جلسہ اہم ہوگا۔
بشکریہ بی بی سی اُردو