سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے مریخ کے جنوبی قطب کے قریب سطح کے نیچے دفن پانی کی تین جھیلیں دریافت کی ہیں۔
سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے کہ وہاں ایک چوتھی جھیل بھی ہے، جس کی موجودگی کا اشارہ 2018 میں ملا تھا۔
چونکہ پانی حیاتیات کے لیے اہم ہے، لہذا یہ دریافت شمسی نظام کے دوسرے سیاروں پر زندگی کے امکانات کے مطالعہ کرنے والے محققین کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
لیکن یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ جھیلیں اتنی نمکین ہو سکتی ہیں کہ ان میں کرہ ارض سے پائے جانے والے خوردبینی جانداروں کی افزائش انتہائی مشکل ہو۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اربوں سال پہلے مریخ کی سطح پر بہتے دریاؤں سے پانی اکٹھا ہو کر ان جھیلوں میں آیا تھا۔ تاہم اب مریخ کا ماحول اور آب و ہوا یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ پانی اب مریخ کی سطح پر زیادہ دیر تک مائع حالت میں نہیں ٹھہر سکتا۔
تاہم مریخ کی سطح کے نیچے حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔
سائنسدانوں نے یہ تازہ دریافت یورپین خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کے مریخ ایکسپریس خلائی جہاز کے ریڈار آلے سے حاصل کردہ ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے کی، جو دسمبر 2003 سے سرخ سیارے کا چکر لگا رہا ہے۔
اور 2018 میں، محققین کو مریخ کے ریڈار سے حاصل کردہ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے مریخ کی ایک ذیلی سطح کے نیچے 20 کلومیٹر چوڑی اور سیارے کے جنوبی قطب کی تہوں سے 1.5 کلومیٹر نیچے ایک جھیل کے اشارے ملے تھے۔ یہ برف اور دھول کی تہوں کے نیچے تھی۔
ان زیر سطح جھیلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اٹلی کے قومی ادارہ برائے فلکی طبیعات کے ڈاکٹر روبرٹو اوروسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس بات کا قومی امکان ہے کہ ماضی میں یہ جھیلیں موجود ہوں۔‘
’یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ماضی میں سیارے پر کبھی زندگی یا اس سے ملتا جلتا کچھ رہا تھا اور آپ اس کی تلاش کر سکتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ’مریخ موسمیاتی تبدیلی کی اعتبار سے شدید متاثر ہے اور ایک غیر واضح گرم سیارے سے سرد سیارے میں تبدیل ہو رہا ہے۔ وہاں وہ جگہ تھی جہاں زندگی ممکن ہو سکتی ہے۔‘
تاہم، یہ تلاش ان 29 مشاہدات پر مبنی تھی جو 2012 اور 2015 کے درمیان مرتب کیے گئے۔ فی الحال، ایک ایسی ٹیم جس میں متعدد سائنس دان شامل ہیں جنھوں نے 2018 کے مطالعے میں حصہ لیا تھا، نے 2010 اور 2019 کے درمیان ریڈار کے ذریعے جمع کی گئی 134 فائلوں کے بڑے ڈیٹا سیٹ کا تجزیہ کیا ہے۔
اٹلی میں روم ٹری یونیورسٹی سے شریک محقق ایلینا پیٹینلی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے 2018 کے مطالعے سے نہ صرف ان جھلیوں کے محل وقوع، رینج اور طاقت کی تصدیق کی بلکہ ہمیں تین نئے روشن علاقے بھی ملے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مرکزی جھیل کے ارد گرد مائع پانی کی چھوٹے چھوٹے ذخیرے ہیں، لیکن ریڈار کی تکنیکی خصوصیات اور مریخ کی سطح سے دوری کی وجہ سے ہم یہ طے نہیں کرسکتے کہ یہ آپس میں جڑے ہوئے ہیں یا نہیں۔‘
اس ٹیم نے اس تکینک کا استعمال کیا جو انٹارکٹیکا، کینیڈا اور گرین لینڈ میں برفانی تودوں تلے موجود جھیلوں کی ریڈار سے جانچ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
روم یونیورسٹی کے شریک مصنف سیبسٹین لاورو کا کہنا ہے کہ ’سب سے بہترین وضاحت جو تمام دستیاب شواہد سے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ (مریخ سے) مائع پانی کے پھیلے ہوئے تالابوں سے زیادہ شدت کا انعکاس ہو رہا ہے۔‘
چونکہ برف پگھلنے کے لیے سیارے کی ان گہرائیوں میں اتنی حرارت موجود نہیں ہے، لہذا سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مائع پانی میں تحلیل نمکیات کی زیادہ مقدار موجود ہونی چاہیے۔ لہذا یہ کیمیائی نمکیات (جو ہمارے استعمال کردہ نمک سے مختلف ہیں) پانی کے نقطہ انجماد کو تیزی سے کم کر سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’درحقیقت، حالیہ تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ میگنیشیم اور کیلشیم پرکلوریٹ (چار آکسیجن ایٹموں پر مشتمل کلورین پر مشتمل ایک کیمیائی مرکب) پر مشتمل تحلیل شدہ نمک پر مشتمل پانی، منفی 123 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت پر مائع رہ سکتا ہے۔
’ان تجربات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ نمکین محلول طویل جغرافیائی مدت کے لیے بھی مائع رہ سکتے ہیں یہاں تک کہ مارٹین قطبی علاقوں (خالص پانی کے جم جانے والے درجہ حرارت کی سطح سے نیچے بھی) مخصوص درجہ حرارت پر بھی۔`
اس طرح کے حالات میں زندگی کا امکان اس بات پر منحصر ہے کہ مریخ کی سطح کے نیچے پائے جانے والے یہ پانی کے تالاب کتنے نمکین ہیں۔
زمین پر صرف انتہائی مخصوص قسم کے جرثومے جسے ہیلوفائلز کے نام سے جانا جاتا ہے پانی کے نمکین ذخیروں میں زندہ رہ سکتے ہیں۔
محقق ڈاکٹر اوروسی کے مطابق اگرچہ ایک واحد نیم برفانی جھیل کے وجود کو برف کی چادر کے نیچے آتش فشاں کے وجود جیسے غیر معمولی حالات سے منسوب کیا جاسکتا ہے لیکن جھیلوں کے ایک پورے نظام کی دریافت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تشکیل کا عمل نسبتاً آسان اور عام ہے اور یہ جھیلیں نسبتا آسان اور عام ہیں۔‘ یہ مریخ پر قدیم زمانے سے ہی رہا ہو گا۔‘
ڈاکٹر اوروسی کا کہنا ہے کہ اس پر ابھی تحقیق جاری ہے کہ کیا اس طرح کے حالات میں جیسے ان جھیلوں میں ہیں زندگی ممکن ہو سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان جھیلوں میں نمکیات بہت زیادہ ہیں اور یہ زندگی کی نشو و نما کے لیے موزوں نہیں ہے۔‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس پر ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ‘ابھی مریخ کے دبیز ماحول میں زندگی کے آثار موجود ہو سکتے ہیں، قدری نرم آب و ہوا اور سطح پر محلول پانی کیش کل میں جیسے کرہ ارض نے ابتدائی دنوں میں تھا۔’
ڈاکٹر اوروسی کے مطابق ٹیم کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا ابھی مزید ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔