دنیابھرسے

امریکی صدر کی صحت کے بارے میں شکوک و شبہات، ٹرمپ حامیوں سے ملنے ہسپتال سے باہر آ گئے

Share

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد ہسپتال میں زیرعلاج ہیں جہاں ان کے خون میں آکسیجن کی سطح دو بار نیچے جا چکی ہے جبکہ انھیں سٹیررائیڈز بھی دیے گئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ڈاکٹر شان کونلی نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ پیر کے روز صدر کو ہسپتال سے رخصت دے کر وائٹ ہاؤس منتقل کر دیا جائے جہاں وہ اپنی صحت کی مکمل بحالی تک کا وقت گزاریں گے لیکن اب اس امکان پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اتوار کے روز صدر ٹرمپ نے ہسپتال سے نکل کر اپنے حامیوں کو خوش آمدید بھی کہا۔ اس دوران بے شک ٹرمپ ماسک پہنے گاڑی میں ہی بیٹھے رہے لیکن اس کے باوجود انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس سے قبل جمعے کے روز وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ میں وائرس کی ہلکی علامات ہیں لیکن تازہ ترین اطلاعات میں تصدیق ہوئی ہے کہ امریکی صدر کے خون میں آکسیجن کی سطح دو بار نیچے گرنے پر انھیں سٹیررائیڈ ڈیکسامیتھازون دی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق ڈیکسامیتھازون کا استعمال ان مریضوں پر کیا جاتا ہے جن کی حالت انتہائی نازک ہو۔

واضح رہے کہ امریکی صدر اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ میں جمعے کو کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد صدر ٹرمپ کو والٹر ریڈ ملٹری میڈیکل ہپستال میں داخل کیا گیا تھا جبکہ میلانیا ٹرمپ وائٹ ہاؤس ہی میں ہی قرنطینہ ہیں۔

سنیچر کی شام ٹوئٹر پر صدر ٹرمپ کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹھیک ہیں لیکن اگلے چند دن ‘اصل امتحان’ کے ہوں گے۔

چار منٹ کے اس ویڈیو پیغام میں کالا کوٹ اور بنا ٹائی کے قمیض پہنے صدر ٹرمپ نے والٹر ریڈ ملٹری میڈیکل سنٹر کے ڈاکٹروں اور نرسوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔

ویڈیو پیغام میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا: ‘جب میں یہاں آیا تھا تو میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن اب میں بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں۔’

ان کا مزید کہنا تھا: ‘میرے خیال میں اصل امتحان آنے والے دنوں میں ہو گا، ہم دیکھتے ہیں کہ اگلے چند دنوں میں میری صحت کے حوالے سے کیا ہوتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ وہ انتخابی مہم کو دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔

‘میرے خیال میں، میں جلد ہی صحت یاب ہو کر واپس آؤں گا اور انتخابی مہم کا اختتام اسی طرح کروں گا جس طرح اس کا آغاز کیا گیا تھا۔’

یاد رہے کہ تین نومبر کے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن صدر ٹرمپ کے مد مقابل ہیں۔

74 برس کے امریکی صدر ٹرمپ طبی طور پر موٹاپے کا شکار ہیں اور وہ کووڈ 19 کی ہائی رسک کٹیگری میں آتے ہیں۔

ٹرمپ

سوشل میڈیا پر ردعمل

اس وقت امریکہ سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی دلچسپی اب نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات کی بجائے امریکی صدر کی صحت اور علاج کے حوالے سے تازہ ترین معلومات حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی متعدد صارفین دھرا دھر اپنے خیالات اور شکوک و شبہات کا ذکر رہے ہیں۔

امریکی صحافی ہوورڈ فائن مین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ویڈیو پیغام کے بارے میں ٹوئٹر پر لکھا: ٹرمپ کے ساتھ کئی برسوں کی ملاقاتوں اور سنہ 2016 کی انتخابی مہم کے بعد اور ٹرمپ کی ویڈیو کو دوبارہ غور سے دیکھنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ٹرمپ خوفزدہ ہیں، بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔ ان کو دیکھنا بھی تقریباً مشکل ہے۔’

امریکہ میں معاشی امور کے ماہر رابرٹ ریچ ٹوئٹر پر لکھا: ‘جب عالمی ادارہ صحت نے امریکی عوام کوعلاج کے لیے قواعد تجویز کیے تو ٹرمپ نے انھیں نظر انداز کیا لیکن جب ان اپنی صحت پر بات آئی تو وہ ان قواعد پر عمل کر رہے ہیں۔’

ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما حکیم جیفریز نے اتوار کے روز ٹرمپ کو ہستال کے باہر دیکھے جانے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے مختصر انداز میں لکھا:’ 205000 امریکی مر چکے ہیں۔ ہمیں تصاویر نہیں قیادت چاہیے۔’

سی این این کی نامہ نگار ایم جے لی نے بھی ٹرمپ کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ‘ٹرمپ والٹر ریڈ کے باہر موجود اپنے حمایتیوں کے لیے گاڑی میں بیٹھے باہر آئے۔ اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کا شکار ٹرمپ کے ساتھ اس گاڑی میں اہلکار بھی سوار ہیں۔’

امریکی گلوکارہ بابرہ سٹریسینڈ نے لکھا: ‘بدھ کو اپنی انتخابی ریلی میں جاتے ہوئے ممکنہ طور پر ٹرمپ کو علم تھا کہ انھیں کورونا وائرس ہے۔ وہ بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے تھے۔ پھر وہ نیوجرسی میں بغیر ماسک پہنے فنڈ جمع کرنے بھی گئے۔ یہ بہت غیر ذمہ دارانہ ہے۔’

امریکی ٹی وی میزبان جوئے ریڈ ڈونلڈ ٹرمپ پر انتہائی برہم دکھائی دیں اور لکھا: ‘وائٹ ہاؤس کے خانساموں اور سٹاف، خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں اور کورونا وائرس کا شکار ستر لاکھ سے زیادہ امریکی شہریوں اور 207000 افراد کے خاندان، جو ٹرمپ کے دور حکومت میں مارے گئے اور ماشی تباہی کا شکار لاکھوں افراد کے لیے دعائیں۔’

ہم صدر ٹرمپ کی صحت کے متعلق کیا جانتے ہیں؟

74 سالہ امریکی صدر ٹرمپ طبی طور پر موٹاپے کا شکار ہیں اور وہ کووڈ 19 کی ہائی رسک کٹیگری میں آتے ہیں۔

سنیچر کو ہونے والی پریس کانفرس میں ڈاکٹر کونلی نے متعدد بار اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا کے کیا صدر ٹرمپ کو آکسیجن پر رکھا گیا تھا؟ ان کا کہنا تھا ’نہ اس وقت اور نہ ہی گذشتہ روز سے جب سے ہم سب ان کے پاس ہیں انھیں آکسیجن نہیں لگائی گئی۔‘

جبکہ اس کے کچھ ہی دیر بعد چند امریکی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ جمعے کو ڈاکٹروں کی جانب سے وائٹ ہاؤس سے ہسپتال منتقل کرنے سے قبل صدر ٹرمپ کو آکسیجن لگائی گئی تھی تاہم یہ واضح نہیں کہ صدر ٹرمپ کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا اور انھیں اس کی ضرورت تھی۔

تاہم ڈاکٹر کونلی سے جب پوچھا گیا کہ انھوں نے اس حوالے سے پہلے تصدیق کیوں نہیں کی تھی، تو انھوں نے کہا: ‘میں ہماری ٹیم کے بلند حوصلے کی عکاسی کرنا چاہ رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی طبیعت کافی اچھی ہے۔’

امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ، جو خود بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئی ہیں، کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی صحت ٹھیک ہے اور وہ وائٹ ہاؤس میں ہی قرنطینے میں ہیں۔

ٹرمپ اور میلانیا

صدر ٹرمپ کے ارد گرد اور کون کورونا سے متاثر ہوا ہے؟

ڈاکٹر کونلی نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا کہ صدر ٹرمپ کب اور کہاں سے کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔

تاہم گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کے پرہجوم روز گارڈن والے جلسے میں جہاں انھوں نے ایمی کونی بیرٹ کی بطور سپریم کورٹ جج نامزدگی کی تھی، اس ضمن میں کافی زیر بحث ہے۔

صدر ٹرمپ اور خاتون اول کے علاوہ چھ اور افراد جنھوں نے اس تقریب میں شرکت کی تھی، ان میں بھی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

سنیچر کو انتخابی مہم کی مشیر اور سابق نیو جرسی گورنر کرس کرسٹی میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے قریب دیگر افراد میں ان کی قریبی معاون ہوپ ہکس، انتخابی مہم کے منیجر بل سٹیپین اور سابق وائٹ ہاوس کونسلر کیلین کونوے شامل ہیں۔

جبکہ ریپبلکن پارٹی کے رہنما مچ میکونل کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے اجلاس کی کارروائی کو 19 اکتوبر تک مؤخر کیا جاتا ہے تاہم جج بیرٹ کی بطور سپریم کورٹ جج نامزدگی کا جائزہ لینے والی سینیٹ کی کمیٹی برائے عدلیہ کام کرتی رہے گی۔

بعدازاں سنیچر کو سینیٹر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے اور انھیں ’صدر ٹرمپ کی صحت بہتر لگی اور وہ اچھا محسوس کر رہے ہیں۔‘

صدر ٹرمپ اب بھی سرکاری ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جبکہ نائب صدر مائیک پینس جنھیں امریکی آئین کے تحت صدر بہت زیادہ بیماری اور ذمہ داریاں نہ نبھانے کے قابل رہنے کے باعث اپنے اختیارات سونپ سکتے ہیں، کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا ہے۔

صدر ٹرمپ کو جمعے کی شام ہسپتال منتقل ہونے سے قبل عوامی سطح پر دیکھا گیا تھا جب انھوں نے ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے سے قبل رپورٹروں کی جانب ہاتھ ہلایا تھا تاہم وہ کچھ بولے نہیں تھے۔

مہم

انتخابی مہم کی کیا صورتحال ہے؟

صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’میرے خیال میں، میں جلد ہی صحت یاب ہو کر واپس آؤں گا اور انتخابی مہم کا اختتام اسی طرح کروں گا جس طرح اس کا آغاز کیا گیا تھا۔‘

صدر ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کا کہنا ہے کہ جب تک صدر ٹرمپ صحت یاب ہو کر انتخابی مہم میں شامل نہیں ہوتے وہ اسے مکمل طریقے سے آگے بڑھاتے رہیں گے۔

ان کی ٹیم انتخابی مہم میں صدر کے ’متبادل‘ کے طور پر تمام اہم افراد کو انتخابی مہم میں شامل کر رہے ہیں جن میں صدر ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ جونیئر اور ایرک، نائب صدر مائیک پنس شامل ہیں اور جو فی الوقت اس انتخابی مہم کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔

’آپریشن ماگا‘ کے نام سے کہے جانے والی مہم کے حوالے سے انتخابی مہم کے ترجمان نے فوکس نیوز کو بتایا کہ اس سلسلے میں پہلی تقریب پیر کو ایک ورچوئل ریلی کے صورت میں رکھی گئی ہے۔

نائب صدر مائیک پینس جن کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا ہے، بدھ کو ڈیموکریٹک نائب صدر کی امیدوار کامالا ہیرس سے مباحثہ کریں گے۔

تاہم ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کو جاری رکھا ہوا ہے اور انھوں نے سنیچر کو ایک ورچوئل تقریب سے خطاب بھی کیا ہے۔