Site icon DUNYA PAKISTAN

کیا پاکستان میں استعمال شدہ کاروں کی خرید و فروخت پر اب ٹیکس دینا ہوگا؟

Share

پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت پر ٹیکس کے حوالے سے ایک نیا قانون کئی دنوں سے گردش میں ہے اور کئی لوگ اس بارے میں کنفوژن کا شکار ہیں۔

یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب 30 ستمبر 2020 کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ایک ایس آر او جاری کیا گیا جس میں استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت پر سیلز ٹیکس کے حوالے سے نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں ان خبروں پر تشویش ظاہر کی کہ شاید اب استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت پر دونوں فریق کوئی نیا اضافی ٹیکس ادا کریں گے۔

تاہم لیکن ایف بی آر نے ٹوئٹر پر وضاحت کی کہ ان نئے قوانین کو حال ہی میں حتمی شکل دی گئی ہے اور فنانس ایکٹ 2020 میں سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کو ری کنڈیشن کر کے فروخت کرنے کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کے لیے شق شامل کی گئی تھے جس کے لیے یہ نیا اصول قائم کیا گیا ہے۔

کیا استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت پر ٹیکس دینا ہوگا؟

ایف بی آر کے مطابق یہ نیا قانون صرف پرانی گاڑیوں کو ری کنڈیشن حالت میں فروخت کرنے پر عائد ہوگا، یعنی اگر گاڑی کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ’اس کاروبار کی حوصلہ افزائی کے لیے سیلز ٹیکس کی رعایتی شرح متعین کی گئی ہے۔‘

ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے تحت پرانی گاڑیوں کی مکمل قیمتِ خرید کے بجائے صرف منافعے پر 17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

ایف بی آر کے مطابق یہ صرف ان افراد پر عائد ہوگا جو استعمال شدہ گاڑیوں کی قدر بڑھا کر انھیں زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں، جس سے ری کنڈیشن گاڑیاں مناسب قیمتوں پر دستیاب ہوسکیں گی۔

ایس آر او میں سیلز ٹیکس کا فارمولا جاری کیا گیا ہے۔ صارفین کو گاڑی کی قیمتِ خرید اور قیمت فروخت کے درمیان فرق (یعنی منافع) پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

ایف بی آر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’موجودہ قانون کے تحت گاڑی کی کل قیمتِ خرید پر (17 فیصد) سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا تھا جو کہ سخت تھا۔

’کاروباری حلقے نے ملک کے بڑے چیمبرز آف کامرس سے حمایت حاصل کی اور ان کی درخواست پر فنانس ایکٹ میں سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کو ری کنڈشن کرنے کے کاروبار کو ریلیف دیا گیا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

’یہ آسانی سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ افراد کے لیے عائد کردہ ویلیو ایڈیشن کا 17 ہے۔ غیر رجسٹرڈ افراد کسی خریدار سے سیلز ٹیکس کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔‘

ایف بی آر کے مطابق اگر استعمال شدہ گاڑی کی فروخت پر منافع نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے تو یہ ٹیکس ادا کرنا نہیں پڑے گا۔ اس ایس آر او میں بینک کے ذریعے رقم منتقل کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔

مقامی نیوز چینلز پر جب یہ ٹیکرز چلے کہ ’استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت پر اب مزید ٹیکس ادا کرنا ہوگا‘ تو لوگوں نے اس کے ردعمل میں کافی غصے کا اظہار کیا تھا۔

کئی صارفین کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ متوسط طبقے کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔

بعد ازاں ایف بی آر کی جانب سے وضاحت جاری کی گئی۔ لیکن لوگوں کے لیے یہ بات پھر بھی واضح نہ ہوسکی جو یہ کہتے دکھائی دیے کہ انھیں اس قانون سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا جائے۔

’استعمال شدہ گاڑیاں مزید مہنگی ہوسکتی ہیں‘

ٹیکس امور کے ماہر علی سجاد جعفری نے استعمال شدہ گاڑیوں کے لین دین کے ریکارڈ سے متعلق اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ عام لوگ بھی جب اپنی پرانی گاڑی بیچیں گے تو یہ ٹیکس ان پر لاگو ہوگا تاہم یہاں سیلز ٹیکس کی گنجائش نہیں بنتی تھی۔

ان کے خیال میں اس اقدام سے استعمال شدہ گاڑیاں مزید مہنگی ہوجائیں گی اور ان کاروں کی خرید و فروخت متوسط طبقہ ہی کرتا ہے جن پر اس کا بوجھ بڑھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی ہر صوبے میں سیلز ٹیکس الگ ہوچکا ہے اور ڈیلر بھی پرانی گاڑیوں پر کمیشن کمانے پر اپنی آمدن پر سروسز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

انھوں نے ان امکانات کا بھی اظہار کیا کہ اب لوگ اپنی استعمال شدہ گاڑی کو اس کی قیمت سے کم ظاہر کریں گے اور دوسرے طریقوں سے گاڑیوں پر منافعے کو چھپائیں گے۔

Exit mobile version