دنیابھرسے

برطانوی ارب پتی بھائی محسن اور زبیر عیسیٰ کون ہیں؟

Share

برطانیہ میں پیٹرول سٹیشنز کے کاروبار سے پیسہ بنانے والے ارب پتی بھائیوں نے برطانیہ کی سب سے بڑی مارکیٹ چینز میں سے ایک ایزڈا کو چھ اعشاریہ آٹھ ارب پاؤنڈ میں خرید لیا ہے۔

انھوں نے ایزڈا کو اس کے امریکی مالک وال مارٹ کمپنی سے خریدا ہے۔

دی سنڈے ٹائمز کے مطابق ان بھائیوں کی جائیداد کی کل مالیت 3 اعشاریہ 56 ارب پاؤنڈ ہے۔

عیسیٰ برادران ‘یورو گیراجز’ نامی کمپنی کے مالک ہیں جس کے 5 ہزار 200 سے زیادہ پیٹرول سٹیشنز اور 33 ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں۔ ان پیٹرول سٹیشنز میں سے زیادہ تر یورپ اور امریکہ میں ہیں۔

پیٹرول سٹیشنز کے علاوہ ان کی کمپنی دیگر کاروبار بھی کرتی ہے۔

یورو گیراجز کا 50 فیصد دونوں بھائیوں کا اور باقی کے 50 فیصد کی مالک کمپنی ٹی ڈی آر کیپیٹل ہے۔ اسی کمپنی کے ساتھ مل کر انھوں نے برطانیہ کی تیسری بڑی مارکیٹ ایزڈا کا سودا کیا ہے۔

اس سودے کے ساتھ ہی ایزڈا مارکیٹ امریکی سے برطانوی ملکیت میں آگئی ہے اور اس وجہ سے اس ڈیل اور بھائیوں کو سراہا جا رہا ہے۔

ابھی امریکی کمپنی وال مارٹ کے ساتھ اس معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

انھیں ارب پتی ہونے کے باوجود بلیک برن سے ہجرت نہ کرنے کی وجہ سے بھی سراہا جاتا ہے۔

ارب پتی بھائی محسن اور زبیر عیسیٰ کون ہیں؟

زبیر اور محسن عیسیٰ کی عمریں بالترتیب 48 اور 49 سال ہیں۔

ان کے خاندان کا تعلق انڈیا کی ریاست گجرات سے ہے جو سنہ 1960 کی دہائی میں نقل مکانی کر کے برطانیہ میں آباد ہوا تھا۔

دونوں بھائی انگلینڈ کے شہر بلیک برن میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام کرتے تھے اور بعد میں انھوں نے ایک پیٹرول سٹیشن خریدا لیکن پھر جلد ہی اسے پیچ دیا۔

دونوں بھائیوں نے ارادہ کیا کہ وہ پیٹرول سٹیشنز کا اپنا کاروبار کھولیں گے جہاں صرف پیٹرول ہی نہیں بلکہ ساتھ چھوٹی مارکیٹ بھی ہوگی۔

انھوں نے سنہ 2001 میں پیٹرول سٹیشنوں کے کاروبار میں قدم رکھا اور مانچسٹر کے قریبی قصبے بری میں ایک خستہ حال پیٹرول پمپ خریدا اور اپنے خاندان سے ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ ادھار پکڑ کر اسے بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اس میں نیوز ایجنٹ اور پرچون کی دکان کا اضافہ کیا۔ ایک مصروف شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے ان کا پٹرول سٹیشن کامیاب رہا۔

Zuber and Mohsin Issa
،تصویر کا کیپشندونوں بھائیوں کو حال ہی می ںایک ایوارڈ سے میں نوازا گیا تھا

یورو گیراجز نامی کمپنی آج 5 ہزار 200 سے زیادہ پیٹرول سٹیشنز کی مالک ہے جہاں 33 ہزار سے زیادہ افراد ملازم ہیں۔ ان پیٹرول سٹیشنز میں سے زیادہ تر یورپ اور امریکہ میں ہیں۔

حال ہی میں بلیک برن کے قریب کھلنے والا ان کا سروس سٹیشن چار ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جہاں ڈرائیو تھرو کے ایف سی، سٹار بکس، اور ایک چھوٹی مارکیٹ اور پیٹرول سٹیشن کے علاوہ الیکٹرک چارجنگ کی سہولت بھی موجود ہے۔

2 کروڑ پاؤنڈ عطیہ

وہ اپنی جائیداد کا 2 اعشاریہ 5 فیصد ہر سال اپنے امدادی ادارے کو عطیہ کرتے ہیں جو برطانیہ اور دیگر ممالک میں پراجیکٹس پر لگائے جاتے ہیں۔ سنہ 2019 میں انھوں نے 2 کروڑ پاؤنڈ عطیہ کیے تھے۔

asda
،تصویر کا کیپشنایزڈا برطانیہ کی مارکیٹ چینز میں تیسری بڑی مارکیٹ ہے

پانچ ایک جیسے عالیشان گھر بنانے پر تنازع

دونوں بھائیوں نے بلیک برن میں آٹھ گھر خرید کر انھیں مسمار کر کے ان کی جگہ پانچ عالیشان گھر بنانے کا منصوبہ شروع کیا تو اس پر تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔ لینکاشائر ٹیلی گراف کے مطابق اس منصوبے پر اس علاقے کے مقامی افراد کو اعتراض تھا۔

گارڈیئن اخبار سے بات کرتے ہوئے مقامی کونسلر فِل رائلی کا کہنا تھا کہ ہمسائے ناراض تو ہیں لیکن ان کی اس شہر میں موجودگی شہر کے لیے اچھا ہے۔

‘یہ بلیک برن کے لیے غیر معمولی گھر ہیں لیکن بلیک برن میں ان ارب بتیوں کا ہونا بھی غیر معمولی ہے۔ ارب پتی افراد وہ کام کرتے ہیں جو دوسرے لوگ نہیں کرتے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ ایسا یہاں کر رہے ہیں۔’

رائیلی کے مطابق یہ پانچوں گھر ایک جیسے ہوں گے تاکہ ‘دونوں بھائیوں کے پانچھوں بچوں میں حسد نہ ہو’۔

سخی لیکن شاہ خرچیاں بھی

سنہ 2017 میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق انھوں نے لندن کے مہنگے ترین علاقے نائٹز برِج میں دو کروڑ 50 لاکھ پاؤنڈ کا ایک گھر خریدا تھا۔

اطلاعات کے مطابق اس گھر میں چار منزلہ تہہ خانہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس گھر میں سوئمنگ پول، سپا، سینما، گیراج اور لفٹ بھی موجود ہو گی۔

گارڈیئن اخبار کے مطابق ان کا ایک نجی طیارہ بلیک پول ایئر پورٹ پر موجود رہتا ہے۔

قرض اور حکمت عملی

تجزیہ: ہاورڈ مستو، بی بی سی، بزنس رپورٹر

سنہ 2019 میں یورو گیراجز نے 20 ارب یورو (18 ارب پاؤنڈ) کا کاروبار کیا تھا جو کہ 2018 میں 12 ارب یورو تھا۔ 2019 میں اس کاروبار سے کمائی گئی رقم کا 16 ارب یورو ایندھن کی فروخت سے کمایا گیا تھا۔ ان کی کمپنی دیگر برینڈز جیسا کہ سب وے، برگر کِنگ اور فرانسیسی سُپر مارکیٹ کیئرفور میں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

8 ارب یورو کے قرض کی وجہ سے کمپنی نے گذشتہ مالی سال میں 496 ملین یورو کا نقصان ریکارڈ کرایا تھا۔

رائل لندن ایسیٹ مینیجمینٹ میں گلوبل کریڈٹ کے سربراہ اظہر حسین سمجھاتے ہیں کہ ہر ایک پاؤنڈ کی کمائی کے مقابلے میں کمپنی پر 9 پاؤنڈ کا قرضہ ہے۔ ان کے مطابق زیادہ تر کمپنیوں میں یہ تناسب کمائے گئے ہر ایک پاؤنڈ کے مقابلے میں 3 سے 6 پاؤنڈ کے قرضے کا ہوتا ہے اور ایسے موقع پر اس قرض کی ادائیگی سے متعلق سوال ہونے لگتے ہیں۔

اظہر حسین کے مطابق یورو گیراجز نے قرض لے کر جو کاروبار خریدے ہیں وہ منافع بخش ہیں جس وجہ سے قرض دینے والے زیادہ پریشان نہیں ہیں۔

اظہر حسین کے مطابق ’یہ ایک بہت زیادہ قرضے اور رِسک والی کمپنی ہے لیکن ان کی حکمت عملی اہم ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی حکمت عملی کام کر رہی ہے‘۔

الیکٹرک کاروں کی فروخت بڑھ رہی ہے لیکن پیٹرول اور ڈیزل ابھی بھی مارکیٹ پر حاوی ہیں۔ کمپنی کا اپنی ویب سائٹ پر کہنا ہے کہ وہ نئے ایندھن کی طلب میں سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھائیں گے۔ کمپنی کے مطاق ان کے بڑے سروس سٹیشنز میں الیکٹرک چارجنگ کے لیے خاطر خواہ جگہ رکھی گئی ہے۔

’الکوحل فری‘ پیٹرول سٹیشن

یورو گیراجز کے پیٹرول سٹیشنوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں برطانیہ کے دیگر پیٹرول سٹیشنوں کے برعکس شراب فروخت نہیں ہوتی۔ جب یہ بات پہلی بار منظرِ عام پر آئی تھی تو برطانوی میڈیا کے کئی حلقوں کی جانب سے اسے خاص طور پر اپنی خبروں کا موضوع بنایا گیا تھا۔ تاہم کمپنی نے اپنے اس فیصلے کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ’اخلاقی لحاظ سے اسے ٹھیک نہیں سمجھتے کہ وہ ان لوگوں کو شراب کی فروخت کریں جنھوں نے ڈرائیونگ کرنا ہو‘۔

یہ موقف صرف یورو گیراجز کے مالکان تک محدود نہیں بلکہ کئی دیگر حلقے بھی ان سے متفق نظر آتے ہیں۔

کئی کاروباری ماہرین یورو گیراجز کے اس فیصلے کو جرآت مندانہ قرار دیتے ہیں کیونکہ برطانیہ میں پرچون کے کاروبار میں شراب کی سیل کا اچھا خاصہ حصہ ہوتا ہے، یوں شراب کی فروخت بند کر کے کمپنی خود کو اچھے خاصے منافع سے محروم کر رہی ہے۔

کمپنی کے ایک ترجمان نے برطانوی اخبار ڈیلی میل کو بتایا تھا کہ سنہ 2001 میں یورو گیراجز کے قیام سے لیکر اب تک کمپنی ‘نو الکوحل’ پالیسی پر کار بند ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ پالیسی اخلاقی وجوہات کی بنیاد پر بنائی گئی ہے کیونکہ ’ہمارے سٹورز زیادہ تر پٹرول سٹیشنوں پر واقع ہیں جہاں زیادہ تر ڈرائیور آتے ہیں۔’