Site icon DUNYA PAKISTAN

’میں اپنے سٹاف کی نگرانی ایک ایسے سافٹ ویئر سے کرتا ہوں جو سکرین شاٹس لیتا ہے‘

Share

شیبو فلپ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کام کے دوران تھوڑا سا وقت کیسے ضائع کیا جاتا ہے۔

شیبو ’ٹرانسیڈ‘ نامی ایک کمپنی کے مالک ہیں جو لندن میں قائم ایک چھوٹی سی فرم ہے جو ہول سیل میں بیوٹی یا ہار سنگھار کی مصنوعات خرید کر آن لائن فروخت کرتی ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ برس سے وہ ’ہب سٹاف‘ نامی ایک سافٹ ویئر کا استعمال کر کے یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ ان کے ورکروں نے کتنے گھنٹے اپنے کمپیٹور استعمال کیا اور کتنی ویب سائٹ کھولیں۔

انڈیا میں موجود اپنے عملے کے سات ارکان کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اس طرح ان کی جوابدہی کا طریقہ موجود ہے اور اس کے ذریعے وقت میں جو فرق ہے اس کو بھی پورا کرنے میں مدد ملتی ہے۔

شیبو کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں کہ دس منٹ کا وقفہ کسی طرح لیا جا سکتا ہے۔ یہ اچھا ہے کہ اپنے ملازمین پر نظر رکھنے کا خود کار طریقہ اچھا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ سکرین شاٹس سے انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی ملازم کوئی کام کرنے کے لیے کتنا وقت لے رہا ہے اور کیا وہ واقعی پورا طریقہ کار اپنا رہے ہیں کہ نہیں۔

،تصویر کا کیپشنشیبو فلپ کی کمپنی یہ طریقہ کار استعمال کررہی ہے

ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے جو ان کی توقعات سے بہتر ہے تو اس کا اندازہ انہیں تصاویر سے ہوجاتا ہے جس کے بعد وہ یہ تصاویر دوسروں کو بھی دکھانے کا کہتے ہیں تاکہ سب کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔

شیبو کا کہنا ہے کہ تمام ملازمین کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ جو سافٹ ویئر استعمال کیا جا رہا ہے اس سے پتہ چل جائے گا کہ کتنا وقت دوسری ویب سائٹس کو دیکھنے میں صرف کیا گیا۔

گھر سے کام چوری

کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد زیادہ سے زیادہ لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ایسے سافٹ ویئر کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے جن سے ملازمین پر نظر رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

امریکی کمپنی ہب سٹاف کا کہنا ہے کہ اس سال فروری کے بعد سے برطانیہ میں ان کے گاہکوں میں چار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

ایک اور کمپنی جس کا نام ’سنیک‘ ہے وہ اس قسم کی ٹیکنالوجی فراہم کر رہی ہے جس سے ملازمین کی تصاویر ان کے ’لیپ ٹاپ‘ کمپیوٹر سے لی جا سکتی ہیں اور ان کے ساتھی ان تصاویر کو دیکھ سکتے ہیں۔

یہ تصاویر ہر ایک منٹ بعد لی جاسکتی ہیں گو کہ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ مواصلات کا ایک پیلٹ فارم ہیں اور ان کے ایپ کے ذریعے ملازمین اور مالکان سب کو ایک جیسا تجربہ ہوتا ہے۔

اس کمپنی کے شریک بانی ڈیل کورے نے بی بی سی کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے صارفین میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے اور اس کے صارفین کی تعداد اب بیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

کارڈف یونیورسٹی اور ساوتھ ہیمٹن یونیورسٹی کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق اکثر مالکان میں یہ خوف اور خدشہ پایا جاتا ہے کہ ان کی نظروں سے اوجھل جو ملازمین ہیں وہ کام چوری کریں گے اور کام پر پوری توجہ اور وقت صرف نہیں کریں گے گو کہ لاک ڈاؤن کے دوران یہ بات دیکھنے میں نہیں آئی کہ لوگوں کے کام پر کسی طرح کا کوئی فرق نہیں پڑا۔

اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملازمین کی ایک تہائی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ان کی افادیت یا پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ کیا ٹیکنالوجی اس مسئلہ کا کوئی حل پیش کرتی ہے کہ جو ملازمین سست پڑ گئے ہیں ان کو پکڑا جا سکے یا جو لوگ گھروں سے کام کرنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں ان کی مدد کی جاسکے۔

’اگر مجھے احساس ہو کہ کوئی مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے تو مجھے برا محسوس ہو گا

،تصویر کا کیپشنفوٹوگرافر جوش کا کہنا ہے کہ کام میں دل لگانے اور آسانی سے کام کرنے انہیں دونوں میں دشواری محسوس ہوئی ہے

جوش ایک 26 سالہ فوٹوگرافر ہیں جو لندن میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر سے کام کرنے میں انہیں بہت مشکل پیش آ رہی ہے جس سے ان کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک تین کمروں کے فلیٹ میں جسے میں ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی رہتے ہیں اس کے باورچی خانے میں سٹوڈیو بنانا بہت مشکل مرحلہ تھا اور اس کے ساتھ ہی ان کا اس طرح کام میں جی لگانا بھی بہت مشکل ثابت ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ دن تو میں سب کچھ کر لتیا ہوں لیکن کچھ دن ایسے آتے ہیں کہ میں بیٹھا اپنی جوتیوں کو گھورتا رہتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔ پھر توجہ بھی بڑی آسانی سے بٹ جاتی ہے، کبھی جی چاہتا ہے کہ چائے بنالوں یا کپڑے مشین میں ڈال دوں۔‘

وہ اس بات پر شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کا باس ان پر نظر رکھنے کا کوئی حربہ استعمال نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن دنوں ان کا کام کرنے کو جی نہیں چاہا رہا ہوتا یا انہیں دشواری پیش آ رہی ہوتی ہے تو ایسے میں اگر انھیں محسوس ہوتا کہ ان پر نظر رکھی جا رہی ہے تو انہیں اچھا نہیں لگتا۔

جوش کو ایک عرصے سے لگتا ہے کہ انہیں کسی چیز پر اپنی توجہ مرکوز کیے رکھنے میں دشواری پیش آ رہی ہے اور وہ ’ڈیفسٹ ہائپراکٹیوٹی ڈس آرڈر ‘ کی شکایت کا شکار ہیں۔ ان کے ڈاکٹر بھی ان سے متفق ہیں لیکن ان کا ٹیسٹ ہونا باقی ہے۔

حال ہی میں دفتر آنے کے بعد انہیں براہ راست بات چیت کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے روزانہ کا معمول ان کے لیے کام کرنے میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور انہیں اپنے آپ کو کام کرنے پر آمادہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

’نگرانی مناسب ہونی چاہیے‘

کچھ لوگوں جو اس طرح کے نگرانی کرنے کے سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے تاکہ کارکردگی برقرار رکھی جا سکے۔ چارڈر انسٹی ٹیوٹ آف پرنسل ڈویلپمنٹ کے مشاہدے کے مطابق کام کرنے کی جگہوں پر نگرانی سے باہمی اعتماد متاثر ہوتا ہے۔

اس انسٹی ٹیوٹ کے مشیر جونی گلفرڈ کا کہنا ہے کہ ملازمین کے رویوں پر نظر رکھنا اس حد تک تو جائز ہے کہ کارکردگی کو برقرار رکھا آئے اور کوئی ملازم کوئی غلط کام نہ کرے۔

لیکن مالکان کو ایک شفاف پالیسی اختیار کرنی چاہیے تاکہ ملازمین کو اچھی طرح معلوم ہو کہ ان کی کسی طرح کی نگرانی کی جا ری ہے اور یہ مناسب حد تک ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملازمین کا اعتماد حاصل کر کے مالکان بہت اچھے نتائج حاصل کر سکتے ہیں نہ کہ نگرانی کے ایسے غیر ضروری اقدامات سے کہ کسی ملازم نے کتنی دیر ٹائپنگ کرتے ہوئے گزارا۔

برطانیہ میں ایک لاء فرم ٹی ایل ٹی کے شریک مالک جوناتھن رینی نے بھی اس سلسلے میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ مالکان پر ملازمین میں اعتماد اور بھروسہ قائم رکھنے کی قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ نگرانی کرنے کے سافٹ ویئر استعمال کرنے پر ان کا رد عمل کیا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کمپنی بھی اس طرح کے سافٹ ویئر استعمال کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو ان بارے میں اس کی تحریری پالیسی ہونی چاہیے جس میں یہ واضح کیا جائے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنا کیوں ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ مینجروں کے لیے بھی واضح ہدایات ہونی چاہیں اور ایسی احتیاطی تدابیر بھی موجود ہونی چاہیں کہ ان کا ناجائز استعمال نہ ہو اور ضرورت سے زیادہ نگرانی نہ کی جائے۔

Exit mobile version