اگر آپ کے ہاں بچے پیدا ہوئے تھے یا آپ انھیں پیدا کرنے پر غور کر رہی ہیں تو آپ کو شاید بتایا گیا ہو کہ ’چھاتی سب سے بہتر ہے‘ یعنی ماں کا دودھ بچے کے لیے سب سے بہتر غذا ہے لیکن ان ماؤں اور بچوں کا کیا ہوتا ہے جنھیں ماں کا دودھ نہیں پلایا جا سکتا؟
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ماں کا دودھ شیر خوار بچوں کے لیے غذائیت اور توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو انفیکشنز کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے اور موٹاپے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے جبکہ بعد کی زندگی میں ممکنہ طور پر بچے کا آئی کیو بھی بہتر بناتا ہے۔
ایسی ماؤں کے لیے جو بچوں کو دودھ پلانے کے قابل نہیں ہیں یا دودھ پلانا نہیں چاہتیں، اس کا اہم متبادل فارمولہ ملک (دودھ) ہے لیکن ٹرٹل ٹری لیبز اور بائیو ملک دو ایسے سٹارٹ اپس ہیں جو بغیر لیبارٹری میں ماں جیسا دودھ بنا کر اسے بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’کبھی دودھ ہی نہیں آیا‘
دو بچوں کی ماں دیپا کلکرنی اپنے بچوں کو دودھ پلانے میں آنے والی مشکلات یاد کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اپنے پہلے بچے کے ساتھ ہی مجھے کولسٹرم آیا (پیلا سیال جو زچگی کے ایک دو دن بعد چھاتی سے نکلتا ہے)، اس نے وہ پی لیا لیکن اس کے بعد مجھے دودھ نہیں آیا اور دوسرے (بچے) کی دفعہ تو میرا دودھ آیا ہی نہیں۔‘
’ہم نے ایک ماہ تک دودھ نکالنے کی کوشش کی اور پورے دن میں میرا آدھا آؤنس بھی دودھ نہیں نکلتا تھا اور کچھ عرصہ بعد وہ بھی مکمل طور پر سوکھ گیا۔ لہذا یا تو اسی طرح کرتی رہتی اور اپنے بچے کو بھوکا رکھتی یا پھر اپنے بچے کو خوراک دیتی۔‘
بطور ایک نئی ماں کے دیپا نہ صرف پہلی بار والدہ بن کر خوش تھیں بلکہ شروع کے دنوں میں تو انھیں معاشرتی توقعات پورا کرنے میں جدوجہد بھی کرنا پڑی۔
’یہ ان میں سے ایک چیز ہے جسے آپ کو بس قبول کرنا ہوتا ہے اور ماننا ہوتا ہے کہ آپ ناکام نہیں ہیں۔‘
ایک نیا نقطہ نظر
انفینٹ فارمولا ملک یا شیر خوار فارمولہ دودھ اکثر گائے کے دودھ سے بنایا گیا ہوتا ہے، جسے خاص طور ایسا بنایا جاتا ہے کہ وہ بچوں کے لیے زیادہ مناسب ہو اور یہ بچوں کو وہ ضروری غذائی اجزا فراہم کرتا رہے جو ان کے پھلنے پھولنے اور ان کی نشوونما میں مدد دیتے ہیں۔
لیکن یہ انسانی چھاتی کے دودھ کے سبھی متبادل فراہم نہیں کرتا اور یہی بات ہے جس نے ان کمپنیوں کو تحریک دی ہے۔
ٹرٹل ٹری لیبز انسانی چھاتی کے عطیہ کردہ دودھ سے سٹیم سیل استعمال کرتی ہیں۔ ان خلیوں کو ایک بائیوریکٹر میں رکھا جاتا ہے، جہاں انھیں میمری گلینڈ سیل (خلیات) بننے دیا جاتا ہے۔
میموری گلینڈ سیل ایک خاص فارمولے کے ساتھ ملتے ہیں جس کی وجہ سے خلیات دودھ پیدا کرتے ہیں اور پھر آخری شکل کے لیے اس دودھ کو فلٹر کیا جاتا ہے۔
تھیوری میں تو اس تکنیک سے کسی بھی ممولیے سے دودھ تیار کیا جا سکتا ہے، بس صرف سٹیم سیلز کی فراہمی کی ضرورت ہے۔
امریکہ میں قائم سٹارٹ اپ بائیو ملک، جس کی سربراہی خوراک کی سائنسدان مشیل ایگر اور سیل بائیولوجسٹ لیلیٰ سٹریک لینڈ کر رہی ہیں، میموری سیلز بنانے کے لیے ایک مختلف تکنیک استعمال کرتی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی دودھ ہزاروں اجزا پر مشتمل ہوتا ہے، جیسا کہ پروٹین، فیٹی ایسڈز، ہارمونز، بیکٹیریا اور شکر۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پیچیدگی کی وجہ سے چھاتی کے دودھ کی نقل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
امپیریل کالج لندن میں ماں کے دودھ کی محقق ڈاکٹر نیٹیلی شینکر کا کہنا ہے ’انسانی دودھ ایسے عناصر کے ذریعہ تیار ہوتا ہے جو ماں کے خون، نظام انہظام، مدافعتی نظام، چھاتی کے مدافعتی نظام سے آتے ہیں لیکن اس کے علاوہ، ان فیٹی ایسڈز سے بھی جو ماں کا نظام توڑتا ہے اور پھر وہ دودھ میں شامل ہوتے ہیں۔‘
وہ ہیومن ملک فاؤنڈیشن کی شریک بانی بھی ہیں، یہ ایک تنظیم ہے جو بریسٹ فیڈنگ (چھاتی کا دودھ پلانے) اور برطانیہ میں ملک بینکس کی کمی پورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں لوگ دوسروں کی ضرورت پورا کرنے کے لیے اپنا دودھ عطیہ میں دیتے ہیں۔
کیا یہ کسی اصلی چیز کی طرح ہے؟
سائنس دان کہتے ہیں کہ لیبارٹری میں بنایا گیا دودھ صرف انسانی دودھ کے کچھ عناصر ہی کی نقل تیار کر سکتا ہے، خاص طور پر جب اس میں مدافعت اور انسان سے انسان کی طرف ردعمل کی بات آتی ہے، جو کہ اس کی ساخت کو متاثر کرتی ہے۔
بائیو ملک اور ٹرٹل ٹری لیبز کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد انسانی ماں کے دودھ کا متبادل بنانا نہیں بلکہ والدین کے لیے فارمولہ دودھ سے بہتر، پائیدار اور زیادہ غذائیت بخش متبادل تیار کرنا ہے۔
ٹرٹل ٹری لیبز کے شریک بانی میک رائی کا کہنا ہے ’ماں کا دودھ سب سے بہترین چیز ہے جو موجود ہے اور کوئی بھی اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ مجھے یقین نہیں کہ ایسا کبھی ہو سکتا ہے چاہے آپ کوئی بھی ٹیکنالوجی استعمال کریں کیوں کہ یہ بہت ذاتی ہے اور یہ اس ماحول کے مطابق ہوتا ہے جس میں مائیں ہوتی ہیں، جہاں وہ رہتی ہیں، ان کی غذائیت کے مطابق۔‘
’ہم جو کچھ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے جو پہلے سے موجود چیزوں کو اپ گریڈ کرنے میں مدد فراہم کر سکیں اور وہ فی الحال بنیادی طور پر گائے کے دودھ کے پاؤڈر کو سبزیوں کے نچوڑ اور بہت سی دوسری ایسی چیزوں سے ملا کے بنایا جاتا ہے جو انسانی چھاتی کے دودھ سے بہت بہت دور ہیں۔‘
پچھلی چند دہائیوں میں سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ ہر بچے کی ماں اس کی ضرورت کے مطابق اس کے لیے دودھ پیدا کرتی ہے۔
انسانی دودھ امیونولوجیکل اور جینیاتی سطح پر مختلف ہوتا ہے،اور یہاں تک کہ دودھ میں جو شکر جاتی ہے وہ ہر ماں اور بچے کے درمیان کم زیادہ ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر شینکر کہتی ہیں ’انسانی دودھ انگلیوں کے نشان کی طرح ہے جو ماں اور بچے کی غذا کی منفرد شناخت کرتا ہے۔‘
’یہ دو طرفہ عمل ہے، اس میں نہ صرف ان تجربات کا تعلق ہوتا ہے جو مائیں اپنے ماحول سے حاصل کرتی ہیں بلکہ اس کے بر عکس بھی۔ اگر ماں کو بیکٹیریا یا وائرس لگ جائے تو مدافعتی نظام اینٹی باڈیز تیار کرے گا، جو پھر چھاتی تک پہنچتی ہیں اور دودھ میں چلی جاتی ہیں، جو بچے کو خاص پیتھوجن (مرض زا) سے بچاتی ہیں۔‘
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ماؤں کو کم از کم پہلے چھ ماہ تک نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلانا چاہیے۔ عالمی طور پر چھ ماہ سے کم عمر کے صرف 40 فیصد بچوں کو ہی خصوصی طور پر دودھ پلایا جاتا ہے۔
دیپا اب دہلی میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو فارمولہ دودھ دینے سے ان کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔
’اب 18 سال کے بعد، مجھے اپنی بیٹی یا بیٹے کے ساتھ تعلق میں کوئی فرق نظر نہیں آتا اور مجھے ان کی صحت میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا۔‘
کیا یہ ممکن ہے؟
ڈاکٹر شینکر کہتی ہیں کہ فارمولہ اور ماں کے دودھ کے متبادل کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ کیا یہ کبھی تجارتی لحاظ سے قابل عمل بھی ہو پائے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’خون اور دودھ دراصل بطور سیال زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔‘
’دودھ لاکھوں برسوں میں غذائیت کا ایک ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ شیر خوار کی قوت مدافعت اور اعضا کی نشوونما کا ایک طریقہ بھی بن گیا ہے، جو حقیقت میں اسے خون سے زیادہ پیچیدہ بنا دیتا ہے۔‘
’خون کے عطیات میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے مصنوعی خون کے بارے میں 70 سال سے زیادہ تحقیق کے باوجود، مارکیٹ میں تجارتی طور پر دستیاب خون کی ایسی مصنوعات دستیاب نہیں ہیں جو محفوظ اور مؤثر ہوں۔‘
’جب آپ اس نقطہ نظر سے اسے دیکھیں تو میں کہوں گا کہ چھاتی کے دودھ کے قریب کی بھی کوئی چیز پیدا کرنے کا امکان ناممکن ہو گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھاتی کے دودھ کے کچھ عناصر کو ایک خاص ڈگری تک تیار نہیں کیا جا سکتا۔‘
جون میں بائیو ملک کو 35 لاکھ ڈالر اور ٹرٹل ٹری لیبز کو 32 لاکھ ڈالر کی فنڈنگ ملی۔
بریسٹ فیڈنگ گروپس اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کمپنیوں کی دی گئی سرمایہ کاری کو ماؤں کو اپنا دودھ پلانے کی حمایت اور ملک بینکس تک بہتر رسائی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔
ٹرٹل ٹری لیبز جسے سنگاپور سے فنڈنگ ملی ہے کہتی ہے کہ بریسٹ فیڈنگ کرنے والی ماؤں کی حمایت کے لیے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے اور ان ماؤں کے لیے بھی جو نہ بریسٹ فیڈ کرا سکتی ہیں یا جنھوں نے یہ نہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
رائی کہتے ہیں ’میرے خیال میں اس کو کسی ایک یا دوسرے کے لیے مخصوص نہیں ہونا چاہیے۔‘
’میرے خیال میں دونوں سروں پر کوششیں ہونی چاہیے، جیسے وہ مائیں جو اپنا دودھ نہیں پلا سکتیں ان کی بہتر یا بہت اچھی کوالٹی کے دودھ تک رسائی ہو اور خاصی حد تک رقوم کو ماؤں کو اپنا دودھ پلانے کی تعلیم اور مدد کے لیے مختص کیا جانا چاہیئے۔‘
ٹرٹل ٹری لیبز کا منصوبہ ہے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی براہ راست صارفین کو بیچنے کی بجائے فارمولہ ملک بنانے والوں کو بیچ دے جبکہ بائیو ملک کا منصوبہ براہ راست صارفین کو بیچنے کا ہے۔
رائی کہتے ہیں ’ٹیکنالوجی بہت تیزی سے حرکت کرتی ہے اور جو سب سے دلچسپ چیز ہم کر سکتے ہیں وہ اس کا پیمانہ ہے۔ ہم اصل میں جلد از جلد اگلے سال تک اپنی کچھ مصنوعات متعارف کرانا چاہتے ہیں۔‘
اگرچہ مقصد ہے کہ ایسی چیزیں بنائی جائیں جو لوگوں کی قوتِ خرید میں ہوں لیکن ٹرٹل ٹری لیبز کا کہنا ہے کہ شروع میں چیزیں مہنگی ہوں گی۔
رائی کہتے ہیں ’پہلی مصنوعات ہمیشہ بہت مہنگی ہوتی ہیں لیکن ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے میں مارکیٹ میں اتنا کچھ ہو جاتا ہے کہ قیمتیں ڈرامائی طور پر گر جاتی ہیں۔‘
’میری سب سے بڑی پریشانی حفاظت ہے‘
شیریں فرائیڈے نے اپنے پہلے بچے کو 15 ماہ تک اپنا دودھ پلایا لیکن کام کی مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنی دوسری بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں کر پائیں۔
وہ کہتی ہیں ’جب 10 سال پہلے غرناطہ میں میری بیٹی ہوئی، تو جو واحد آپشن مجھے معلوم تھا وہ تھا کہ یا تو اپنا دودھ پلاؤ یا پھر فارمولہ دودھ۔‘
شیریں تسلیم کرتی ہیں کہ ان کو دوسرے آپشنز کے متعلق علم نہیں تھا جیسا کہ ’ایکسپریسنگ ملک‘ اور یہ بھی عام طور پر تسلیم شدہ تھا کہ اپنا دودھ ہی پلانا ہے۔
انھوں نے اپنی دوسری بیٹی کو شروع ہی سے فارمولہ ملک دیا تاکہ وہ اپنے کام کی طرف ہموار طریقے سے واپس جا سکیں لیکن چھ ماہ کی عمر کو پہنچنے کے بعد ان کی بیٹی نے فارمولہ دودھ پینا بند کر دیا۔
وہ کہتی ہیں ’میں نے سب کچھ استعمال کیا لیکن وہ ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ بھی لینے کو تیار نہیں تھی، اس لیے مجھے پہلی مرتبہ اپنا دودھ ایکسپریس (نچوڑنا) کرنا پڑا۔ اب وہ 16 ماہ کی ہیں اور اب بھی ماں کا دودھ ہی پی رہی ہیں۔‘
’میرا پمپنگ کا سفر بہت مشکل ہے۔ وہ تنہا کر دینے والا اور ذہنی طور پر تھکا دینے والا تھا کیونکہ زیادہ تر آپ وہاں بیٹھے رہتے اور اس میں 30 منٹ تک لگ سکتے تھے لیکن اس کا انحصار بھی اس بات پر ہوتا تھا کہ آپ کے پاس کتنا دودھ ہے۔ مجھے پمپنگ، بریسٹ فیڈنگ سے زیادہ تکلیف دہ لگی۔ یہ متواتر کھینچنا اور کھینچنا تھا۔‘
شیریں کہتی ہیں کہ وہ فارمولہ ملک یا چھاتی کے دودھ کے متبادل کے طور پر بائیو انجینیئرڈ ملک استعمال کرنے میں ہچکچائیں گی۔
’میرے خیال میں ہر ماں کی طرح مجھے بھی حفاظت کے متعلق کچھ تشویش ہے، خصوصی طور پر ہر اس چیز کے متعلق جو لیبارٹری میں بنائی گئی ہو۔ نوزائیدہ بچے پہلے ہی غیر محفوظ ہوتے ہیں، سو اگر وہ کہیں بھی کہ یہ 100 فیصد محفوظ ہے، میں آرام دہ محسوس نہیں کروں گی۔ میں شاید پرانے طریقہ ہی استعال کرتی رہوں۔‘
ٹرٹل ٹری لیبز کا کہنا ہے کہ جس بڑے چیلنج کا ان کا سامنا ہے اس کا ایک حصہ لوگوں کو یہ تعلیم دینا ہے کہ ہمارا دودھ کس طرح بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ خلیوں کو کلچر کرنے کے لیے جو محلول استعمال کرتے ہیں اس میں سنتھیٹک کیمیکل استعمال نہیں کیا جاتا۔
وہ کہتے ہیں ’جس میڈیم یا محلول میں ہم خلیے ڈالتے ہیں وہ بالکل اسی طرح کا ماحول بناتے ہیں جیسے انسانی جسم یا گائے کے اندر ہوتا ہے۔ انسان اسے بغیر کسی مسئلے کے استعمال کر سکتے ہیں۔‘
نقادوں نے ان نئی مصنوعات کے قوائد اور شفافیت کے متعلق بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ٹرٹل ٹری لیبز کا کہنا ہے کہ دودھ کے متعلق زیادہ تر معلومات، اس کی حتمی شکل اور یہ کس طرح بنائی گئی ہیں، والدین کے اس کی مصنوعات خریدنے سے پہلے ہی شائع کر دی جائیں گی۔
’بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور ٹرائل کے بغیر ان میں سے کوئی بھی چیز مارکیٹ میں نہیں آئے گی، خصوصاً اگر آپ ان بڑی انفینٹ فارمولہ کی کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن پر لوگ اعتماد کرتے ہیں۔‘