Site icon DUNYA PAKISTAN

جان حاضر اے‘ بلبل لالے دی اے

Share

امریکہ آ کر ایک خرابی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ میں کافی زیادہ پینے لگ گیا ہوں۔ دراصل مسئلہ یوں پیدا ہوا ہے کہ اٹلانٹا میں اب برادرِ بزرگ اعجاز احمد نے کافی میں میرا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے‘ بلکہ صرف ساتھ دینا ہی نہیں‘ باقاعدہ اُکسانا شروع کر دیا ہے۔ ڈیرے پر باورچی خانے میں میری وجہ سے انواع و اقسام کی کافیاں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ میں‘ بقول ایک دوست کے کافی پینے والوں میں ”معرفت‘‘ کے درجے پر فائز ہو چکا ہوں اور کافی میں ”کاک ٹیل‘‘ بنانے پر آ گیا ہوں۔ کبھی ہیزل نٹ گرائونڈ کافی میں گولڈ بلینڈ کو مکس کر کے‘ کبھی روسٹڈ کولمبین کافی میں فرنچ ونیلا اور کبھی سالٹڈ کیرامل ڈال کر اپنی مرضی کا ذائقہ بنا کر لطف لیتا ہوں۔ برادرِ بزرگ کو بھی ان دنوں میرے ساتھ کافی پینے کا چسکا پڑ گیا تھا اور دفتر سے اُٹھ کر ڈیرے میں آ جاتے تھے اور پوچھتے تھے کہ آپ نے کافی نہیں پینی؟ اب بھلا ایسی دعوت کو کون ٹھکرا سکتا تھا؟ سو کبھی میرا دل کر پڑتا تھا اور کبھی برادرِ عزیز اعجاز احمد کا۔ کافی کا بڑا مگ ہاتھ میں ہو تو بھلا گپیں مارنے کے علاوہ اور کون سا کام کیا جا سکتا ہے ‘لہٰذا دن میں گپوں کے کئی سیشن چلتے تھے۔
پچھلی بار اٹلانٹا آیا تو بونافے سے ڈاکٹر انیس بھی آیا تھا۔ مع اپنی کافی مشین اور ملک فراتھر کے۔ میں اور برادرِ بزرگ دونوں اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھاتے تھے اور ڈاکٹر انیس کو کافی کی فرمائش کر دیتے ۔ بے چارہ ڈاکٹر انیس اُٹھ کر کافی بنانے لگ جاتا۔ ڈاکٹر انیس صرف کافی نہیں بناتا تھا بلکہ پوری عزت و احترام (ہمارا نہیں‘ کافی کا) اور اہتمام کے ساتھ کافی بناتا تھا۔ ہر بار مشین کو تین چار بار اس میں پانی ابال کر صاف کرتا۔ اتنی ہی بار ملک فراتھر کو (دودھ کو جھاگ میں تبدیل کرنے کی مشین) دھوتا اور پھر کافی بنا کر لے آتا۔ ایک دو بار ڈاکٹر انیس نے تھوڑی سستی کی تو اسے یاد کروایا گیا کہ ہم نے اسے صرف اس کی کافی کی وجہ سے بونافے سے بلوایا ہے۔ شریف آدمی نے بلاچون و چرایہ سٹیٹس تسلیم کر لیا اور کافی بنانے میں مزید محنت شروع کر دی۔ ڈاکٹر انیس برادرِ عزیز کا برادرِ نسبتی ہے‘ لیکن میری اس سے دوستی اُس دن ہو گئی تھی جس دن اس نے اپنے گھر میں شاندار کافی پلائی تھی۔ اسے یہ بات بار بار یاد دلائی گئی کہ میری اس سے دوستی‘ کیونکہ کافی کی وجہ سے ہوئی ہے‘ اس لیے کافی کے سلسلے میں اس کی طرف سے کبھی کوئی کمی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ سو‘ اس نے اس معاملے میں کبھی مایوس نہیں کیا۔
ڈاکٹر انیس عمران خان کا زبردست حامی ہے۔ بیشتر غیر ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی طرح۔ اس بار اسے دوبارہ اٹلانٹا بلایا‘ مگر وہ بوجوہ نہ آ سکا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کچھ ضروری کاموں میں مصروف ہے‘ جبکہ میں نے اٹلانٹا میں افواہ پھیلا دی کہ وہ اس بار دوبارہ ”کافی بوائے ‘‘ بننے پر تیار نہیں۔ برادرِ بزرگ اپنی نازک رشتہ داری کے باعث غیر جانبدار ہو گئے۔ بہرحال ڈاکٹر انیس نہ آیا۔ اس کا نقصان ایک یہ بھی ہوا کہ سیاسی گفتگو کا دورانیہ بہت کم ہو گیا۔ ایک بار دوستوں کی محفل جمی تو یہ کھلا کہ اب دیارِ غیر میں بھی عمران خان کی مقبولیت میں بہر حال کمی ضرور آئی ہے۔ اس کمی سے مراد فی الحال میں زبانی کلامی طور پر لے رہا ہوں۔ باقی دونوں کی عزت و آبرو میں بہر حال کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ میرا مطلب ہے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے بارے میں ان کے خیالات میں قطعاً کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ نہیں ہواکہ عمران خان کی مقبولیت کم ہونے سے ان کی مقبولیت میں کوئی اضافہ ہو گیا ہو۔ ان دونوں کے بارے میں لوگوں کے خیالات تقریباً تقریباً حسب ِ سابق والے ہی ہیں۔ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی غالب اکثریت ہر دو سیاستدانوں کو شرح صدر سے بدعنوان‘ کرپٹ اور بددیانت سمجھتی ہے‘ لیکن عمران خان سے اندھی محبت اور غیر مشروط تقلید میں یقینا کمی واقع ہوئی ہے۔
ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور دو چار لوگوں نے بڑھ چڑھ کر عمران خان اور اُن کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان سے اپنی غیر مشروط اور لا محدود حمایت اور محبت کا اعلان کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا میں ان سے ایک دو باتیں پوچھ سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا: ضرور پوچھیں۔ میں نے کہا: آپ عمران خان پر پورا بھروسہ کرتے ہیں؟ جواب ملا: بے پناہ۔ میں نے کہا: ان کی باتوں پر کوئی شک و شبہ؟ جواب ملا: ہرگز نہیں۔ میں نے کہا: ان کے فرمان پر تعمیل کا جذبہ کس حد تک ہے؟ جواب دیا گیا : بے پناہ اور مکمل۔ اب میں نے اصل بات کی طرف آتے ہوئے پوچھا: آپ لوگ ایمانداری سے بتائیں کہ ڈیم فنڈ میں آپ میں سے کس کس شخص نے کتنی رقم بھیجی ہے؟ صرف ایک صاحب نے بتایا کہ اس نے پانچ سو ڈالر بھیجے ہیں اور ایک دو نے کہا کہ وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے‘ تاہم ان کا لہجہ چغلی کھا رہا تھا کہ وہ صرف اپنے دعوے کا بھرم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘انہوں نے دو پیسے بھی نہیں بھیجے ہوں گے۔ میں نے کہا: الحمد للہ میں آپ سب لوگوں کی مالی حیثیت سے آگاہ ہوں۔ آپ میں سے ہر ایک شخص پانچ دس ہزار ڈالر تو کسی پر بھی نثار کر سکتا ہے۔ آخر آپ لوگوں نے عمران خان سے اپنی بے پناہ محبت کے باوجود فی پاکستانی تارک الوطن ایک ہزار ڈالر بھیجنے کی اپیل پر عمل کیوں نہیں کیا؟ آپ لوگ‘ زلزلے آئے تو پاکستان پیسے بھیجنے میں پیش پیش ہوتے ہیں‘ تعلیم کے لیے فنڈ ریزنگ ہو تو بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے ہیں‘ ابھی پچھلے دنوں گورنر چودھری سرور ادھر امریکہ آئے تھے اور صاف پانی والے پراجیکٹ کے سلسلے میں مالی تعاون کی اپیل کی تو آپ لوگوں نے کئی ملین ڈالر کا چندہ کر دیا۔ ہیلپنگ ہینڈز والے اپیل کریں تو آپ ان کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے‘ ICNA والے چیریٹی کی اپیل کریں‘ تو آپ لوگ انہیں مایوس نہیں کرتے‘ اور تو اور عمران خان اپنے کینسر ہسپتال کے اپیل کریں تو آپ مالی تعاون میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں۔ آخر آپ لوگ ڈیم فنڈ میں پیسے کیوں نہیں دیتے؟ آپ حکومت کے جاری کردہ بانڈز کیوں نہیں خریدتے؟ آپ لوگ پوری ایمانداری سے ایمنسٹی سکیم میں اپنے اثاثے ظاہر کر کے اس پر ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ آپ پاکستان زر مبادلہ بھجوانے کے لیے سو فیصد بینکوں یا قانونی ذرائع کے ذریعے رقم کیوں نہیں بھجواتے؟
امریکہ سے ڈیم فنڈ میں کل 362 ملین روپے بھیجے گئے ہیں۔ پرانے زر مبادلہ کے تبدیلی ریٹ کے مطابق ‘یہ کل تین اعشاریہ دو نو ملین ڈالر بنتے ہیں۔ امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے‘ چلیں اسے دس لاکھ تصور کر لیں۔ اب ‘اس میں سے بچے وغیرہ نکال دیں‘ بلکہ یوں کریں چار لوگوں کا ایک فیملی یونٹ تصور کر لیں تو یہ اڑھائی لاکھ بنتے ہیں‘ یعنی اڑھائی لاکھ پاکستانی خاندان۔ ایک خاندان کو ایک یونٹ تصور کریں تو آپ لوگوں نے سوا تیرہ ڈالر فی خاندان یا فی یونٹ پاکستان بھیجے ہیں‘ بلکہ اگر زیادہ باریکی میں جائیں تو تیرہ ڈالر اٹھارہ سینٹ فی خاندان۔ آپ کا لیڈر آپ سے ہزار ڈالر فی کس مانگتا ہے اور آپ تیرہ ڈالر فی خاندان کے لگ بھگ تعاون کرتے ہیں‘ اگر فی کس لگائیں تو یہ سوا تین ڈالر فی کس بنتی ہے۔ آپ اس سوا تین ڈالر فی کس کے ساتھ عمران خان سے بے پایاں محبت اور لا محدود اعتماد کا دعویٰ کرتے ہیں؟اس سے دو تین مفروضے جنم لیتے ہیں‘ پہلا یہ کہ آپ کو اس بات پر اعتماد نہیں کہ آپ کا پیسہ درست جگہ خرچ ہوگا؟ اگر یہ بات ہے تو اس کا مطلب صاف یہ ہے کہ آپ کو عمران خان کی حکومت کی اہلیت اور شفافیت پر بھروسہ نہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ پاکستان میں بہتری کے خواہشمند بھی ہیں اور ذاتی طور پر اس کارِ خیر میں اپنی جیب سے پیسہ نکالنے پر بھی تیار نہیں‘ یعنی آپ اپنی طرف سے آنہ ٹکا لگائے بغیر ترقی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ تیسرا یہ کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ووٹ تو دے سکتے ہیں ‘لیکن نوٹ نہیں دے سکتے۔ زبانی کلامی قربان ہو سکتے ہیں‘ لیکن جیب ہلکی نہیں کر سکتے۔ واشنگٹن کے جلسے میں شریک ہو سکتے ہیں ‘لیکن پاکستان کی معاشی بہتری کیلئے اپنے ڈالر خرچ نہیں کر سکتے۔
آپ کو شوکت خانم والے عمران خان پر پورا بھروسہ ہے‘ لیکن وزیراعظم پاکستان عمران خان پر بھروسہ نہیں ہے۔ آپ اس حکومت کے ایک کل پرزے گورنر پنجاب چودھری سرور کی پانی والی این جی او پر بھروسہ کر کے تعاون کر سکتے ہیں‘ لیکن پورے پاکستان کو در پیش پانی کے مسئلے کے حل کے لیے ڈیم فنڈ میں پیسے نہیں دے سکتے۔ چیریٹی میں دل کھول کر چندہ دے سکتے ہیں ‘لیکن حکومت پاکستان کو نہیں دے سکتے۔ اس کا صرف اور صرف ایک مطلب میری سمجھ میں آتا ہے‘ جہاں جہاں آخرت کا اجر در پیش ہے آپ چندہ‘ تعاون اور مدد کرنے کے لیے تیار ہیں‘ زلزلے اور سیلاب میں دل اور جیب کھول سکتے ہیں‘ لیکن سیاسی معاملات اور حکومتی اپیلوں پر آپ جان تو دے سکتے ہیں ‘لیکن چندہ نہیں دے سکتے۔ ووٹ ڈالنے پاکستان جانے کا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں ‘لیکن پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے قربانی نہیں دے سکتے۔ سرائیکی میں اس کے لیے بڑی شاندار کہاوت ہے۔
کسی نے اپنے دوست سے بلبل مانگی (کسی زمانے میں جنوبی پنجاب میں لوگ بلبل کی ٹانگ سے ڈوری باندھ کر انگلی پر بٹھائے پھرتے تھے۔ اب‘ یہ رواج تقریباً ختم ہو گیا ہے )اس نے جواب دیا: جان حاضر اے‘ بلبل لالے دی اے (جان حاضر ہے‘ لیکن یہ بلبل میرے بڑے بھائی کی ہے ) ۔سو‘ یہاں بھی یہی حال ہے؛جان حاضر اے‘ بلبل لالے دی اے!

Exit mobile version