امریکی صدارتی مباحثہ، ہمارے سیاستدان اور اساتذہ
جی چاہتا ہے کہ آج کا کالم امریکی صدارتی انتخابات کی نذر کر دوں جو نومبر میں منعقد ہو رہا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اور بھی بہت غم ہیں۔ ان غموں کے باوجود امریکی صدارتی امیدواروں کے پہلے روائتی مباحثے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ری پبلکن امیدوار، موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کے درمیان یہ مباحثہ ابھی دو دن پہلے ہوا۔ کئی سالوں سے یہ روایت بن چکی ہے کہ دو بڑی جماعتوں کے صدارتی امیدوار آمنے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک ماڈریٹر اس مباحثے کو سنبھالتا اور سوالات کرتا ہے جو عموما اس وقت کے قومی یا بین الاقوامی مسائل پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ایسے تین مباحثے وقفوں کیساتھ ہوتے ہیں۔ بعد کے مباحثوں میں حاضرین یا سامعین بھی موجود ہوتے ہیں، جنہیں سوال کرنے کا حق ہوتا ہے۔ عموما یہ کھلے مباحثے کسی یونیورسٹی کے ہال میں منعقد ہوتے ہیں۔ اگرچہ کسی بھی امیدوار پر کوئی آئینی یا قانونی پابندی نہیں کہ وہ ہر حال میں ایسے مباحثوں میں شریک ہو لیکن جب سے یہ روایت چلی ہے، کسی صدارتی امیدوار نے اس سے انحراف نہیں کیا۔ امریکی عوام بڑی دلچسپی اور توجہ سے یہ مباحثے دیکھتے اور اپنی رائے بناتے ہیں۔ ہر مباحثے کے بعد عوامی رائے کا احول بتلاتی جائزہ رپورٹس سامنے آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک کس امیدوار کا پلہ بھاری رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تین مباحثوں کے بعد بڑی حد تک واضح ہوجاتا ہے کہ کون سا امیدوار نیا امریکی صدر بننے جا رہا ہے۔
تازہ مباحثہ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں خود ایک مباحثے کا موضوع بن گیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مہذب قرینوں کو پامال کرتے ہوئے بدکلامی میں پہل کی جس کے بعد جو بائیڈن نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر بازاری انداز میں حملے کئے اور یوں لگا جیسے انتہائی بپھرے ہوئے بیل میدان میں اتار دئیے گئے ہوں۔ اب امریکہ میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ان کی تاریخ کا سب سے رسوا کن اور شرمناک مباحثہ تھا جس نے امریکہ کی تہذیبی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ دنیا بھر میں اس پر تنقید ہو رہی ہے اور اسے بد تہذیبی کا مظاہرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ اچانک ہوا؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے چار سالوں میں جو کچھ کہا، جو کچھ کیا اور جس طرز کلام کو رواج دیا یہ اس کا منطقی نتیجہ تھا؟ کیا امریکی تہذیب کا کھوکھلا پن عیاں ہو رہا ہے؟ کیا اس نے ایک سپر پاور کے طور پر سا ری دنیا کو اپنی غلامی میں لینے کی جس پالیسی کو اپنا رکھا ہے اس نے امریکی سوچ اور ضمیر سے انسانیت کے اخلاقی پہلو کو نکال دیا ہے؟ کیا امریکہ کی عالی شان یونیورسٹیاں جو دنیا بھر میں بلند مقام رکھتی ہیں۔ اچھے سائینس دان، اچھے انجینئر، اچھے ڈاکٹر اور اچھے پروفیسر تو پیدا کر رہی ہیں لیکن اچھے سیاستدان، اچھے کردار کے حامل لیڈر اور ایسی صاف ستھری مہذب قیادت نہیں دے پا رہیں جو دنیا کیلئے بھی ایک اچھا نمونہ بنے۔ یا کیا ” کرونا ” وبا ہی کی طرح کوئی ایسی ہوا چلی ہے جس نے ساری دنیا کے انسانوں کی اخلاقی، تہذیبی اور انسانی حس کو کمزور کر دیا ہے؟ کیا ایسی قیادت منتخب کرتے وقت ہم ان صفات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو نفیس انسانوں کا زیور ہوتی ہیں؟ یا کیا بات اس سے بھی آگے نکل گئی ہے کہ لوگ ایسے ہی اتھلے، سطحی، اور بازاری لب و لہجہ رکھنے والوں کو پسند کرنے لگے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مضحکہ خیز شخص کو اپنا راہنما دیکھ کر لطف لیتے ہیں؟
یہ سیاسیات ہی کا نہیں، اخلاقیات اور سماجیات کا بھی اہم موضوع ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ امریکہ تو تعلیم، سائینس، ترقی اور خوش حالی میں بہت آگے ہے۔ ایک لحاظ سے ساری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ مہلک تریں ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ یہ تو برس ہا برس سے دیکھا جا رہا تھا کہ اس سب کچھ کے باوجود اس کا کوئی نظریہ ہے، نہ اصول۔ انسانی قدروں سے بھی اس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ دنیا بھر میں قتل و غارت گری اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ایٹم بم گرانے اور انسانوں کو بھسم کرنے کی روایت بھی اس نے ڈالی۔ لیکن جو کچھ حالیہ صدارتی مباحثے میں نظر آیا اسکی توقع کوئی نہیں کر رہا تھا۔ اب امریکی اپنے آپ کو شرمندہ شرمندہ محسوس کر رہے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ بھی نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں جگہ جگہ ایسے “قائدین” ملتے ہیں جو قیادت کے نام پر دھبا ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیں۔ گالی کی زبان میں بات کرنے والے موجود ہیں، جو بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھ کر بھی اخلاق سے گری زبان اور لب و لہجہ میں بات کرتے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ دنیا آہستہ آہستہ اخلاقی زوال کی طرف جا رہی ہے۔ یا جوں جوں سائنس آگے بڑھ رہی ہے، ہماری زندگی سے انسانیت کا پہلو کمزور ہو رہا ہے۔
تعلیم و تدریس سے تعلق ہونے کے حوالے سے مجھے یہ سوال نہایت ہی اہم لگتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہمارے گھروں کے ماحول میں وہ نفاست نہیں رہی؟ کیا گلی محلے کا ماحول بدل گیا ہے؟ کیا ہماری درس گاہیں، انسان کے بجائے ربورٹ پیدا کر رہی ہیں؟ کیا ہمارے اساتذہ اس جوہر سے محروم ہو گئے ہیں جو اچھے، شائستہ، سلجھے ہوئے اور باوقار لوگ پیدا کرتا ہے۔ میں خود اپنی درسگاہ کے ماحول، اساتذہ کے باہمی رویوں اور ان کے عمومی انداز و اطوار کو دیکھتی ہوں تو دکھ ہوتا ہے کہ ہم اپنے شاگردوں کو کیا تاثر دے رہے ہیں؟ استاد کے منصب پر فائز لوگوں کو میں نے آپس میں چیختے چلاتے، ایک دوسرے کے گریبان پکڑتے،اور بہتان تراشی کرتے دیکھا ہے۔ ایسے انتہائی پڑھے لکھے لوگوں کا طرز عمل دیکھ کر یقین ہو نے لگتا ہے کہ فقط بڑی بڑی ڈگریاں، پڑھا لکھا، مہذب اور شائستہ مزاج ہونے کی کسوٹی نہیں۔
افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ سائنسی ترقی کے حوالے سے انسان آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور اخلاقی اعتبار سے انسانیت زمین کی اتھاہ پستیوں میں لڑھک رہی ہے۔