پی ڈی ایم کو غیر موثر بنانے کی مشق
پیر کے روز چھپے کالم میں عرض فقط یہ کرنا مقصود تھا کہ جناب شہباز گِل صاحب کے ذریعے نواز شریف کی مبینہ ’’بھارت نوازی‘‘ کی کہانی دہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ کہانیاں تو ان دنوں ہی پھیلنا شروع ہوگئی تھیں جب پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے چند ہی ماہ بعد نواز شریف نریندر مودی کی حلف برداری میں شریک ہونے نئی دلی چلے گئے تھے۔الزام لگاکہ دہلی میں موجود ہوتے ہوئے انہوں نے کشمیری حریت پسندرہ نمائوں سے ملاقات سے گریز کیا۔ اپنے صاحبزادے کو ساتھ لے کر بلکہ چند بھارتی سرمایہ کاروں سے ذاتی کاروباری تعلقات استوار کرنے کے امکانات کا جائزہ لیتے رہے۔ بعدازاں نیپال میں سارک کی سربراہی کانفرنس بھی ہوئی۔ بھارت کی معروف صحافی برکھادت نے دعویٰ کیا کہ نیپال میں قیام کے دوران انہوں نے بھارتی وزیر اعظم سے ’’خفیہ ملاقات‘‘ بھی کی۔ان کے دورِ اقتدار میں نریندرمودی’’اچانک‘‘ کابل سے لاہور بھی آگیا تھا۔جاتی امراء میں اس روز مریم نواز صاحبہ کی دختر کی تقریب رخصتی ہورہی تھی۔مودی اس میں شامل ہوا۔اس موقعہ پر تحفے تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ مودی کے علاوہ نواز شریف صاحب کے ایک بھارتی سرمایہ کار سجن جندل کے ساتھ گہرے تعلقات کا بھی بہت ذکررہا ہے۔ان کہانیوںنے نواز شریف کے ’’ووٹ بینک‘‘ کو قطعاََ متاثر نہیں کیا۔اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم کی بدولت ’’حب الوطنی‘‘ والا ماحول نہیں بنا۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ شہباز گِل صاحب ’’پرانی فلم‘‘ چلاتے رہیں گے تو وہ ’’ڈبہ‘‘ ہوجائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ مذکورہ کہانی کچھ نئے ’’حقائق‘‘ کے ساتھ کسی ’’نئے چہرے‘‘ کے ذریعے بیان ہو۔اس ضمن میں چودھری نثار علی خان کا روانی میں ذکر ہوگیا۔میرے چند دیرینہ قارئین نے مگر یہ طے کرلیا کہ پھکڑپن کی آڑ میں ریٹائر ہوا رپورٹر یہ ’’خبر‘‘دے رہا ہے کہ چکری سے اُبھرے راجپوت جو 1985سے نواز شریف کے قریب اور طاقت ور ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے رہے ہیں’’عدالت سے سزا یافتہ مجرم‘‘ کی ‘‘بھارت نوازی‘‘ بے نقاب کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔میں نے ہرگز یہ ’’خبر‘‘ نہیں دی ہے۔چودھری نثار علی خان کے ساتھ میرا باہمی احترام کا رشتہ ہے۔ان کے اندازِ سیاست پر مجھے ہزاروں تحفظات رہے۔ اپنی تحریروں میں اس کا کھل کر اظہار بھی کرتا رہا۔ اس کے باوجود ہم دونوں کے مابین باہمی احترام کے رشتے میں کمی نہیں آئی۔چودھری صاحب ایک ضدی اور کسی حد تک خودپسند آدمی ہیں۔نواز شریف کے رویے نے انہیں اداس اور اکیلا بنادیا ہے۔میرے لئے یہ طے کرنا ممکن ہی نہیں کہ چودھری نثار اور نواز شریف کے اختلافات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان میں سے کس کو درست ٹھہرائوں۔ ویسے بھی رپورٹر سے کالم نگار ہوئے صحافی کو ’’منصفی‘‘ کا حق عطا نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں اپنی محدودات سے بخوبی آگاہ رہتا ہوں۔چودھری صاحب سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئے بھی دوبرس سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے۔تنہائی میں ان سے آخری اور کافی طویل ملاقات اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں اس وقت ہوئی تھی جب نواز شریف آصف سعید کھوسہ کے ہاتھوں وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے قریب پہنچ چکے تھے۔مجھے گماں ہے کہ چودھری صاحب انتہائی خلوص سے یہ محسوس کررہے تھے کہ پانامہ پیپرز کی وجہ سے اُبھرے بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے نواز شریف صاحب نے مناسب حکمت عملی نہیں اپنائی۔وہ میری اس رائے سے بھی متفق نظر آئے کہ نواز شریف کو وزیراعظم ہوتے ہوئے سرکاری افسروں اور ایجنسیوں کے نمائندوں پر مشتمل اس کمیٹی کے روبرو پیش نہیں ہونا چاہیے تھا جو سپریم کورٹ کے حکم پر ان کے اثاثوں کا حساب لینے کے لئے بنائی گئی تھی۔بہتر یہی تھا کہ وہ اس کمیٹی کے روبرو پیش ہونے سے قبل وزیر اعظم کے منصب سے مستعفی ہوجاتے۔چند افراد جنہیں میں ’’معتبر‘‘ شمار کرتا ہوں کی بدولت میرے پاس یہ ’’خبر‘‘ بھی آئی تھی کہ نواز شریف نے اس کمیٹی کے روبرو پیش ہونے سے قبل وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کا ذہن بنا لیا تھا۔اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ’’قوم سے خطاب‘‘کا متن بھی تیار ہوگیا تھا۔میری اس ’’خبر‘‘ کی تاہم چودھری صاحب نے تصدیق یا تردید نہیں کی۔میری کہانی سن کر میز پر رکھے کھانے کی جانب توجہ دلادی جو ان کی دانست میں ’’ٹھنڈا‘‘ہورہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ نواز شریف سے تمام تر شکایات کے باوجود وہ کسی اور کی سہولت کے لئے ان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔لاہور کے ایچی سن کالج کے دنوں میں چودھری نثار،پرویز خٹک اور عمران خان جگری دوستوں کی تکون شمار ہوتے تھے۔ چودھری صاحب مگر عمران خان کو سیاست سے ’’نابلد‘‘ ٹھہراتے ہیں۔ ان کی قیادت میں کام کرنے کو کبھی آمادہ نہیں ہوں گے۔ ہماری ملاقات کے دوران غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کا بھی تفصیلی ذکر ہوا تھا۔’’مائنس ذوالفقار علی بھٹو‘‘ ہوجانے کے بعد ’’مقتدر حلقوں‘‘ نے جتوئی مرحوم کے بہت نازنخرے اٹھائے تھے۔ 1981میں انہیں وزیر اعظم نامزد کرنے کے لئے تفصیلی مذاکرات بھی ہوئے۔چند نکات پر تاہم اتفاق نہ ہوا۔ بالآخر جتوئی مرحوم کو ’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ کے بینر تلے اگست 1983میں جیل بھرو تحریک چلاناپڑی۔سندھ میں یہ تحریک حیران کن حد تک پُرجوش رہی۔بقیہ ملک اگرچہ اس سے غیر متعلق نظر آیا۔بعدازاں 1985کے ’’غیر جماعتی انتخاب‘‘ ہوئے۔ایم آر ڈی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ وزارتِ عظمیٰ ان کے نتیجے میں پیرپگاڑا کے نامزد کردہ محمد خان جونیجو کے سپرد ہوئی ۔ مئی 1988میں لیکن جنرل ضیاء نے ا نہیں بھی فارغ کردیا۔ان کی فراغت کے بعد کافی عرصہ یہ افواہیں گرم رہیں کہ جتوئی صاحب کو نئے انتخابات کی خاطر قائم ہونے والی حکومت کا سربراہ بنایا جارہا ہے۔ 17اگست 1988کے فضائی حادثے کے بعد مگر یہ سکیم پروان نہ چڑھ پائی۔جتوئی صاحب کو فقط تین ماہ کے لئے ’’عبوری وزیر اعظم‘‘ بننے کا موقعہ بالآخر اگست 1990میں اس وقت نصیب ہوا جب غلام اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو فارغ کیا تھا۔اس کے بعد جو انتخابات ہوئے ان کی بدولت نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے۔غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے قدآور سیاست دان کا عملی اعتبار سے مؤثر کردار اس کے بعد ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔مجھے گماں ہے کہ چودھری نثار علی خان دورِ حاضر کے غلام مصطفیٰ جتوئی بننے کو تیار نہیں ہوں گے۔یہ ’’فریضہ‘‘ بوقتِ ضرورت کوئی اور سیاست دان ہی ادا کرسکتا ہے۔نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے علاوہ تحریک انصاف سے بھی کوئی ’’جتوئی‘‘ نمودار ہوسکتا ہے۔اے پی سی سے دھواں دھار خطاب کے بعد نواز شریف صاحب نے فقط عمران حکومت ہی نہیں ہماری اشرافیہ کے چند بھاری بھر کم اور متحرک گروہوں اور دھڑوں کو بھی چونکا دیا ہے۔ 2014سے نواز شریف کے خلاف لگائی گیم کے تمام کردار اب ان کے خلاف یکجا ہونے کو مجبور ہیں۔نواز شریف کے خلاف جس شدت اور تواتر سے ’’بھارت نوازی‘‘ کا ذکر دہرایا جارہا ہے اس کا فطری تقاضہ ہے کہ ریاستی وسائل وقوت کے بھرپور استعمال کے ساتھ ان کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کو غیر مؤثر بنادیا جائے۔غالباََ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ حال ہی میں قائم ہوئی PDMکو بحیثیتِ مجموعی بے اثر کیا جائے یا محض نواز شریف کی مبینہ بھارت نوازی پر اصرار کرتے ہوئے ان کے وفاداروں کو PDMمیں تنہا یا Isolateکردیا جائے۔
چند سیاسی مبصرین اصرار کررہے ہیں کہ اپنی تمامتر ’’خامیوں اور خرابیوں‘‘ کے باوجود پیپلز پارٹی ’’غدار‘‘ نہیں ہے۔ سندھ میں اسے اپنی صوبائی حکومت برقرار رکھنا ہے۔اس کے علاوہ مذکورہ جماعت کی ’’نظریاتی پہچان‘‘ بھی ہے۔اس میں بیٹھے ’’لبرلز‘‘ کو مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں حکومت مخالف تحریک چلانے کے باعث طعنے دئیے جارہے ہیں۔یہ طعنے دینے والے ا گرچہ بھول جاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے 1981سے 1988تک جنرل ضیاء کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر ’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ کو برقرار رکھا تھا۔جنرل مشرف نے 2002میں جو انتخابات کروائے ان کے بعد جیل میں بیٹھے ہوئے آصف علی زرداری مسلسل اس کاوش میں مبتلا رہے کہ سرکاری سرپرستی میں بنائی ’’قاف لیگ‘‘ کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہوکر مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم منتخب کرلیں۔ اتفاق یہ بھی ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب کے دوران عمران خان صاحب نے اپنا ووٹ ظفر اللہ جمالی کے بجائے مولانا فضل الرحمن کی حمایت میں ڈالا تھا۔
مخدوم امین فہیم مرحوم کی ایماء پر محترمہ بے نظیر بھٹو لیکن مولانا فضل الرحمن کی حمایت کو آمادہ نہیں ہوئی تھیں۔ ان تک یہ خدشات پہنچائے گئے کہ امریکہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں کسی ’’بنیاد پرست ملا‘‘ کو وزیر اعظم دیکھنا گوارہ نہیں کرے گا۔ آصف علی زرداری نے آ ج تک محترمہ کو یہ خدشات پہنچانے والے پیغام بروں کو معاف نہیں کیا۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ان دنوں آصف علی زرداری صاحب کوکن لوگوں کے ذریعے کیاپیغامات دئیے جارہے ہیں۔ PDMکو ہر صورت غیر مؤثر بنانے کی مشق مگر جاری ہے۔ آئندہ دنوں اس میں مزید شدت نمودار ہونے کے قوی امکان ہیں۔