منتخب تحریریں

ایک شہر ناپید کا مرثیہ ……(1)

Share

جس طرح لاہور شہر کی فصیل میں بارہ دروازے اور تیرہویں موری ہے عین اسی طرح ملتان شہر کی بچی کھچی فصیل میں چھ دروازے اور ایک عدد بازار ہے جو پورے پرانے شہرکو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ لوہاری دروازہ‘ بوہڑ دروازہ‘ حرم دروازہ‘ پاک دروازہ‘ دہلی دروازہ اور دولت دروازہ۔ یہ تو ہو گئے چھ دروازے اور ایک بازار ہے حسین آگاہی۔ شہر میں داخلے کے یہی سات مستعمل راستے تھے اور اب بھی ہیں۔ تھوڑی سی تفصیل میں جائیں تو ان دروازوں میں سے واحد دولت دروازہ ہے جو دیگر پانچ دروازوں اور حسین آگاہی کے برعکس شہر میں داخل ہونے کے بجائے شہرکی فصیل پر بنی ہوئی گزرگاہ جسے عرف عام میں ”النگ‘‘ کہا جاتا ہے‘ کا داخلی راستہ ہے۔ نہ یہاں کوئی دروازہ ہے اور نہ ہی شہر میں داخلے کا کوئی راستہ۔ باقی پانچ دروازے اور حسین آگاہی اس طرح ہیں کہ داخل ہوتے ہی بازار شروع ہو جاتے ہیں جو گھوم پھر کرایک دوسرے سے کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں۔
ان دروازوں میں اب صرف تین دروازے موجود ہیں۔ حرم دروازہ‘ بوہڑ دروازہ اور دہلی دروازہ۔ باقی تین دروازے اور حسین آگاہی کسی قسم کے دروازے سے محروم ہیں۔ ایک عرصہ تک پاک دروازہ تو موجود تھا مگر پھر وہ ایسا غائب ہواکہ نہ اب اس کا کوئی نام و نشان ہے اور نہ آثار باقی ہیں۔ رہ گئے باقی دروازے اور حسین آگاہی بازار‘ تو اس کے بارے میں کم از کم کسی حیات شخص سے تو یہ نہیں سنا کہ اس نے ان کی باقیات بھی دیکھی ہوں۔ ان چھ دروازوں اور ایک بازار والے شہرسے میری یادیں تب سے جڑی ہوئی ہیں جب میں نے اپنی ہوش کی آنکھ کھولی تھی اور یادداشت کے پردے پر نقش بنانے شروع کئے تھے۔
ویسے تو اس پانچ ہزار سال سے زائد عرصے سے زندہ اور آباد شہر سے میری بے شمار یادیں وابستہ ہیں لیکن ان میں سے تین دروازے توایسے ہیں کہ میرا ابتدائی بچپن ان سے اس طرح گندھا ہوا ہے کہ اگر میں اپنے بچپن سے یہ تین دروازے نکال دوں تو باقی بہت کم بچتا ہے۔ یہ تین دروازے لوہاری دروازہ‘ بوہڑ دروازہ اور حرم دروازہ ہیں۔ تب ا ن دروازوں کے اندر آباد دنیا میں میں اس شہر کی قدامت اور کہنگی ہرطرف سے آپ کو اپنے سحر میں لیتی تھی اور آپ کو کسی ٹائم مشین میں بٹھا کر سینکڑوں برس ماضی میں لے جاتی تھی لیکن اپنے ورثے کو سنبھالنے میں ناکامی کے حوالے سے شاید یہ شہر سب سے آگے نکل گیا ہے۔
قارئین! میری آپ سے گزارش ہے کہ اگرآپ کو اس شہر سے جڑی ہوئی میری یادوں سے‘ دنیا کے قدیم ترین آباد اور زندہ شہرکے مرثیے سے اور ماضی کی نذر ہو گئے دنوں سے دلچسپی نہیں ہے تو پھر یہ تحریر آپ کیلئے نہیں۔ آپ اسے چھوڑ کر کسی دوسری تحریر سے رجوع کر سکتے ہیں بعد میں آپ کم از کم مجھ سے گلہ نہ کیجئے گا کہ میں نے آپ کو بروقت آگاہ نہیں کیا۔
ماں جی مرحومہ گورنمنٹ ووکیشنل سکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں بعد میں جب یہ سکول قاسم پور کالونی اپنی سرکاری عمارت میں شفٹ ہوا تو اپ گریڈ ہو کر سکول سے انسٹی ٹیوٹ ہو گیا اور ماں جی ہیڈ مسٹریس سے پرنسپل ہو گئیں۔ میرا سارا بچپن اسی بوہڑ گیٹ کے اندر واقع سکول سے جڑا ہوا ہے۔ یہ بوہڑ گیٹ کی تنگ گلیوں کے اندر ایک حیران کن حد تک وسیع پرانی حویلی میں قائم تھا۔ یہ متروکہ ہندو ملکیت تھی جو ایک وکیل خلیل صاحب نے نیلامی میں لی تھی یہ نام مجھے اس لئے یاد رہ گیا کہ خلیل صاحب ابا جی مرحوم کے دوست تھے اور ان سے کبھی کبھار اباجی کے ہمراہ ملاقات ہو جاتی تھی۔ ہندو طرز تعمیر کی یہ حویلی وسیع‘ بلند و بالا اور بڑی پائیدار بنی ہوئی تھی۔ ایک محاورہ ہے کہ ”بنیے کی کمائی‘ مکان اور بیاہ نے کھائی‘‘۔ یہ حویلی اسی محاورے کی عکاس تھی۔ اس کے تین دروازے تھے‘ ایک دروازہ تو بوہڑ دروازے کے بازار میں کھلتا تھا مگر یہ اس کے پرانے مالکان نے ہی کبھی استعمال کیا ہو تو کیا ہو۔ جب میں نے دیکھا تو یہ مستقل بند ہوتا تھا اور اس دروازے کے سامنے پرانے فرنیچر کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ مرکزی دروازہ گلی سے بہت اونچا تھا اور دس بارہ سیڑھیاں چڑھ کر آتا تھا۔ اس لکڑی والے دیوہیکل دروازے پر پیتل کی میخیں لگی ہوئی تھیں اور باہر والی سمت جیل نما لوہے کی موٹی موٹی سلاخوں والا حفاظتی دروازہ تھا۔ اس کا مالک کوئی دولتمند سیٹھ یا ساہوکار ہو گا۔ بھلا ایسی حویلی اور کون بنا سکتا تھا؟ ماں جی کے کمرے کے پیچھے ایک اور کمرہ تھا یہ ریٹائرنگ روم کاکام دیتا تھا۔ اس کے دونوں طرف اسی طرح لوہے کی سلاخوں سے بنے ہوئے جنگلے تھے جو کھلتے نہیں تھے۔ اندر لکڑی کے پٹ تھے جن کو کھول کر روشنی کا اہتمام کیا جاتا تھا‘ اس کمرے میں ایک مضبوط لوہے کی تجوری دیوار میں چنی ہوئی تھی۔ یہ تین منزلہ عمارت تھی جس میں جھروکے تھے‘ چھتوں پر لکڑی کا نفیس کام ہوا تھا‘ موزائک تھا اور دروازوں کے اوپر نصف دائرے میں ڈیزائن دار رنگین شیشوں کا کام تھا۔ لکڑی کی شاندار جالیاں تھیں اور کمروں میں سیاہ و سفید پتھر کی سلوں سے بنے ہوئے فرش تھے۔
دوطرفہ تین منزلہ عمارت تھی اور درمیان میں وسیع صحن۔ اس صحن میں سکول کی اسمبلی ہوتی تھی عمارت کی جنوبی سمت ایک بغلی عمارت تھی اور اس میں ایک چھوٹا صحن تھا۔ تیسری منزل پر دونوں طرف والی عمارتوں کے صحن پر لکڑی کے حفاظتی جنگلے تھے اور سرخ پتھروں سے بنی ہوئی صوفہ نما بیٹھنے کی جگہیں۔ مغربی سمت ایک مسجد تھی۔ جس طرف سے ٹیچرز آتی تھیں اس سمت سامنے دو گھر دھوبیوں کے تھے جن کے سامنے گدھے بندھے ہوتے تھے اور دو میزیں تھیں جن پر وہ سارا دن کوئلوں والی بھاری بھر کم استریوں سے کپڑے استری کرتے رہتے تھے۔
میں تب تین ساڑھے تین سال کا تھا جب اس سکول کے‘ لوہاری دروازے‘ بوہڑ دروازے اور حرم دروازے کے نقش ثبت ہونا شروع ہوئے۔ ابا جی اپنے ویسپا سکوٹر پر پہلے ماں جی کو سکول چھوڑتے اور پھر اپنے کالج چلے جاتے۔ پہلے پہل تو میں ماں جی کے ساتھ سکول اترجاتا تھا اور دن بھر سکول میں گھومتا رہتا۔ پھر اردگرد گھومنا شروع کر دیا۔ بغلی گلی سے نکل کر بوہڑ گیٹ کے مین بازار میں جاتا تو ایک بیکری سے دو آنے کا کریم رول لے کر کھانا میرا تقریباً روزانہ کا مشغلہ تھا تاہم ہر روز اس کے اندر والی کریم کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کردیتی۔ یہ ایک الگ سٹوری ہے۔ روزانہ کا روٹ طے تھا۔ صبح گھر سے آتے تو پرانی سبزی منڈی روڈ سے پانی والی ٹینکی کے سامنے النگ کے نیچے سے گزر کر بوہڑ دروازے والے بازار میں جاتے اور پھر وہاں سے سکول۔ واپسی پرابا جی لوہاری دروازے سے شہر میں داخل ہوتے۔ ڈاکٹر وانیا (میں نے صرف اس کا نام ہی سنا تھا) کے کلینک کے سامنے سے ہنوں کے چھجے سے گزر کر تنگ گلیوں میں داخل ہوتے اور مسجد فردوس کے ساتھ والی مغربی گلی سے سکول پہنچتے۔ وہاں سے صابن والی گلی سے ہو کر حرم دروازے پہنچتے اور اکبر روڈ سے ہوتے ہوئے گھر آ جاتے۔ جانے اور آنے کا راستہ مختلف ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چوک شہیداں سے پانی والی ٹینکی کی طرف صرف آیا جا سکتا تھا اور واپسی کیلئے صرف اکبرروڈ کی طرف سے جانے کی اجازت تھی۔ تب ون وے پر سختی سے عمل ہوتا تھا اور اس کی خلاف ورزی کا تصور ہی نہ تھا۔ اب ٹریفک دس گنا بڑھ گئی ہے اور انہی تنگ سڑکوں پر دوطرفہ ٹریفک کے باعث ہمہ وقت پھس پھسا ہوا رہتا ہے۔ جدھر دیکھیں ترقی معکوس کی صورتحال ہے ا ور بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ یہ صرف شہر ملتان کا قصہ نہیں۔ جس شہر کو دیکھیں یہی حال ہے۔ ( جاری )