Site icon DUNYA PAKISTAN

کیا نواز شریف کے حکومت اور اداروں کے خلاف سخت بیانیے کے پیچھے ڈان لیکس کا معاملہ ہے؟

Share

پاکستانی سیاست میں حالیہ دنوں میں ایک ایسا سیاسی ارتعاش پیدا ہوا ہے جو کم از کم گذشتہ دو برسوں کے دوران دیکھنے میں نہیں آیا۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت تنقیدی بیانیہ سامنے آیا جس کے تانے بانے گزرے ہوئے برسوں کی سیاست سے جڑے واقعات سے جا کر ملتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 20 ستمبر کو حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس اور دو اکتوبر کو اپنی جماعت کے رہنماؤں سمیت ورکرز سے کیے گئے خطابات میں کچھ ایسے دعوے کیے جن پر مخالف حلقوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن نے یہ بیانیہ اس لیے اپنایا کیونکہ وہ احتساب کے عمل میں نرمی چاہتے ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے قائد کی طرف سے کیے جانے والے انکشافات اب اس لیے سامنے آ رہے ہیں کیونکہ ناانصافی اور پاکستانی سیاست میں ’پولیٹیکل انجنیئرنگ‘ کا دخل حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ سنہ 2013 میں ہمارے اقتدار میں آتے ہی شروع ہو گیا تھا۔ سیاست میں مداخلت کرنے والے چند طاقتور ملکی اداروں نے عمران کا 2014 کا جلسہ سٹیج کرنے کے بعد یہ سوچ لیا تھا کہ انھیں اگلے الیکشن میں وزیر اعظم لانا ہے۔‘

یاد رہے کہ میاں محمد نواز شریف پہلے ہی عمران خان کے سنہ 2014 کے دھرنوں اور ان کی حکومت کو گرانے کی ذمہ داری براہ راست اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الااسلام پر عائد کر چکے ہیں۔

دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ 2016 میں سامنے آنے والی ایک خبر جسے ’ڈان لیکس‘ کا نام دیا گیا، اس وقت کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو افشا کرنے کا سبب بنی۔

ڈان لیکس اور پاکستانی سیاست

مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کا بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’سنہ 2016 سے لے کر اب تک ہونے والے واقعات کو دیکھا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈان لیکس پر ایکشن لینے کے باوجود بھی نواز شریف کے کسی عمل کو اچھے انداز میں نہیں دیکھا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد ان کے لیے مزید مشکلات بڑھا دی گئیں۔ ان کے خلاف مقدمے چلائے گئے، انھیں عدالت نے دباؤ میں آ کر سزا سنائی، دو مرتبہ جیل بھیج دیا گیا، انھیں سیاست سے دور کرنے کی کوشش کے علاوہ، ان کی اپنی پارٹی کی صدارت ان سے چھین لی گئی۔ یہی نہیں 2018 کے انتخابات میں جعلسازی سے عمران خان کو لایا گیا۔‘

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈان لیکس کے بعد سے اب تک پاکستانی سیاست کی شکل تبدیل ہوئی ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ صرف ڈان لیکس ہی مسلم لیگ ن اور ان کی حکومت کے لیے مشکلات کا سبب بنی۔‘

’اس خبر کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہی سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کئی اختلافات پائے جاتے تھے۔ تاہم ڈان لیکس سے دونوں کے مابین پائی جانے والی محاذ آرائی کھل کر سامنے آ گئی۔ کیونکہ ایسی میٹنگز تو ہوتی رہتی ہیں لیکن یہاں مسئلہ یہ بنا کہ اس میٹنگ کی خبر لیک ہو گئی جس پر فوج نے یہ کہا کہ یہ خبر حکومت نے لیک کروائی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’شروع میں اس معاملے میں مریم نواز کا نام بھی سامنے آیا لیکن اس کے بعد چوہدری نثار اور جنرل راحیل شریف کے درمیان یہ طے ہو گیا تھا کہ ان کا نام نہیں لیا جائے گا اور بعد میں ان کا نام اسی وجہ سے نکال دیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ڈان لیکس ایک ’ٹرگر پوائنٹ‘ یا چنگاری تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے ہی نواز شریف اور فوج کے درمیان انڈیا کے معاملے پر اختلافات تھے، ملک کے اندرونی معاملات سمیت خارجہ امور پر بھی اختلافات تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ بھی ہو گئی اور اس پر عمل بھی ہو گیا تب بھی ان کے معاملات درست نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بھی ڈان لیکس کے معاملے پر نواز شریف کا مسئلہ سامنے آیا۔‘

’اس ساری محاذ آرائی کا نتیجہ 2018 کے الیکشن میں دیکھا گیا جو مسلم لیگ ن کا الزام ہے۔ لوگوں کی وفاداریاں بدلی گئیں، اس میں یقیناً کوئی نا کوئی تو خفیہ ہاتھ ملوث تھا۔‘

انھوں نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تصادم ہونے کا خدشہ ہے جبکہ اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

’یہاں اس بات کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آج کل جو ہو رہا ہے اس کی ٹائمنگ انتہائی معانی خیز ہے کیونکہ یہ ایسا پوائنٹ ہے کہ میاں نواز شریف حکومت کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘

’جس طرح وہ کھل کر سامنے آئے اور تنقید کی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں شاید کوئی امید ہے یا پھر انھوں نے یہ سوچا کہ آگے سینیٹ کے الیکشن ہیں تو اس سے پہلے پہلے عمران خان کی پارٹی کو روکنا ضروری ہے۔‘

‘حکومت اور فوج کے درمیان تصادم ختم کرنے کے لیے استعفی دیا’

ڈان لیکس کی خبر سامنے آنے کے بعد افواج پاکستان کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ جبکہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی انکوائری سامنے آنے بعد اس وقت کے افواج پاکستان کے ترجمان جنرل آصف غفور کی طرف سے ٹویٹ کی گئی، جس میں یہ کہا گیا کہ ہم اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔

اس بارے میں مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کا کہنا تھا ’مجھے عہدے سے ہٹا دیا گیا اس کے باوجود بھی فوج کی جانب سے اس قسم کا ردعمل آنا سمجھ سے بالاتر تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈان لیکس صرف کچھ مقاصد کے حصول کے لیے کی جا رہی تھی۔ جس میں سیاسی مقاصد کے ساتھ ساتھ جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی شامل تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وہ چاہتے تھے کہ انھیں مدت ملازمت میں توسیع دی جائے جس پر میں نے خود اپنی پارٹی کے سامنے یہ پیشکش کی کہ ڈان لیکس کے معاملے پر میں اپنے عہدے سے استعفی دیتا ہوں تاکہ یہ لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب نا ہو سکیں۔‘

دوسری جانب سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ جنرل راحیل شریف تو پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ میں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتا ہوں۔ جبکہ یہ لوگ خود انھیں کہتے تھے کہ آپ نے بہت اچھے کام کیے ہیں اس لیے ہم آپ کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔

کیا پاکستانی سیاست پر ڈان لیکس کے اثرات اب بھی موجود ہیں؟

مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کے مطابق آج بھی موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ یہ بات کہتے ہیں کہ نواز شریف تین چار لوگوں کی باتوں میں نا آجاتے تو چوتھی دفعہ وزیر اعظم ہوتے۔

’وہ یہ بتا رہے ہیں کہ اس ملک میں وزیر اعظم کا بننا اور ان کا ہٹائے جانا اس لیے نہیں ہوتا تھا کہ لوگ آپ کو منتخب کرتے ہیں یا نہیں بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ آپ نے کسی کی بات مانی یا نہیں مانی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے سیاسی معاملات اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے ہیں جب تک اس بات کا عہد نہ کر لیا جائے کہ اس ملک کے انتخابات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک یہ نہ مان لیا جائے کہ تمام سیاسی جماعتیں محب وطن ہیں اور پاکستان کی عوام کی خدمت اور ان کی ترجمانی کرتی ہیں، اس کے بعد پاکستانی عوام جسے چاہیں حق حکمرانی دے دیں۔‘

بشکریہ بی بی سی اُردو

Exit mobile version