Site icon DUNYA PAKISTAN

ہیپاٹائٹس سی کا وائرس دریافت کرنے والے سائنسدانوں کے لیے نوبیل انعام

Share

ہیپاٹائٹس سی کا وائرس دریافت کرنے والے تین سائنسدانوں کو سنہ 2020 کے نوبیل انعام برائے طب سے نوازا جائے گا۔

نوبیل انعامی کمیٹی کے مطابق برطانوی سائنسدان مائیکل ہوٹن اور امریکی ریسرچرز ہاروی آلٹر اور چارلز رائس کو یہ ایوارڈ اس لیے دیا جا رہا ہے کیونکہ ان کی 1989 میں کی گئی دریافت سے کروڑوں جانیں بچائی جا چکی ہیں۔

یہ وائرس جگر کے سرطان (کینسر) کا باعث بنتا ہے اور اسی وجہ سے متعدد افراد کو جگر کی پیوندکاری کروانا پڑتی ہے جو کہ ایک انتہائی مہنگا آپریشن ہوتا ہے۔

سنہ 1960 کی دہائی میں خون عطیہ کرنے کے حوالے سے کئی خدشات سامنے آئے تھے کیونکہ کئی ایسے لوگ جنھیں خون کا عطیہ ملا، وہ ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہو رہے تھے۔

نوبیل انعامی کمیٹی کے مطابق اُس وقت خون کا عطیہ ’اپنی زندگی سے کھیلنے‘ کے مانند ہوتا تھا۔

انتہائی حساس بلڈ ٹیسٹس کے ذریعے ہیپاٹائٹس کے مرض کو دنیا کے کئی حصوں سے ختم کر دیا گیا ہے اور اینٹی وائرل ادویات بھی بنائی گئی ہیں۔

نوبیل انعامی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’تاریخ میں پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ اس مرض کا علاج ممکن ہے اور اب ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کو دنیا سے ختم کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔‘

دنیا بھر میں یہ وائرس تقریباً سات کروڑ افراد میں پایا جاتا ہے اور اس سے سالانہ چار لاکھ اموات ہوتی ہیں۔

پُراسرار قاتل

ہیپاٹائٹس اے اور بی 1960 کے وسط میں دریافت ہوگئے تھے۔

پروفیسر ہاروی آلٹر سنہ 1972 میں امریکی ادارۂ صحت میں مریضوں کے درمیان خون کے تبادلے پر تحقیق کر رہے تھے۔ وہاں انھیں ایک پُراسرار انفیکشن کے بارے میں پتا چلا۔

خون کے تبادلے کے بعد مریض بیمار ہو رہے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ یہ بیماری چمپینزی میں بھی اسی طرح منتقل ہوسکتی ہے۔

اسے ’نان ہیپاٹائٹس اے، بی‘ کے نام سے جانا گیا اور اس حوالے سے تحقیق جاری رہی۔

دواساز کمپنی شرن میں پروفیسر مائیکل ہوفٹن نے 1989 میں اس وائرس کی جینیاتی ترتیب الگ کر لی تھی۔ اس ’فلیوی وائرس‘ کی قسم کو ہیپاٹائٹس سی کا نام دیا گیا۔

سینٹ لیوس کی واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر چارلز رائس نے 1997 میں تحقیق کو حتمی شکل دی۔ انھوں نے ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کو خود جینیاتی ترتیب دے کر اسے ایک چمپینزی کے جگر میں داخل کیا جس سے ظاہر ہوا کہ اسے یہ بیماری لگ سکتی ہے۔

نوبیل اسمبلی کے جنرل سیکریٹری پروفیسر تھامس پرلمین نے یہ خبر صرف آلٹر اور رائس کو دی۔

’وہ فون پر موجود نہیں تھے کیونکہ میں نے انھیں دو بار کال کی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔‘

’پھر میں نے ان سے رابطہ کیا۔ وہ کافی حیران تھے اور وہ اتنے خوش تھے کہ تقریباً بول نہیں پا رہے تھے۔ ان سے بات کر کے مجھے بہت اچھا لگا۔‘

Exit mobile version