منتخب تحریریں

کراچی کا سفر اور غربت کا رقص

Share

گاؤں کے سرے پر واقع آخری مکان مجھے بہت پسند ہے، جیسے ریل گاڑی کا آخری ڈبہ، جس کے بعد تاحدِ نگاہ صرف ریل کی پٹری دکھائی دیتی ہے۔ آخری مکان بھی ایسا ہی ہوتا ہے، دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہوتی، زندگی اِس مکان سے شروع ہوتی ہے۔

کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ لاہور سے کراچی براستہ موٹروے سفر کیا جاوے، یار لوگوں سے سنا تھا کہ اب بارہ گھنٹوں میں بندہ کراچی پہنچ جاتا ہے اور واپس بھی صحیح سلامت آتا ہے، بوری میں نہیں آتا۔ مبالغہ آرائی چونکہ لاہوریوں کی گھٹی میں پڑی ہے سو احتیاطاً گوگل مدظلہ سے بھی پوچھ لیا کہ سفر کتنا طویل ہے، جواب آیا چودہ گھنٹے۔ ’’خاکم بدہن‘‘ میں یوسفی صاحب ایک شخص کا خاکہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اِس کے متعلق محلے میں مشہور تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے نہیں نہایا ہے‘‘۔ صبح خیزی کے باب میں اپنا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، اسکول کے زمانے کے بعد شاید ہی کبھی منہ اندھیرے اٹھنے کا اتفاق ہوا ہو مگر اب مجبوری تھی سو ہمت کرکے علی الصباح پانچ بجے روانہ ہو گئے اور ساتھ میں کھانے پینے کا اتنا سامان رکھ لیا جتنا عام طور پر لوگ جنگ کے دنوں میں گھر پر ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ دراصل ہمیں بتایا گیا تھا کہ موٹروے صرف سکھر تک ہے اور اُس پر سروس ایریاز تعمیر تو ہو چکے ہیں مگر ابھی چالو نہیں ہوئے، وہاں پٹرول ملتا ہے اور نہ کھانا۔ صبح سویرے نکلنے کا البتہ بہت فائدہ ہوا، گاڑی میں بیٹھتے ہی نیند آ گئی اور پھر آنکھ اُس وقت کھلی جب ڈرائیور نے ناشتے کے لئے جگایا۔ سنی سنائی یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ ایم تھری موٹر وے پر کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔ لاہور سے سکھر تک اِس موٹر وے پر سروس ایریاز ہیں جہاں چائے اورا سنیک وغیرہ مل جاتے ہیں، ایک آدھ جگہ باقاعدہ ریستوران بھی ہے اور ٹھہرنے کے لئے ہوٹل کی طرز پر کمرے بھی موجود ہیں جہاں آپ چار ہزار روپے میں بارہ گھنٹے کے لئے قیام کر سکتے ہیں۔ پٹرول کا مسئلہ ذرا ٹیڑھا ہے، صرف ایک سروس ایریا میں سپلائی ملتی ہے، راستے میں اگر ضرورت پڑے تو ملتان کے قریب شجاع آباد انٹر چینج سے باہر ہوکر دوبارہ ٹینک بھروا لیں۔ ایم تھری پر ابھی ٹریفک بہت کم ہے، سروس ایریا پر بھی اِکا دُکا گاڑیاں ہی نظر آتی ہیں مگر پولیس کا گشت متواتر ہے۔ اِس موٹر وے کو یوں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ سڑک کسی حسینہ کی زلفوں کی طرح خم کھاتی نظر آتی ہے۔ ’’کوئی خم ہے تِری زلفوں کا جو یوں ہے، یوں ہے‘‘۔ پنجاب اور سندھ یہاں ایسے ملتے ہیں جیسے عاشق محبوب سے ملتا ہے۔ پنجاب کی سرحد صادق آباد تک ہے، پھر سندھ اپنی آغوش میں لے لیتا ہے، ماں کی طرح جو اپنے بچے کو بھینچ کر پیار کرتی ہے۔ لاہور سے سکھر تک کا یہ سفر سات گھنٹوں میں روہڑی ٹول پلازہ پر ختم ہوا۔ آگے سکھر سے حیدر آباد تک کا سفر بہت تھکا دینے والا ہے، اِس شاہراہ پر بھاری ٹریفک چلتی ہے، راستے میں کھانے پینے کے ڈھابے اور پٹرول پمپ تو جا بجا ہیں مگر وہ معیار نہیں جو پنجاب میں شاہراہوں کا ہے، غربت بھی نسبتاً زیادہ ہے اور محبت بھی۔ ایک ڈھابے پر ایسی چائے پی کہ نشہ ہو گیا، چائے ختم کرکے اُٹھا تو دیکھا کہ پراٹھے بھی تلے جا رہے ہیں، پراٹھوں کی شکل بتا رہی تھی کہ جس نے یہ چائے کے ساتھ ڈبو کر کھا لئے، سمجھو اُس نے دنیا میں ہی جنت پا لی۔ ایک لمحے کے لئے سوچا کہ پراٹھا ٹرائی کیا جائے مگر پھر اپنے وزن کاخیال آیا، بمشکل آنسو ضبط کئے۔

لاہور کے بعد اگر مجھے کسی شہر سے محبت ہے تو وہ کراچی ہے۔ افسوس کہ اِس شہر کے ساتھ مسلسل تین دہائیوں تک زیادتی ہوتی رہی، اِس نے شہر کی شکل بگاڑ دی ہے، مجھے کراچی کو دیکھ کر اتنی مایوسی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ہاکس بےجانے کا پروگرام بنا، بچپن سے اِس جگہ کے بارے میں سنا تھا کہ یہ جگہ شہر سے ذرا باہر ہے، یہاں سمندر کے کنارے جا بجا ہٹ بنے ہیں، کلفٹن کی طرح گندگی نہیں ہے اور سمندر کا پانی بھی شفاف ہے۔ اِن تمام باتوں نے دماغ میں کچھ ایسا نقشہ بنا دیا کہ جس طرح کیلی فورنیا میں بحر الکاہل کے ساتھ ہائی وے ون چلتی ہے شاید اسی طرح کراچی سے کوئی سڑک بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوئی ہاکس بے کو جا نکلے گی۔ سڑک نے کیا نکلنا تھا ہمارا جلوس نکل گیا۔ سڑک نام کی یہاں کوئی چیز نہیں، ایک کچا راستہ ہے جہاں بدترین ٹریفک چلتی ہے، چاروں طرف شدید دھول اور مٹی اُڑتی ہے، ڈیڑھ گھنٹے تک یہی کیفیت رہتی ہے اور پھر آخری چند منٹ ایک پکی سڑک اور بالآخر سمندر کی جھلک سی نظر آتی ہے۔ ہاکس بےپر ہٹ ضرور بنے ہیں مگر یہاں کی واحد تفریح یہ ہے کہ آپ گھر سے ہانڈی بنا کر لے آئیں اور دستر خوان بچھا کر کھائیں کیونکہ آس پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی، اِس کے لئے آپ کو واپس اسی کچے راستے پر ماڑی پور جانا پڑتا ہے۔ دوسری تفریح یہ ہے کہ آپ کسی مریل سے اونٹ پر بیٹھ کر سمندر کی سیر کر لیں اور پاکستانی سیاحت کا کلیجہ نکال کر رکھ دیں۔ اِس کے مقابلے میں ’’دو دریا‘‘ جانا قدرے بہتر تفریح ہے، یہ کلفٹن کے ساحل پر ہے، یہاں سمندر کے کنارے قطار اندر قطار ریستوران یوں بنے ہیں کہ لگتا ہے جیسے آپ کسی بحری جہاز میں بیٹھے کھانا کھا رہے ہوں۔

میری خواہش ہے کہ میں بلوچستان کے ساحل بھی دیکھوں اور تھل کا صحرا بھی، دیوسائی کے میدان میں خیمے گاڑ کر رات بھی گزاروں اور پنجاب کے کسی دور افتادہ گاؤں کے آخری مکان سے ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ بھی دیکھوں۔ کچھ خواہشیں پوری ہو چکیں، کچھ ابھی باقی ہیں۔ اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں۔

کالم کی دُم: سنا ہے ہماری عظیم ثقافتی اقدار بسکٹ کے ایک اشتہار سے لرز گئی ہیں جس میں مبینہ طور پر ایک خاتو ن رقص کرتے ہوئے بسکٹ کھانے کی ترغیب دیتی نظر آتی ہیں۔ یقیناً بسکٹ کھانا ہی فحاشی ہوگی ورنہ رقص تو یہاں غربت، ننگ اور افلاس کا روز ہوتا ہے، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔