پاکستان کے ایک مشہور گلوکار نے آٹھ خواتین پر ایف آئی اے کے ذریعے مقدمہ دائر کیا ہے کہ انھیں بدنام کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایک معروف گلوگارہ نے گلوکار پر الزام لگایا تھا کہ وہ انھیں جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے ہیں۔ پھر کچھ غیرمعروف خواتین نے بھی الزام لگایا کہ مشہور گلوکار نے مختلف مواقع پر انھیں بھی ہراساں کیا ہے۔
جماعت اسلامی کے مرحوم امیر مولانا منور حسن نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر کوئی عورت ریپ ہو جائے اور اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ خاموش رہے۔
اس سے پہلے پاکستان میں ریپ ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی ضرورت تھی، لیکن ایسے چار گواہوں کی گواہی کا کیا مطلب اگر وہ ریپ ہوتے دیکھتے رہے؟ کس لیے؟ تاکہ بعد میں عدالت میں گواہی دیں سکیں؟ جس ریپ کے چار گواہ ہوں وہ گینگ ریپ ہوتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک کے ہر کونے سے ریپ کی ہولناک خبریں آ رہی ہیں، کبھی موٹروے سے، کبھی گاؤں گوٹھ سے، کبھی ٹیکسی ڈرائیور کے ہاتھوں، پولیس والے کے ہاتھوں اور اکثر اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں۔
دائیں بائیں اور درمیان والے مردوں نے اس کے دو حل نکال لیے ہیں۔ پہلا یہ کہ ریپ کرنے والے کو جانور قرار دو اور چوک پر پھانسی دے دو۔ اس سے شاید ریپ تو نہ رک سکے لیکن یہ ثابت ہو جائے گا کہ دیکھو سب مرد ایسے نہیں ہوتے۔
دوسرا اور بڑا حل کہ اگر عورت نظر نہیں آئے گی تو ریپ نہیں ہوگی۔ گھر سے کیوں نکلی، اشتہار میں کیوں ناچی، گاڑی کیوں چلائی، جینز کیوں پہنی، فیس بک پر اکاؤنٹ کیوں بنایا، غیر لڑکے کو فون نمبر کیوں دیا؟
مسئلے کا یہ حل بتانے والے یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ خواتین کی اکثریت کو ریپ ہونے کے لیے گھر نہیں چھوڑنا پڑتا، نوکری بھی نہیں کرنی پڑتی، ان کے ساتھ یہ ظلم گھر بیٹھے ہی ہوتا ہے۔
لیکن اگر مرد اور کئی عورتیں بھی یہ بات مان لیں تو انھیں اپنے گھر کے مردوں کے خلاف ہی گواہی دینا پڑے گی اور یہ ہماری خاندانی روایات کے خلاف ہے۔ ان روایات کے مطابق عورت کا ریپ منظور ہے، مرد کی بے عزتی منظور نہیں ہے۔
عورت کو ریپ سے بچنا ہے تو وہ یہ نہ کرے، وہ نہ کرے کا منطقی انجام یہی ہے کہ کہہ دیا جائے کہ عورت کے لیے ریپ سے بچنے کا واحد یقینی طریقہ یہ ہے کہ وہ پیدا ہی نہ ہو۔
ورنہ مرد کے پاس وہی پرانا راگ کہ چار گواہ لاؤ، اگر نہیں ملے تو میری بے عزتی۔ اگر کوئی کہے کہ یہ لو آٹھ گواہ، تو گواہ سب جھوٹے۔ ریاستی ادارے جو موٹروے پر ہونے والے ریپ کے مجرم کو ایک مہینے تک نہیں ڈھونڈ سکے، ایک مرد کی عزت کی حفاظت کے لیے حرکت میں آ جائیں گے۔
مشہور گلوکار کی بے عزتی کا کیس پاکستان کے ہر مرد کی بے عزتی کا کیس ہے، جس کا دفاع وہ کچھ یوں کرتا ہے: میں نے نہیں کیا، میں آپ کو ایسا لگتا ہوں؟ میری اپنی بہن ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں۔ دیکھو میں عمرہ کر کے آیا ہوں، یہ دیکھیں میری خانہ کعبہ میں سیلفی۔ کیا میں ایسا کر سکتا ہوں۔
سید کاشف رضا کے ناول ’چار درویش اور کچھوا‘ میں ایک ڈراؤنا سین ہے جس میں ایک مرد کچھ عورتوں کو یرغمال بنا لیتا ہے۔ اس واقعے کی کوریج ٹی وی پر براہ راست کی جا رہی ہے۔ اغواکار دھمکی دیتا ہے کہ وہ ایک ایک کر کے عورتوں کو ریپ کرے گا۔ ٹی وی اینکر اغوا کار سے پوچھتا ہے کہ آخر اس کے مطالبات کیا ہیں۔ اغوا کار کہتا ہے کہ ملک میں شریعت کا فوری نفاذ۔
ہم مرد بھی ایک لمحے ریپ کرنے والوں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینا چاہتے ہیں یا ان کا سر قلم کرنا چاہتے ہیں اور اگر کوئی عورت یہ کہہ دے کہ مجھے انصاف چاہیے تماشا نہیں تو آپ اسے ریپ کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں کیونکہ ہم سے بے عزتی برداشت نہیں ہوتی۔