ایبٹ آباد میں منعقدہ خواتین کی قومی سکواش چمپیئن شپ میں شریک پشاور کی دو نو عمر بہنوں ام کلثوم اور زہرا عبداللہ کی کارکردگی، محنت، ہمت اور جذبے نے سب کو بہت متاثر کیا ہے۔
ان دو بہنوں نے دو سال کے عرصے کے اندر نہ صرف نیشنل چمپیئن شپ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ مقابلوں میں اپنے سے زیادہ سینیئر اور تجربہ کار کھلاڑیوں کو مشکل میں ڈال کر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس بھی دلایا ہے۔
جس طرح کے مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے ان دو بہنوں نے کارگردگی دکھائی ہے یقیناً یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
نیشنل چمپیئن شپ میں شرکت کرنے والی ان دو بہنوں کے لیے سکواش کھیلنا کبھی بھی آسان نہیں تھا۔ ام کلثوم نے پاکستان کے سب سے بڑے ایونٹ میں شرکت کی تو ان کے پاس اپنا ریکٹ بھی نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی مختلف ساتھی کھلاڑیوں اور اپنی بہن سے ریکٹ مانگ کر میچز کھیلے تھے۔
ام کلثوم اور زہرا عبداللہ کون ہیں؟
ام کلثوم اور زہرا عبداللہ پشاور کی رہائشی اور انٹر کی طالبات ہیں۔
جب یہ دونوں بہنیں دوسری اور تیسری جماعت میں تھیں تو ان کے والد وفات پا گئے۔ زہرا نے کہا کہ ’ابو کی موجودگی میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر اس کے بعد مسائل کا آغاز ہو گیا۔‘
ان کی والدہ کو صرف سلائی کڑھائی آتی تھی جبکہ انھوں نے بچیوں سے کہا کہ والد کی وفات کا غم اپنی جگہ لیکن ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے اور سلائی کڑھائی کے ذریعے ہی مالی ضروریات پوری کریں گی۔
ان کے والد صاحب نے انھیں پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ دلوا رکھا تھا اور ان کی والدہ امی نے بھی ان ہی سکولوں میں ان کی تعلیم جاری رکھی۔
زہرا بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ نہ صرف گھر کا کام کاج کرتیں بلکہ محنت مزدوری بھی کرتی تھیں۔ ام گلثوم نے بتایا کہ ان کی والدہ انھیں اکثر کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں کہ زندگی میں جن مشکلات کا سامنا مجھے کرنا پڑا ہے ہمیں ان کا سامنا کبھی بھی نہ کرنا پڑے۔
‘اس لیے وہ ہماری پڑھائی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتیں اور کھیلوں میں بھی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔’
دونوں بہنوں نے میٹرک میں بہترین گریڈ حاصل کیے ہیں۔ ام گلثوم بتاتی ہیں کہ ہمارے میٹرک کا نتیجہ دیکھ کر ہماری امی رو پڑی تھیں۔
’ہم بہنیں اس پر خفا ہوئیں تو انھوں نے کہا کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں جلد از جلد کچھ ایسا کر لوں کہ میں اپنی امی کو اچھا سا بوتیک کھول کر دے سکوں۔‘
زہرا کھیلوں کے ساتھ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ ام کلثوم کھیلوں ہی میں کریئر بنانے کی خواہش مند ہیں اور مستقبل میں فیشن ڈیزائننگ پڑھنا چاہتی ہیں۔
زہرا عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہم پروفیشنل سپورٹس میں تو داخل ہو چکے ہیں مگر تعلیم کا سلسلہ نہیں چھوڑیں گے۔
پہلا انعام گولڈ میڈل اور دو سو روپے
ان بہنوں کے سکول میں تو کھیلوں کی کوئی خاص سرگرمی نہیں ہوتی جس کے باعث انھوں نے گورنمٹ فرنٹیئر کالج فار وومن پشاور میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے کے بعد کھیلوں کی دنیا میں قدم رکھا۔
اور اس سلسلے کی شروعات بھی حادثاتی تھی۔
زہرا بتاتی ہیں کہ ‘ایک روز ہم دونوں بہنیں فری پیریڈ کے دوران باسکٹ بال کھیل رہی تھیں۔ ہماری سپورٹس ٹیچر نے دیکھا تو ہمیں بلایا اور کہا کہ آپ دونوں تو بہت اچھا کھیل رہی ہو، فٹ بھی ہو، کافی انرجی بھی ہے۔ سپورٹس کیوں نہیں کرتے ہو۔
‘انھیں بتایا کہ اب تک ایسا کوئی موقع نہیں ملا تو انھوں نے کہا کہ ابھی کچھ دونوں میں مقابلے شروع ہوں گے جس میں آپ کو شریک ہونا ہے۔’
ام کلثوم کہتی ہیں کہ میں ایک دن کلاس میں بیٹھی تھی کہ مجھے سپورٹس ٹیچر نے بلایا اور کہا کہ 14 اگست کے موقع پر ایتھیلیٹکس کے مقابلے ہو رہے ہیں اور اس میں آپ دونوں نے حصہ لینا ہے۔
’پہلے تو دل میں ذرا ڈر آیا، مگر پھر کہا کہ کوشش کرتی ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’مقابلے والے روز جب میں وہاں پہنچی تو دیکھا کہ لڑکیاں تو بہت تیار ہو کر ٹریک سوٹ وغیرہ میں آئی تھیں۔
’وہ سب کی سب ایتھیلٹس تھیں۔ میں نے سوچا بھاگو جتنا تیز بھاگ سکتی ہو، جب میں بھاگی تو میں نے پہلی پوزیش حاصل کی۔‘
ام کلثوم کا کہنا تھا کہ میری ٹیچر بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ آپ پہلے کہاں تھیں، ہم اب تک ٹورنامنٹ ہار رہے تھے اور اب جیتنے لگے ہیں۔
ام کلثوم کو پوزیشن لینے پر نہ صرف گولڈ میڈل ملا بلکہ دو سو روپے انعام بھی ملا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ میری زندگی کے وہ پیسے تھے جو مجھے اپنی محنت سے ملے تھے۔ مجھے ان پیسوں کی اتنی خوشی تھی کہ بتا نہیں سکتی۔ جب میں گھر گئی تو میں نے امی سے کہا کہ مجھے سپورٹس میں جانا ہے۔ ہماری امی خود چاہتی تھیں کہ ہم زندگی میں کچھ کریں۔‘
’امی ہمارے ساتھ گئیں، تمام کھیل اور ماحول دیکھا تو ہمارے لیے سب سے اچھا سکواش لگا کیونکہ یہ انڈور گیم ہے اور پھر ہمیں کہا کہ چلو بیٹا بسم اللہ کرو میں تمھارے ساتھ ہوں۔‘
’پہلا ریکٹ سر قمر الزمان نے دیا‘
انھوں نے یہ کھیل چن تو لیا لیکن اب مسئلہ وسائل کا تھا۔ ام کلثم کہتی ہیں کہ ٹینس اور سکواش مہنگے کھیل ہیں سکواش کے ایک پروفیشنل ریکٹ کی قیمت کم سے کم سات ہزار روپے ہے۔
جب انھوں نے کھیلنا شروع کیا تو نہ ان کے پاس جوتے تھے، نہ ریکٹ اور اس کے لیے انھیں وہاں موجود دیگر کھلاڑیوں سے مانگ کر کھیلنا پڑتا تھا۔
زہرا عبداللہ کا کہنا تھا کہ گھر کے حالات اور امی کی محنت ہم سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ ہم ان سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمارے پاس گیند، جوتے اور ریکٹ نہیں ہے۔’
اس کے بعد انھوں نے پشاور میں جو پہلا ٹورنامنٹ کھیلا اس میں انعامات جیتے۔ اس موقع پر ان کی ملاقات سکواش کے سابق عالمی چیمپیئن اور پاکستان سکواش فیڈریشن کے نائب صدر قمر الزمان سے ہوئی جو انھیں کھیلتا دیکھ رہے تھے۔ ان کی جانب سے دیے گئے ریکٹ ان بہنوں کے پہلے ریکٹ تھے۔
زہرا عبداللہ بتاتی ہیں کہ ’ہمیں جو ریکٹس سر قمر الزمان نے دیے تھے وہ ہم نے کچھ اور لڑکیوں کو دے دیے اور اب وہ لڑکیاں ان سے کھیل رہی ہیں جس کی ہمیں بہت خوشی ہے۔‘
ام کلثوم کا کہنا تھا کہ نیشنل چمپیئن شپ میں شرکت سے قبل میرا ریکٹ خراب ہو گیا تھا۔
‘پہلے بھی ریکٹ خراب ہوتے رہتے تھے تو ہم انھیں ٹانکا وغیرہ لگا کر استعمال کر لیتے تھے مگر اس دفعہ وہ اس طرح ٹوٹا کہ اب جڑ نہیں سکتا تھا اور فوری طورپر نیا ریکٹ خریدنے کی گنجائش نہیں ہے۔‘
‘اب مجبوری کے عالم میں کبھی بہن اور کبھی ساتھی کھلاڑیوں سے مانگ کر گزارہ کیا ہے اوراپنا ریکٹ نہ ہونے کی وجہ سے نیشنل چمپئیں شپ میں کارگردگی پر بھی اثر پڑا ہے۔
زہراعبداللہ کا کہنا تھا کہ اب ہم قومی سطح پر پروفیشنل کھیل رہی ہیں۔ مختلف شہروں کے دوروں کے موقع پر ہمیں کسی ہاسٹل میں رہائش کے لیے جگہ فراہم کی جاتی ہے باقی اخرجات فراہم نہیں کیے جاتے۔
انھوں نے کہا کہ مختلف ٹورنامنٹ میں حصہ لینے پر کچھ کیش انعام بھی مل جاتے ہیں مگر اس کے باوجود ابھی بھی ہماری مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں۔
‘کئی مرتبہ اخراجات کے پیسے نہ ہونے پر ہم نے کئی ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لیا۔’
گھر کے دروازے سے سکواش کورٹ تک
ام کلثوم کا کہنا تھا کہ سکواش کورٹ تک جانے کے لیے شروع میں امی نے ہمارے لیے ایک ٹیکسی کا انتظام کیا تھا۔
‘وہ ٹیکسی ہم ایک ماہ تک ہی استعمال کر سکے تھے کیونکہ اس کا ماہوار بل ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔’
انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد ہم دونوں بہنوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال شروع کر دیا مگر یہ سلسلہ بھی کچھ دن تک ہی جاری رہ سکا تھا۔
زہرا عبدللہ کا کہنا تھا کہ ہمیں گھر کے دروازے سے سکواش کورٹ تک مشکلات ہی مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم دونوں بہنیں اپنی حدود، ثقافت جانتی ہیں، ہمارے لیے خود اس کی بہت اہمیت ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ہمیشہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ہم دونوں بہنیں مکمل پردے میں ہوتی ہیں۔ کھیلتے ہوئے بھی ہمارا لباس مکمل اور سر مکمل سکارف سے ڈھانپا ہوتا ہے۔
‘مگر اس کے باوجود جب ہم اپنے سپورٹس بیگ اور ریکٹ لے کر گھر سے نکلتی ہیں تو لوگ ہمیں دیکھ کر عجیب طرح کے فقرے کستے تھے۔ کوئی کہتا کہ ثانیہ مرزا جا رہی ہے ۔۔۔ کوئی کہتا چلو مقابلہ کرتے ہیں ۔۔۔ کوئی کہتا ہمارے ساتھ بھی کھیلو۔‘
ام کلثوم کا کہنا تھا کہ جب ہم نے اپنی امی کو یہ بتایا تو انھوں نے کہا کہ ان باتوں سے ڈرتے نہیں ہیں اس کا کوئی حل نکالو تو پھر ہم نے اپنے ریکٹ وغیرہ سکواش کورٹ ہی میں رکھنا شروع کر دیے تھے۔
ام کلثوم بتاتی ہیں کہ ہمارا پردہ، سکارف کھیل کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ ہمارا فیصلہ ہے کہ کھیل میں ہم کتنا بھی اوپر چلے جائیں ہم اپنا پردہ، اپنی ثقافت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
’ہمیں دیکھ کر ہماری بہت سی دوستوں نے بھی کھیلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔‘
زہرا عبداللہ کا کہنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سکواش کورٹ جانا بذات خود ایک بہت بڑا امتحان ہوتا تھا۔
‘گھر سے پیدل سٹاپ تک کا سفر پھر سٹاپ پر بس کا انتظار کرنا، لوگوں کے طنزیہ جملے یہ سب تکلیف دہ اور وقت کا ضیاع بنتا جا رہا تھا۔ امی سے بات کی تو انھوں نے پھر کہا کہ حل بھی ہمیں خود ہی سوچنا ہو گا۔’
انھوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم بہنوں نے پشاور کے علاقے گلبہار سے سٹیڈم تک پیدل سفر کرنا شروع کر دیا۔
’گرمیاں ہوں، سردیاں ہوں یا رمضان کے روزے اب ہم پیدل آتے جاتے ہیں۔ اچھا ہی ہے کہ ہماری ورزش بھی ہو جاتی ہے اور ہم مسائل سے بھی بچ رہی ہیں۔‘
مکان کا کرایہ ادا کرنے کے لیے ٹیوشن
زہرا عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہم لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ اس مکان کا کرایہ کافی زیادہ ہے۔ جس کا حل یہ نکالا ہے کہ ہم مالک مکان کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں۔ جس وجہ سے وہ ہم سے کم کرایہ وصول کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جب مالک مکان کے بچوں کو سکول میں اچھے نتائج ملے تو کچھ اور والدین نے بھی ہم سے رجوع کیا ہے۔
’اس میں زیادہ تر غریب والدین کے بچے ہیں۔ ان سے ہم ٹیوشن فیس نہیں لیتے۔ باقی کچھ والدین ہمیں اپنی مرضی سے کچھ فیس دے دیتے ہیں جس سے زیادہ تو نہیں مگر کچھ نہ کچھ امی کی مدد ہو جاتی ہے۔‘
‘اب ہم مضبوط ہیں’
ام کلثوم نے بتایا کہ بچپن میں دونوں بہنیں نجی سکول میں پڑھتی تھیں جہاں اکثر پارٹیاں ہوتی تھیں اور ان کے ساتھی طالب علم وہاں خوب خرچ کرتے اور نئے کپڑے پہنتے مگر کمزور مالی حیثیت کی وجہ سے دونوں بہنیں ان پارٹیوں میں اکثر نہیں جاتیں اور اگر جانا پڑ جاتا تو ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس صورتحال کا سامنا آٹھویں کلاس تک رہا مگر جب کالج پہنچ کر سپورٹس میں حصہ لیا تو اس کے بعد ان میں بے انتہا خود اعتمادی پیدا ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سپورٹس نے ہمیں مضبوط بنایا اور اعتماد دیا ہے۔ اس میں ہماری امی کا سب سے بڑا کردار ہے جو انتھک محنت کر رہی ہیں۔‘