پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کو نیب نے نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس انکوائری میں گرفتار کر لیا ہے۔
نیب کے ترجمان کے مطابق احسن اقبال کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا اور ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے انھیں کل احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
اس گرفتاری پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’احسن اقبال کی گرفتاری حکومت اور نیب کا گھٹ جوڑ ہے۔‘
خیال رہے کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، حمزہ شہباز اور سعد رفیق نیب کی حراست میں ہیں۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ احسن اقبال نے نواز شریف کی قیادت میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
’احسن کا قصور صرف یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے نوجوانوں کو امید دی۔‘
مریم اورنگزیب نے دعویٰ کیا کہ نارووال سپورٹس سٹی پراجیکٹ کی توسیع پیپلز پارٹی کے دور میں کی گئی تھی جبکہ احسن اقبال نے تو صرف اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔
انھوں نے نیب کے چیئر مین سے سوال کیا کہ ’آپ کو پشاور میٹرو بس کے اربوں کے کھڈے نظر نہیں آتے؟‘
’احسن اقبال کی تین دن قبل بازو کی سرجری ہوئی تھی، اور آج انھوں نے احسن اقبال کو گرفتار کر لیا۔‘
نیب کے ترجمان کے مطابق احسن اقبال کے طبی معائنے کے لیے ڈاکٹرز کی ٹیم کو طلب کر لیا ہے۔
ایل این جی کیس میں مفتاح اسماعیل کی ضمانتمنظور
ادھر پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایل این جی کیس میں گرفتار رہنما مسلم لیگ ن مفتاح اسماعیل کو ضمانت منظور کر لی ہے۔
چیف جٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ایک کروڑ روپے کے مچلکوں کے عوض مفتاح اسماعیل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
پیر کو سماعت کے دوران عدالت نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ مفتاح اسماعیل کی حراست کے دوران تفتیش میں کیا پیش رفت ہوئی؟
جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ ’حراست کے دوران کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، صرف دستاویزات حاصل کیے گئے‘۔
عدالت نے جب نیب کے وکیل سے پوچھا کہ ’آپ ملزم کو جیل میں کیوں رکھنا چاہتے ہیں‘ تو انھوں نے کہا کہ ’مفتاح اسماعیل کے بیرون ملک فرار ہونے کا خدشہ ہے، گواہوں کو بھی دھمکی دی جا رہی تھی‘۔
اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ’جرم ثابت ہونے تک ملزم بے گناہ تصور ہوتا ہے، ہم مفتاح اسماعیل کو پابند کرتے ہیں کہ وہ رہائی کے بعد روزانہ تفتیشی کو فون کریں گے۔‘