دنیابھرسے

پہلی یوروپین اردو رائٹرس ایسوسی ایشن کا افتتاحی اجلاس اور کل یوروپین مشاعرہ

Share

پہلی بار یورپ میں سارے براعظم کے ادیبوں کی ایک یوروپین اردو رائٹرس ایسو سی ایشن قائم کی گئی ہے۔اس سے پہلے براعظم کے مختلف ممالک اور ان کے شہروں میں اردو کی انجمنیں تو تھیں لیکن پورے یورپ کے پیمانے پر اردو کی کوئی مشترکہ تنظیم نہیں تھی۔
اتوار ۴/ اکتوبر کو ایک افتتاحی آن لائن پروگرام میں ایسو سی ایشن کے صدر عارف نقوی (برلن) نے ایسو سی ایشن کے عہدیداروں کو متعارف کرایا اور اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ جس کے بعد بی بی سی لندن کے سینئیر براڈکاسٹر اور اردو کے مشہور کالم نویس، ادیب و صحافی محترم رضا علی عابدی کی صدارت میں ایک کُل یوروپین مشاعرہ کیا گیا جس کی نظامت خوبصورتی سے لندن کی اردو ادیبہ محترمہ نجمہ عثمان نے کی۔جس میں برطانیہ، جرمنی، سویڈن، فرانس وغیرہ کے چوٹی کے شعراء نے کلام پیش کئے۔

افتتاحی تقریب کا آغاز ایک جرمن فنکار سیباستیان درائیر کے ساز کی جھنکاروں سے کیا گیا۔ اس کے بعد اپنا استقبالیہ خطبہ پیش کرتے ہوئے یوروپین اردو ایسو سی ایشن کے صدر عارف نقوی نے، جو ساٹھ برس سے جرمنی میں مقیم ہیں اورہمبولٹ یونیورسٹی برلن کے لکچرر اور ریڈیو برلن انٹرنیشنل کے سینئیر مدیر رہ چکے ہیں اور شاعر، ادیب و صحافی ہیں نیز اردو انجمن برلن کے صدر، یوروپین لٹریری سرکل کے سرپرست اورانٹرنیشنل اردو ریسرچ اسکالر ایسوسی ایشن کے سرپرست ہیں، اپنا استقبالیہ خطبہ پیش کیا۔

بی بی سی لندن کے سابق براڈکاسٹر و ادیب جناب رضا علی عابدی، یوروپین لٹریری سرکل کی صدر ڈنمارک کی محترمہ صدف مرزا، جو اس وقت تک ٹکنیکی مشکلات کی وجہ سے شامل نہیں ہو پائی تھیں، برطانیہ کے مشور سینئیر شاعر باصر کاظمی۔ سویڈن کے مشہور شاعر محترم جمیل احسن، ہمبرگ، جرمنی کی روحانی شاعرہ طاہرہ رباب، برطانیہ کے مشہور شاعر یشب تمنّا، ارشد لطیف اور مشہور ادیب و شاعر نعیم پارکر، لندن کی مشہور شاعرہ اور مصنفہ محترمہ نجمہ عثمان، فرانکفورٹ، جرمنی کے محترم اقبال حیدر اور فرانس کی شاعرہ شاذ ملک صاحبہ اور دیگر مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے یوروپین اردو رائٹرس ایسو سی ایشن کے عہدیداران کا تعارف کرایا اور بتایا کہ ابھی آپ جس ستار کی جھنکارکو سن رہے تھے وہ میرے ایک بہترین طالبعلم سیباستیان درائر کی انگلیوں کا کرشمہ ہے، جو ہمبولٹ یونیورسٹی میں مجھ سے اردو پڑھنے کے لئے آیا تھا اور اتنا متاثر ہوا تھا کہ اس نے اردو کی ایک غزل بھی کہی تھی۔ سیباستیان اب خود جرمنی کے تاریخی شہر پوٹسڈم میں لوگوں کو ستار سکھاتا ہے۔ یہ موسیقی اس نے آپ کے استقبال کے لئے پیش کی ہے۔جس کے لئے ہم اس کے شکر گزار ہیں۔

بی بی سی کے سینئیر اردو براڈکاسٹڑ رضا علی عابدی کا استقبال کرتے ہوئے عارف نقوی نے کہا کہ ”ہمیں خوشی بلکہ فخر ہے کہ کہ یورپ کی ایک بہت بڑی اور مستند اردو شخصیت بی بی سی کے سرکردہ براڈکاسٹرمحترم رضا علی عابدی، جن کا احترام صرف ہم اور آپ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے اردو داں حلقوں میں ہوتا ہے۔ لوگ آج بھی ان کے ریڈیو پر پروگراموں، نشریوں، کالموں اور کتابوں، سفرناموں کو شوق سے پڑھتے، سر دھنتے اور اور معلومات کے خزانوں میں ہیروں اور ان کے ساتھ زندگی کی حقیقتوں کو تلاش کرتے ہیں۔ نیز اردو ادب خصوصاً شاعری پر جن کی رائے مستند سمجھی جاتی ہے، ہماری بزم مشاعرہ کی صدارت فرما رہے ہیں۔

اپنے استقبالیہ خطبے میں عارف نقوی نے کہا: ”یہ تنظیم ’یوروپین اردو رائٹرس ایسو سی ایشن‘ ہم نے صرف اس لئے قائم کی ہے کہ ہم اس کے ذریعے یورپ میں اردو کے فروغ کے لئے باقاعدہ جٹ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یورپ کے مختلف ممالک میں برصغیر کی ثقافت سے متعلق نیز اردو کی لاتعداد تنظیمیں ہیں، جو دل و جان سے اپنی زبان و ادب کی خدمت کر رہی ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک ہی ملک بلکہ ایک ہی شہر میں کئی کئی ایسے گروپ، انجمنیں اور حلقے ہیں۔ جو اپنے اپنے مقام پر زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم ان سب کی قدر کرتے ہیں۔ میں اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ہوں۔ شاید اس سے کچھ فائدہ ہی ہے۔ کیونکہ ایک فرد یا ایک گروپ اکیلا سب کام نہیں کر سکتا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ سب ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ کے پیمانے پر ابھی تک خالص اردو کے نام سے کوئی ایسی تنظیم نہیں تھی، جو پوری طرح سے اپنی کاوشوں کو صرف اور صرف ا ردو کے فروغ کے لئے لگائے۔ چنانچہ ہم نے نہ صرف یہ تنظیم قائم کی ہے بلکہ جہاں تک ہو سکے گا آپ سب اور یورپ کے سبھی اردو کے شیدائیوں سے مشورہ کر کے جو جو امکانات اور وسائل ممکن ہیں ان سے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے
کو ششیں کریں گے۔چاہے وہ سیمینار اور مشاعرے ہوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں اور پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ میں اردو کی تعلیم کے لئے کوششیں ہوں، اردو ادب کا یوروپین زبانوں میں ترجمہ یا یوروپین ادب کا اردو میں ترجمہ ہو۔ یورپ میں مقیم اردو کے چھوٹے بڑے ادیبوں، خاص طور سے نئے ادیبوں کی تخلیقات کی برصغیر میں اشاعت ہو، یورپ کے نوجوانوں میں اردو کے لئے دلچسپی پیدا کرنے کے طریقے ہوں۔ ان سب کے بارے میں ہم سنجیدگی سے غور کریں گے اور اپنے کاموں کا ایک خاکہ بلکہ منصوبہ اور لائحہ عمل تیار کریں گے۔
اور یورپ کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کریں گے اور اپنے ساتھیوں سے اور آپ سب سے مشورہ کرکے انشاء للہ اگلے سال تک ایک کانفرنس کا انعقاد کریں گے تاکہ اس مقصد سے ٹھوس مہم شروع کر سکیں۔

ہم اپنی اس مہم میں ان سبھی لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، جنہیں اردو زبان و ادب سے پیار ہے۔چاہے ان کی قومیت، مذہب اور مسلک کوئی بھی ہو۔ ہماری ایسو سی ایشن کا سیاست، مذہب، قومیت، یا تجارتی مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ہماری کسوٹی صرف اردو زبان و ادب اور اس میں انسانیت، شرافت، ا من و انصاف اور بھائی چارے کے اقدار کا احترام ہے۔
خواتین و حضرات ہو سکتا ہے کہ کسی کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو میری کوئی بات ناپسند ہو یا مجھے کسی کی کوئی بات ناپسند ہو۔ لیکن یہ ہماری اپنی ذاتی پسند یا نا پسند ہوتی ہے۔ اس سے ہماری زبان و ادب کو نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ ویسے یہ سب ہیں بھی فطری باتیں۔ دیکھئے انسان کوئی فرشتہ نہیں ہوتا۔ وہ چاہے جتنا بڑا ادیب یا دانشور ہو جائے رہتا تو انسان ہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میری کوئی نظم یا افسانہ آپ کو پسند نہ آئے اور آپ اعتراض کر دیں اور میرا رد عمل منفی ہوجائے، جو نہیں ہونا چاہئیے۔ تو یہ تو فطری باتیں ہیں۔ میں تو اسے اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا کہ اس طرح مجھے اپنی اصلاح کا موقع مل گیا۔ ذرا سوچئے غالب اور ذوق میں کتنا اختلاف تھا۔ لیکن دونوں کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے۔

ابھی میں کل صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی کلکتہ اور ظفر گورکھپوری لٹریری اکیڈیمی بمبئی کے ایک خاص پروگرام میں جو مشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی کی ۵۸ ویں سالگرہ کے سلسے میں تھا، بحیثیت مہمان موجود تھا۔ جس میں ہمارے ساتھی فہیم اختر ان سے سوالات کر رہے تھے۔ فاروقی صاحب ترقی پسند ادیبوں کی تحریک کے سخت مخالف ہیں۔ لیکن وہ ترقی پسند تحریک کے ایک بڑے شاعر سردار جعفری کی علمی عظمت کی تعریف کر رہے تھے،یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ وہ جعفری سے نظریاتی طور پر متفق نہیں ہیں۔ اور اس وقت میری نظر میں فاروقی صاحب کا درجہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔

بہر حال ہم سمجھتے ہیں کہ سبھی اپنے اپنے مقام پر کچھ نہ کچھ کاوشیں کر رہے ہیں۔ ہمارا کام سب سے رابطہ قائم کرنا ہوگا۔اس میں ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ جب آپ جیسے مخلص دوست موجود ہیں جو صرف شاباشی دینا ہی نہیں بلکہ غلطیوں کی طرف اشارہ کرنا اور سچے مشورے دینے کے لئے تیار ہیں۔تو ہم اپنی منزل کی طرف گامزن رہیں گے اوراسے پا سکیں گے۔

میں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان میں یقین کا عنصر اس لئے ہے کہ میرے ساتھ اس کام میں ایسی شخصیتیں شامل ہیں جنھیں میں نعمت سمجھتا ہوں۔ مثلاً ہماری یوروپین اردو رائڑس ایسو سی ایشن کے نائب صدر محترم پروفیسر اسلم سید، جن کا تعلق اسلام آباد سے رہا ہے اور اسلام آباد کی قائد اعطم یونیورسٹی نیز امریکہ، جرمنی، فرانس اور کئی دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں تاریخ اور فلسفے کے استاد رہ چکے ہیں اور ادب، لسانیات اور خاص طور سے اردو، فارسی اور انگریزی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ برلن میں اردو انجمن کے چند یادگارپروگراموں میں بھی انہوں نے اپنے علم و آگہی سے فیضیاب ہونے کا موقع دیا ہے۔ اس وقت وہ بون میں ”رھائن انڈس ادبی فورم“ Rhein -Sindh Literary Forumکے صدر ہیں۔

ہماری ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری محترم فہیم اختر صاحب، جو ایک بہترین اردو کالم نگار، افسانہ نگار، شاعر اور سوشل ورکر ہیں۔ صوفی جمیل لٹریری سوسائٹی کلکتّہ کے سرپرست ہیں اور لاتعداد عالمی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ عربی زبان میں بھی شائع ہو چکا ہے۔
جوائنٹ سکریٹری محترمہ کشور مصطفی، جو ایک اردو صحافی ہیں۔ اور درس و تدریس سے بھی منسلک رہی ہیں۔ جرمن براڈکاسٹنگ اسٹیشن ڈائچے ویلے کی سینئیر مدیر ہیں، ابھی پچھلے سال تک اس کے شعبہ ء اردو کی صدر تھیں۔ اس سے قبل یہ برلن میں اردو انجمن کی پہلی جنرل سکریٹری تھیں اور ساتھ ہی ایک فلاحی تنظیم ’جوہر چیری ٹیبل سوئٹی‘کی جنرل سکریٹری اوربرلن کی کیرم ایسو سی ایشن کی جنرل سکریٹری تھیں۔ اب Rhein-Indus Literary Forumرھائن۔انڈس فورم بون کی جنرل سکریٹری ہیں۔ اور خازن محترمہ شاذ ملک، جو فرانس میں اردو کی شاعرہ، اور افسانہ نگار ہیں اور کئی کتابیں لکھ چکی ہیں اور اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہیں۔

اس کے بعد یوروپین اردو رائٹرس ایسو سی ایشن کے عہدیداران نائب صدر محترم پروفیسر اسلم سید (جرمنی)، جنرل سکریٹری محترم فہیم اختر (لندن)، جوائنٹ سکریٹری محترمہ کشور مصطفی (جرمنی)اور خازن محترمہ شاذ ملک (فرانس)نے اپنے بارے میں بتایا اور خیالات پیش کئے۔

افتتاحی دور کے بعد کل یوروپین مشاعرہ کا آغاز ہوا جس کی صدارت محترم رضا علی عابدی نے فرمائی اور نظامت لندن سے محترمہ نجمہ عثمان نے کی۔جو ایک بہترین شاعرہ ہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔جیسے ’شاخِ حنا‘، ۹۸۹۱ء’کڑے موسموں کی زد پر‘ ۹۹۹۱ء، ’خیال کی خوشبو‘ ۔

مشاعرہ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یورپ کے سبھی سینئیر شعراء شریک تھے۔ مثلاً باصر کاظمی، عارف نقوی، جمیل احسن۔ طاہرہ رباب، یشب تمنّا، نجمہ عثمان، ارشد لطیف، نعیم پارکر، اقبال حیدر، شاذ ملک اور یہ خالص یوروپین مشاعرہ تھا۔ جس میں ہر شاعر کے لئے دو غزلوں یا نظموں کی قید تھی۔ جس کا سب شعراء نے خیال رکھا۔ اور بہت ہی معیاری کلام سنایا۔

پروگرام تین گھنٹے تک زور شور سے جاری رہا جسے فیس بُک اور یو ٹیوب پر بھی لائف دکھایا جا رہا تھا۔