باکو کی تیز ہوا میں اڑتے ہوئے اس روز ہمیں بہت کچھ دیکھنا تھا۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل پہنچتے، سامان سنبھالتے اور وہ انتظامات کرتے جس کے لیے یہاں آنا ہوا تھا، چند گھنٹے گزر گئے تو سوچا کہ اب کچھ شکم پروری بھی ہونی چاہیے۔
ہم دراصل پاکستان کے اس وقت کے صدر ممنون حسین کے وفد کے ہمراہ آذربائیجان کے دورے پر آئے تھے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرتے ہوئے ثقافتی، تجارتی و عسکری تعاون کو فروغ دینا تھا۔
’چلیے، نیچے ظفرانو ریسٹورنٹ چلتے ہیں‘۔ آپا نے فیصلہ سنایا تو حسن نے بھی سر تسلیم خم کر دیا۔
اب ہو تو کچھ نہیں سکتا تھا لیکن قسمت آزمانے میں کوئی حرج بھی نہیں تھا، اس لیے کہا کہ کچھ عرض کروں؟ ‘ہاں، ہاں کہو لیکن مروا نہ دینا۔‘ آپا نے اظہار رائے کی آزادی دینے کے باوجود ایک پتا اپنے ہاتھ میں بھی رکھا۔
عرض کیا کہ آپ اسلام آباد کے سرینا میں دو چار لقمے لگائیں یا یہاں ظفرانو میں لطف اٹھائیں، کوئی فرق پڑتا ہے؟ ‘نہیں، نہیں کوئی نہیں، بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
حسن نے حسب عادت نہایت سادگی کے ساتھ اپنی موجودگی کا ثبوت دیا تو آپا مسکرا دیں لیکن ان کی مسکراہٹ میں اس سادہ لوح کے لیے چھوٹی سی، غیر اعلانیہ سی ایک تنبیہ بھی تھی کہ یوں بنا سوچے سمجھے نہ بول پڑا کرو، مسکراتی ہوئی آپا کا چہرہ پرکار کی طرح گھوم کر میرے رو برو ہوا تو مجھ سے مخاطب ہوئیں اور پوچھا کہ کہنا چاہتے ہو؟
میں یہ چاہتا ہوں کہ یہاں سے نکلیں، اس شہر کے گلی کوچوں میں مٹر گشت کریں، چلتے چلتے ہمت جواب دینے لگے تو اس شہر کی ماسی برکتے کو تلاش کر کے اس کے تندور کی روٹیوں کا لطف اٹھائیں۔ آپا ذرا کھل کر مسکرا دیں لیکن اس کے ساتھ ہی خبردار بھی کر دیا کہ اگر ہر صبح اٹھ کر تم نے ایسی ہی بات کہی تو پھر تمھاری خیر نہیں۔
اس شہرمیں عمارتوں کی کرسی اتنی اونچی ہے کہ نیچے اترتے اترتے انسان دو تین افراد سے اچھی خاصی گپ شپ لگا لیتا ہے۔
ہم ابھی سیڑھیوں پر ہی تھے کہ جگنو شاہ سے ملاقات ہو گئی۔ ہمارا ارادہ جان کر کہنے لگے کہ ’جاؤ جاؤ، ضرور جاؤ، اس شہر کی محبت کا لطف اٹھاؤ لیکن بند منھ کے ساتھ۔‘
اس سخن میں رمز یہ تھی کہ آذربائیجان والے بھی ترکوں کی طرح انگریزی وغیرہ کو گھاس نہیں ڈالتے، اس لیے ان لوگوں سے بات چیت مشکل ہو جاتی ہے۔ ‘دیکھی جائے گی’ کہہ کر یہ مسافر سیڑھیاں اتر گئے۔
اپریل کی شامیں ہمارے ہاں کچھ ایسی خوش گوار نہیں ہوتیں لیکن باکو میں بحرِ گیلان سے اٹھنے والے ہوا کے تیز جھونکوں میں خنکی اتنی شدید ہوتی ہے کہ مسافر تو مسافر مقامیوں کے دانت بھی بج اٹھتے ہیں۔
شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ آوارہ گردی کے لیے نکلے ہوئے مسافروں کو کاروباری دفاتر کی اونچی عمارتوں کی طویل قطار میں بھی گوہر مقصود دکھائی دے گیا۔
ہمارے ہاں جیسے عدالتوں کے دروازوں پر دیوار سے راہداری میں دونوں طرف سے دکھائی دینے والی عنابی رنگ کی تختی پر ججوں کے نام لکھے ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح کریمی رنگ کی زمین پر سیاہ حروف میں انگریزی حروف تہجی میں ’کیفے ٹیریا‘ لکھا تھا۔
منزلِ مقصود کو یوں سامنے دیکھ کر سیڑھیوں کا رخ کر لیا گیا۔ کیفے ٹیریا زیر زمین تو نہیں تھا لیکن برسر زمین بھی نہیں تھا، ہمارے ہاں کی نیم چھتی کی طرح یہ نیم تہہ خانہ تھا، چند سیڑھیاں اترنے کے بعد جو آ جاتا تھا۔
کاؤنٹر بالکل سامنے تھا جس کے پیچھے کڑبڑی مونچھوں والا ایک شخص کھڑا تھا۔ گھنی مونچھوں تلے سے ایک جملہ برآمد ہوا،’xos gelmisiniz‘ کچھ سمجھ میں نہ آیا، حسن کہنے لگے کہ جگنو غلط نہ کہتے تھے۔
لگتا ہے کہ مونچھوں والا سمجھ گیا کہ یہ لوگ کچھ نہیں سمجھے، شاید اسی لیے طبیعت پر جبر کر کے اس نے ’ویل کم‘ کہنے میں کوئی حرج محسوس نہ کیا۔
جگنو شاہ کی اطلاع کے عین مطابق کیفے ٹیریا والے سے بات چیت مشکل ہو گئی، نہ یہ سمجھنا آسان تھا کہ وہ ہمیں پیش کیا کر سکتا ہے اور نہ یہ بتانا ممکن تھا کہ ہمیں درکار کیا ہے۔ اس تفہیم کے لیے پہلے وہ ہمیں کچن میں لے گیا، اور بعد کیفے ٹریا کے سٹور میں۔
اپنے دیس کے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں رینگنے والے لال بیگ کی خبروں کے عادی مسافروں کے جی یہاں سگھڑاپے سے رکھے گئے نمک تیل کو دیکھ کر دل حسرت سے بھر گئے کہ کیا ایسے صاف ستھرے ہوٹل اور ڈھابے اپنے دیس کی گلی کوچوں میں بھی کبھی دکھائی دے پائیں گے؟
اُس شام اِس ریستوران کے ہم شاید پہلے مہمان تھے، ہمارے بعد تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ آنے والا سیڑھیاں اترتا، کاؤنٹر والے کے پاس پہنچ کر کچھ کھسر پھسر کرتا پھر ہمارے آگے پیچھے نشستوں پر آکر بیٹھ جاتا۔
کھانا کھاتے ہوئے جانے کیا وجہ رہی ہو گی کہ میری نگاہ کاؤنٹر کی طرف اُٹھ گئی، عین اسی وقت کوئی شخص اندر داخل ہوا تھا جسے کاؤنٹر والا ہماری طرف اشارہ کر کے کچھ بتا رہا تھا، انداز ایسا ہی تھا جیسے سکول کے بچے کلاس میں داخل ہونے والے کسی نئے بچے کے بارے میں اپنے ہم جولی کو تجسس اور اشتیاق کے ساتھ شریک راز کرتے ہیں۔
میں نے اس کے ہونٹوں پر نگاہ جما دی، اس کے لبوں کی حرکت نے اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ مجھ تک پہنچائے اور میرا دل خوشی سے بھر گیا، اس نے پہلے اپنے کوٹ کے کالر کے عین اس مقام پر ہاتھ رکھا جہاں ہمارے کوٹوں پر پاکستانی پرچم لگے تھے، پھر ہماری طرف اشارہ کر کے کہا: ’پاکستان، پاکستان۔‘
نووارد نے پُراشتیاق نظروں سے ہماری طرف دیکھا پھر خاموشی کے ساتھ اس نے اپنی کرسی سنبھال لی۔ کھانا کھا کر ہم اٹھنے کو ہی تھے کہ نسبتاً ایک بزرگ سا شخص ہماری طرف بڑھا اور کرسیوں کی پچھلی قطار سے ایک کرسی گھسیٹ کر ہماری میز کے قریب کرتے ہوئے اشارہ کیا، جیسے پوچھنا چاہتا ہو کہ میں یہاں بیٹھ جاؤں؟
مسافروں کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا، ایک شاندار ہوٹل کے اطالوی ریسٹوران کے کھانے پر انھوں نے اس غریبانہ ٹھیئے کو ترجیح دی ہی اسی لیے تھی۔ کاؤنٹر والے کی طرح اس آذری کی مونچھیں بھی گھنی اور سر ٹوپی سے ڈھکا ہوا تھا۔ بیٹھنے کے بعد اس نے نہایت شیریں لہجے میں کہا، پاکستان، اس کے انداز میں اشتیاق، خوشی اور گرم جوشی تھی، ’پاکستان۔‘ اس نے اپنے الفاظ ایک بار پھر دہرائے اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’علی۔۔۔۔ علی خان۔‘
’خوش آمدید، علی خان۔‘ حسن نے اور میں نے مصافحے کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ مصافحے کے دوران ہی چند مزید آذری اپنی نشستوں سے اٹھ آئے اور ہمارے دائیں بائیں آ کھڑے ہوئے، گویا وہ سب اس انتظارمیں تھے کہ جیسے ہی موقع ملے، مسافرو ں سے مکالمے کا کچھ سلسلہ آگے بڑھے۔
مصافحوں کا سلسلہ تھما تو بوڑھے کی کرسی کے پیچھے کھڑے ایک نوجوان نے اپنے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیوں کے ہک بنا کر انھیں ایک دوسرے میں پھنسایا اور کہا، آذر بائیجان، پاکستان، ہم مسکرا دیے اور اٹھ کر اس کے ساتھ ایک بار پھر مصافحہ کیا۔
بیٹھتے بیٹھتے میری نگاہیں اس سے چار ہوئیں۔ وہ اس وقت مٹکتے ہوئے گانے کی تیاری کر رہا تھا: ’دل دل پاکستان، جان جان پاکستان۔’ جیسے ہی اس نے انترا اٹھایا، ہم نے تالی بجا دی، اس کے بعد ایخان کا کیفے ٹیریا ترانے کے بول اور تالیوں سے گونج اٹھا۔
محفل برخاست ہوئی اور جانے سے قبل پیسوں کی ادائیگی کے لیے ہم کاؤنٹر پر پہنچے تو ایخان کوئی بات سننے کے موڈ میں نہ تھا، وہ چاہتا تھا کہ پاکستانی مہمان اسے اپنا میزبان اور بھائی سمجھیں، ادائیگی پر اصرار کر کے اس کا دل نہ توڑیں، اس مرحلے پر علی خان کی مداخلت کام آئی اور اس نے ’نشان، نشان‘ کہہ کر ٹوکن کے طور پر کچھ رقم لینے پر اسے آمادہ کر دیا۔
سیڑھیاں چڑھ کر ہم اوپر پہنچے تو دل دل پاکستان والا نوجوان اور چند دوسرے لوگ بھی اس کے دائیں بائیں کھڑے تھے، الوداعی ہاتھ اٹھا کر ہم اپنی راہ پر آگے بڑھے تو پیچھے سے پاکستان کے اس مقبول قومی نغمے کے بول ہمارے کانوں تک پہنچ رہے تھے۔
کیا یہ محض ایک خوش گوار اتفاق تھا یا اس ملک میں پاکستان کے لیے محبت ایسی ہی ہے؟ مسافروں نے سوچا۔ سربراہان حکومت کے سرکاری دوروں کے لیے وزارت خارجہ میں جو بریف تیار کیے جاتے ہیں اور بات چیت کے لیے نکات بنائے جاتے ہیں، ان میں دونوں ملکوں کی تاریخ، ثقافتی مشترکات اور دوطرفہ و بین الاقوامی سطح پر مختلف مواقع پر ایک دوسرے کی تائید و حمایت کی باتوں کا ذکر ہوتا ہے جنھیں ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر دہرایا بھی جاتا ہے لیکن اکثر ان باتوں کی حیثیت رسمی ہوتی ہے۔
سنہ 2014 میں صدر ممنون حسین کے اس دورہ آذربائیجان کی دستاویزات میں بھی یہی کچھ لکھا تھا لیکن آذریوں کے اس مختصر سے گروہ سے ملاقات نے صورت حال بدل ڈالی تھی، مایا سے ملاقات کے بعد اس میں پختگی پیدا ہو گئی۔
مایا باکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں ماسٹرز کی طالب علم تھی جس سے ہماری ملاقات ایک ریسٹوران میں ہوئی۔ اس سے سلام دعا کا بہانا تو مینیو منتخب کرنے کے سلسلے میں اس کے تعاون نے پیدا کیا، اس کے بعد دوستی ہو گئی۔ ’مایا، ایک بات بتاؤ، پاکستان کے بارے میں آپ لوگ کیا جانتے ہو۔‘
گاڑھی اور تلخ کافی کی چسکی لیتے ہوئے میں نے اس سے سوال کیا۔ سوال سن کر وہ مسکرائی اور کہا، میں جواب دوں یا آپ یہاں موجود کسی دوسرے آذری سے اس کے بارے میں جاننا چاہیں گے؟ ’جیسے تم چاہو۔‘ میں نے فیصلہ اس پر چھوڑ دیا تو وہ اٹھی اور اس نے برابر میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو اپنے قریب آنے کی دعوت دی۔
وہ صاحب جھجھکتے ہوئے ہمارے پاس اٹھ آئے تو مایا نے انھیں کچھ سوچنے کا موقع دیے بغیر کہا کہ ان لوگوں کو پاکستان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ ان صاحب نے حیرت کے ساتھ یہ سوال سنا جیسے اس فرمائش کا سبب سمجھنے سے وہ قاصر رہے ہوں۔ ’جناب، یہ غیر ملکی ہیں، بات چیت کے دوران انھوں نے پاکستان کے بارے میں مجھ سے سوال کیا تو میں نے مناسب سمجھا کہ وہ بات انھیں بتائی جائے جو ہمارے دلوں میں ہے، اسی لیے میں نے آپ کو زحمت دی ہے۔‘
وہ صاحب کہنے لگے کہ پاکستان ہو یا آذر بائیجان، مجھے تو ان دونوں ملکوں میں کوئی فرق لگتا نہیں۔ کیوں آپ کبھی پاکستان گئے ہیں؟ میں نے پوچھا، ’نہیں میں کبھی پاکستان تو گیا نہیں‘ انھوں نے وضاحت کی اور بتایا کہ ہر آذری یہ جانتا ہے کہ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے آزاد آذربائیجان کو تسلیم کیا تھا۔
پہلا یا دوسرا؟ میرے اس سوال پر کہنے لگے کہ چند دقیقوں یعنی منٹوں سے کیا فرق پڑتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ترکی ہو یا پاکستان، ان دونوں ملکوں نے ایک ہی وقت میں ہماری آزادی کو تسلیم کر کے ہمیں اقوام عالم میں عزت کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع فراہم کیا۔
یہ صاحب ٹیلی ویژن اور فلم کے اداکار تھے، تادیر ان کے ساتھ گپ شپ رہی۔ وہ چاہتے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی روابط کو بامعنی انداز میں مستحکم کیا جائے۔
موسیقی کی تاریخ اور اس کے مختلف اسالیب پر ان کی نگاہ بہت گہری تھی، انھوں بتایا کہ آپ اس خطے اور مسلم برصغیر کی موسیقی کو کھنگالتے چلے جائیں، اس کی بنیادیں یکجا ہوتی چلی جائیں گی۔
اس تاثر کی تصدیق تو اسی شب ہو گئی جب رات کمرے میں پہنچ کر میں نے ٹیلی ویژن لگایا تواس میں بھی ہمارے کلاسیکی گلوکاروں کی طرح آلتی پالتی مارے ایک بزرگ کچھ ایسی ہی راگنیاں گا رہے تھے جو زبان اور انداز میں آذری ہونے کے باوجود اجنبی محسوس نہ ہوئیں۔
رات بھیگنے لگی تھی جب ہم یہاں سے اٹھے، الوداعی مصافحے کے بعد رخصت ہوتے ہوئے وہ کہنے لگے، ہمیں صرف عقیدے کے علاوہ لسانی، ثقافتی اور نسلی رشتوں نے ہی آپس میں باندھ نہیں رکھا بلکہ دونوں قومیں درد کے ایک ایسے رشتے میں بھی باہم منسلک ہیں جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔
حیرت سے میں نے ان کی طرف دیکھا تو کسی قدر دکھ کے ساتھ انھوں نے کہا، ناگورنو قرہباخ کا دکھ ہماری جان کے ساتھ لگا ہوا ہے، پاکستان نے اس مسئلے پر ہمارا ساتھ ہمیشہ یوں دیا جیسے یہ کشمیر کا معاملہ ہو، کبھی نہ بھولیں، کشمیری مسلمانوں کے ساتھ مظالم پر ہماری بھی روح تڑپ اٹھتی ہے۔
وہ درست کہتے تھے، یہ آزادی کے تھوڑے ہی عرصے بعد کی بات ہے، آرمینیا نے آذربائیجان کے ایک شہر کھوجلے پر حملہ کر کے 161 نہتے شہریوں کا قتل عام کر دیا۔ آذربائیجان نے اس ظلم کو قتل عام اور نسل کشی قرار دے کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، اس نازک مرحلے پر پاکستان ان ابتدائی ملکوں میں بھی نمایاں ترین تھا جنھوں نے اپنے اس دوست ملک کا ساتھ دیا۔
اسی طرح سنہ 1993 میں پاکستان کی زیر صدارت سلامتی کونسل کے اجلاس میں ناگورنو قرہباخ کو آذربائیجان کا حصہ قرار دینے کی قرار داد منظور ہوئی، آذربائیجان سمجھتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے ادارے میں اسے یہ کامیابی پاکستان کی حمایت کے بغیر نہیں مل سکتی تھی۔
پاکستان کی طرح آذربائیجان بھی کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیتا ہے اور دنیا کے ہر فورم پر اس سلسلے میں پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون موجود ہے جب کہ 2014 میں عسکری تعاون کے ورکنگ گروپ نے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت آذربائیجان اور پاکستان کے عسکری تعاون کو وسعت دی گئی۔
آذری فوج ایک زمانے میں پاکستان میں تربیت حاصل کرتے تھے، اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ شعبوں میں دفاعی پیداوار کے سلسلے میں بھی تعاون کے امکانات موجود ہیں۔
سنہ 2016 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور صدر الہام علی ایو کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کے انعقاد اور جے ایف تھنڈر کی فروخت کے سلسلے میں بھی بات چیت ہوئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون کا یہ سلسلہ فروغ پذیر ہے۔
تجارت کے فروغ کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے خصوصی ورکنگ گروپ کام کرر ہے ہیں جن کے اجلاس وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں۔
سنہ 2018 میں دونوں ملکوں کی باہمی تجارت ماضی کے مقابلے میں بڑھ کر سات عشاریہ تین ملین ڈالر تک پہنچ چکی تھی جس میں اضافے کے امکانات موجود ہیں۔
پاکستان آذربئیجان سے پیٹرولیم مصنوعات کا خریدار ہے جب کہ آذربائیجان پاکستان سے کھیلوں کا سامان، فارما سیوٹیکل، چمڑے کی مصنوعات سمیت کافی مصنوعات کا خریدار ہے۔
مایا کے توسط سے جس اداکار سے ملاقات ہوئی، اس نے ہمیں خوش گوار حیرت میں مبتلا کر دیا، شوبز انڈسٹری کے لوگ عام طور پر اتنے سنجیدہ معاملوں میں نہیں پڑتے، مایا نے بھی ہمارے تاثر کی تصدیق کی اور کہا کہ آپ درست کہتے ہیں لیکن اس عمومی رویے کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا۔
اگلے روز زگبولا یعنی صدارتی محل میں مذاکرات کے دوران صدر الہام علی ایو کا لب ولہجہ بھی اس اداکار اور طالبہ مایا کے جذبات سے مختلف نہیں تھا۔ یہ مذاکرت کئی اعتبار سے یاد گار تھے۔
پاکستان اس ملک کے ساتھ تجارت کرنے والے پاکستانی شہریوں کے لیے نیشنل بینک کی شاخ کھولنے میں دلچسپی رکھا تھا لیکن بینک وہاں کے قوانین کے مطابق اتنا درکار سرمایہ وہاں نہیں رکھ سکتا تھا جس پر آذربائیجان کے صدر الہام نے پاکستان کے لیے ایسی تمام شرائط ختم کر دیں۔
اسی طرح اور بھی کئی یاد گار فیصلے ہوئے جن میں دونوں ممالک کے درمیان فضائی سروس کی بحالی بھی شامل تھی جو بعد میں ٹرکش ایئر لائن کے تعاون سے یقینی بنائی جا سکی۔ دونوں ملک بامعنی دفاعی تعاون میں مزید اضافے پر بھی یک سو تھے جب کہ آذر بائیجان نے تیل اور گیس کی تلاش کے سلسلے میں پاکستان کو اپنے غیر معمولی تجربے سے استفادے کی پیشکش کی جسے خوشی سے قبول کر لیا گیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا یہ ایسا شعبہ ہے جو پاکستان کی قسمت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کے اس وقت کے صدر ممنون حسین اور آذربائیجان کے صدر الہام کے درمیان اس موضوع پر تفصیلی بات چیت رہی، توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ برسوں میں اس شعبے میں کوئی بڑی پیش رفت ہو سکے گی۔
دونوں سربراہان مملکت اور ان کے وفود کے درمیان مذاکرات کے بعد کھانے کی میز سجائی گئی۔ ضیافت میں ان گنت رنگ برنگے پکوانوں کے علاوہ پلاؤ بھی شامل تھا، پلاؤ میں سنہرے سکوں جیسی کوئی ایسی چیز چمک رہی تھی جس کے ذائقے نے دیگر نعمتوں کو پیچھے چھوڑ دیا، یہ اشرفیاں تھیں، بزرگ بتایا کرتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب اشرفیاں ہمارے پلاؤ کی رونق بھی بڑھایا کرتی تھیں۔
(مصنف سنہ 2014 میں پاکستان کے صدر ممنون حسین کے دورہ آذربائیجان کے موقع پر ان کے میڈیا کنسلٹنٹ کی حیثیت سے وفد کا حصہ تھے۔)
بشکریہ بی بی سی اُردو