ترکی کے نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود فرانس اور یونان جیسے نیٹو کے دوسرے رکن ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ کیوں ہیں؟ اور آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری جنگ میں ترکی آذربائیجان کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟
ترکی کے وزیر خارجہ میولت تیووسوگلو نے 6 اکتوبر کو آذربائیجان کے دورے کے دوران صدر الہام علیئیف سے ملاقات کی اور متنازع خطے ناگورنو قرہباخ پر آرمینیا کے خلاف جاری جنگ میں آذربائیجان کی حمایت کرنے کا اعلان کیا۔
انھوں نے کہا ‘آذربائیجان نے اعلان کیا ہے کہ وہ آرمینیا کی اشتعال انگیزی کا جواب نہیں دے گا اور وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے دفاع کے لیے اپنے اختیار کو استعمال کرے گا اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں’۔
ادھر نیٹو کے سیکریٹری جنرل یین اسٹولٹن برگ ترکی اور یونان کے دو روزہ دورے پر انقرہ پہنچے اور انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کی جس کے بعد سیکرٹری جنرل نے نیٹو کے متعدد بین الاقوامی مشنوں میں ترکی کے تعاون کی تعریف کی۔
ان کے اس دورے کا مقصد نیٹو کے ترکی کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ سیکرٹری جنرل کے دورے سے پہلے نیٹو نے ترکی اور یونان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہاٹ لائن قائم کرنے میں مدد کی ہے۔
کیا ترکی نیٹو کے کاندھوں پر بوجھ بن رہا ہے؟
اگرچہ ترکی 1952 سے ہی نیٹو کا رکن رہا ہے لیکن حال ہی میں نیٹو کے خلاف اس کا جارحانہ موقف دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیا ترکی ،ماہرین کے مطابق، نیٹو کے لیے گلے کا پھندہ بن گیا ہے؟
امریکہ میں سان ڈیاگو یونیورسٹی کے پروفیسر احمد کرو نے ای میل سے بھیجے گئے سوالوں کے جواب میں کہا ‘میں یہ کہوں گا کہ ہاں ایک بوجھ بن گیا ہے لیکن ترکی کہنے کے بجائے اردوغان کی حکومت کہنا بہتر ہو گا۔۔ صدر اردوغان نے 2003 اور 2013 کے درمیان لبرلز ، کردوں اور گلینسٹوں کے ساتھ اتحاد قائم کر رکھا تھا۔ لیکن 2014 کے بعد سے انہوں نے ان تینوں سابق اتحادیوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے قوم پرستوں اور اسلام پسند لوگوں کے ساتھ ایک نیا اتحاد قائم کیا۔ نتیجہ تھا ایک قوم پرست داخلی پالیسی اور جارحانہ خارجہ پالیسی۔‘
پروفیسر احمد کور نے کہا کہ ‘2014 میں استنبول میں ان کے خلاف احتجاج کے بعد اردوغان کو خدشہ تھا کہ کہیں نیٹو ممالک انہیں اقتدار سے ہٹانا تو نہیں چاہتے؟ اسی وجہ سے انہوں نے روس کے ساتھ فوجی شراکت قائم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ترکی اور روس کے جغرافیائی سیاسی مفادات بلقان، کریمیا ، کاکیشس، شام اور قبرص میں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔’
لہذا اردوغان کی پریشانی یہ ہے کہ ایک طرف ان کے انتہائی قوم پرست اتحادیوں نے انہیں جارحانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی ہے اور ایسا کرنے کے لیے اردوغان کو نیٹو کے طاقتور شراکت داروں کی ضرورت ہوگی۔
دوسری طرف انہیں یہ لگ رہا ہے کہ نیٹو ممالک شاید انہیں اقتدار سے بے دخل کردیں گے اس لیے انہوں نے روس سے دوستی کی کوشش کی۔
آرمینیا -آذربائیجان جنگ اور ترکی کا کردار
آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ میں اب تک 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ناگورنو قرہباخ خطہ باضابطہ طور پر آذربائیجان کا حصہ ہے لیکن اس کی آبادی میں اکثریت آرمینیائی باشندوں کی ہے۔
آرمینیا میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جبکہ تیل سے مالا مال آذربائیجان میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ ترکی کے آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جبکہ آرمینیا کو روس کے قریب سمجھا جاتا ہے حالانکہ روس کے آذربائیجان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔
آرمینیا کے مطابق ترکی آذربائیجان کی صرف سفارتی مدد نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ فوجی امداد بھی فراہم کررہا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم نکول پشینان نے بی بی سی ورلڈ سروس سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ ترک افسران اور انسٹرکٹر ناگورنو قرہباخ میں آذربائیجان کی فوج کو مشورہ دے رہے ہیں اور ترکی نے اپنے لڑاکا طیارے ایف ۔16 بھیجے ہیں۔
لیکن ترکی نے فوجی مدد سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف اخلاقی مدد کر رہا ہے۔
لیکن آخر ترکی نیٹو، یوروپی یونین اور روس کے برعکس آذربائیجان کی بھرپور ‘اخلاقی حمایت’ کیوں کر رہا ہے جبکہ نیٹو، روس اور یورپ اس معاملے پر غیر جانبدار ہیں؟
صدر اردوغان کے ایک سینئر مشیر نے بی بی سی ورلڈ سروس سے بات کرتے ہوئے کہا ‘ہمارا خیال ہے کہ ہم دو ریاستیں اور ایک قوم ہیں، وہ ترک بھی ہیں، ہم انہیں اپنے رشتہ دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس کے علاوہ قبضہ انکی زمین پر کیا گیا ہے۔ وہ لوگ ایک طویل عرصے سے آذربائیجان کو ہراساں کررہے ہیں’۔
پروفیسر احمد کرو کا خیال ہے کہ ترکی دو وجوہات کی بنا پر آذربائیجان کے ساتھ ہے۔
‘اول یہ کہ اگر نسلی طور پر دیکھا جائے تو آذربائیجان ترکی کا سب سے قریب ترین ملک ہے۔ دونوں ممالک کی زبانیں 90 سے 80 فیصد یکساں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ 1991 کے بعد سے ترک حکمرانوں نے آذربائیجان کو سب سے اسٹریٹجک پڑوسی سمجھا ہے کیونکہ قدرتی گیس پائپ لائن جارجیا سے گزرتے ہوئے ترکی آتی ہے۔ ترکی میں تیل بہت کم ہے اور اس طرح تیل سے مالا مال آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلقات بھی اہم ہیں۔
ترکی شام اور لیبیا جیسے ہمسایہ ممالک کے داخلی امور میں فوجی طور پر سرگرم ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات بگڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پہلے اچھے تھے لیکن اب خراب ہیں۔
اسی طرح مصر کے ساتھ بھی اس کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ نیٹو اتحاد کے ساتھ ترکی کے اچھے تعلقات نہیں ہیں اور اس کے دو اراکان یونان اور فرانس کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ ترکی بین الاقوامی سطح پر خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا صدر اردوغان ترکی کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنا چاہتے ہیں؟
مشہور ترک مصنف سونیر چاگھپتائی اپنی کتاب ‘اردوغان ایمپائر’ میں لکھتے ہیں ‘اردوغان 2003 سے آہستہ آہستہ ایک بار پھر ترکی کو ایک بہت بڑی طاقت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ جدید ترکی کے بانی، کمال اتاترک اور عثمانیہ سلطنت کی روایت کو واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں’۔
استنبول میں پروفیسر اسحاق بوٹونیا کے مطابق سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے خطے میں ایک مضبوط ملک کے حوالے سے جو خلا تھی اردوغان اسے پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے ‘میرے خیال میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہی دنیا میں یکسر تبدیلیاں آچکی ہیں اور ترکی نے اب اس خلا کور پر کرنا شروع کردیا ہے۔ ترکی خاص طور پر شام، مشرقی بحیرہ روم اور کوہ قاف سے متعلق اپنے پڑوس میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر ردعمل ظاہر کررہا ہے۔ ترکی اب زیادہ کھل کر سامنے آ رہا ہے لیکن ایک تباہ کن قوت کے طور پر نھیں۔
ترک معاشرے میں بہت سارے لوگ ایسے وقت کو یاد کرتے ہیں جب بہت سارے عرب ممالک اور اسرائیل اس کا اٹوٹ حصہ تھے۔
جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک اور اسلام پسند رہنماؤں اور اداروں کے حامی خاص طور پر اس دور کو یاد کرتے ہیں اور دو عالمی جنگوں میں ترکی کے ٹکڑے کرنے کا الزام وہ مغربی ممالک پر عائد کرتے ہیں۔ اردوغان کو معاشرے کے ایسے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔
پروفیسر احمد کرو ترکی کی بڑھتی ہوئی قوم پرستی کو اسکی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی سرگرمیوں سے ایک مختلف انداز سے جوڑتے ہیں۔
وہ اس بات کو نہیں مانتے کہ کہ اردوغان ان ممالک کو ترکی میں واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں یا لانا چاہتے ہیں جو پہلے اس کا حصہ تھے لیکن وہ قوم پرستی کی لہر سے انکار نہیں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘اردوغان اسلام پسند اور کمالی (اتاترک کے حامی) قوم پرستوں کی حمایت سے اقتدار میں ہیں۔ جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر سے اسلام پسندوں نے انہیں مسلم امہ کے تصور سے جوڑ دیا ہے۔ ان کے لیے ترکی کو یورپی یونین یا نیٹو کا رکن بننے کے بجائے اسلامی اتحاد یا عالمِ اسلام کی رہنمائی کرنی چاہیے’۔
انہوں نے مزید کہا ‘دوسری طرف اردوغان کے دوسرے بڑے حامی انتہائی قوم پرست اتاترک کے حامی، اسلامی اتحاد کے خیال کے مخالف ہیں۔ ان کے لیے روس اور چین کو عالمی سیاست میں ترکی کا سٹریٹجک شراکت دار ہونا چاہیے’۔
ماہرین ایک بات پر متفق ہیں کہ اردوغان اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھنے میں مصروف ہیں خاص طور پر مغربی ممالک، امریکہ اور روس کے مابین۔ لہذا وہ بعض اوقات مغرب مخالف اور کبھی روس مخالف حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں۔