کارل مارکس!
مارکس کے بارے میں میرے خیالات وہی ہیں جو اکابر مسلم مفکرین کے ہیں چونکہ میں بھی خود کو ’’اکابر‘‘ میں سمجھتا ہوں چنانچہ میں ان سے ہم خیال ہوں یا یوں کہہ لیں کہ وہ مجھ سے متفق ہیں۔یعنی یہ کہ کارل مارکس بہت بڑا آدمی تھا، اتنا بڑا کہ دل کی گہرائیوں سے اس کی عزت کی جا سکتی ہے کیونکہ اس نے سرمایہ پرستانہ نظام کی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری نیک نیتی کےساتھ ایک متبادل نظام پیش کیا تاکہ دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے ۔لیکن ہر نظام میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی خامی رہ جاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی کامیاب آپریشن کے بعد کسی ڈاکٹر سے مریض کے پیٹ میں قینچی رہ جاتی ہے۔ سو ایک خامی مارکسزم میں بھی رہ گئی اور وہ یہی قینچی والی تھی چنانچہ اس کا آپریشن ہر دفعہ کامیاب ہوتا ہے مگر کچھ عرصہ بعد ہی قینچی نکالنے کے لئے دوسرا آپریشن کرنا پڑتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے چیر پھاڑ کے اس مسلسل عمل کو مارکسزم میں یقیناً کوئی اچھا سا نام دیا گیا ہو گا جو میرے علم میں نہیں، ممکن ہے جدلیاتی عمل اسی کو کہتے ہوں۔
لیکن یہ تو میں کچھ ’’فروعی‘‘ سی باتوں میں پڑ گیا ہوں کیونکہ اس وقت میں بات کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرے ایک دوست حال ہی میں نجی ملکیت کے قائل ہوئے ہیں کیونکہ وہ حال ہی میں اپنا مکان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔اس کام سے فراغت کے بعد گزشتہ روز وہ میرے پاس تشریف لائے اور مزدوروں، مستریوں ، ترکھانوں، لوہاروں اور رنگ روغن کا کام کرنے والے محنت کش عوام کی چغلیاں کرنے لگے۔اس پر میں نے انہیں ٹوکا اور کہا ’’یار جانے دو، ایک تو غیبت ویسے بری چیز ہے اور دوسرے سماج کے پسے ہوئے طبقوں کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرنا یوں بھی کچھ اچھا نہیں لگتا‘‘مگر لگتا تھا کہ ان کا دل بہت دکھا ہوا تھا کیونکہ اس پر انہوں نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا یہ لوگ مجھے لوٹ کر کھا گئے ہیں، میں نے ہائوس بلڈنگ والوں سے ادھار لیا رشتے داروں سے قرض لیا اور اب سماج کے اس پسے ہوئے طبقے کا بھی مقروض ہوں اور تم کہتے ہو میں ان کی چغلی بھی نہ کروں؟اور اس کے بعد وہ شکایات کا دفتر کھول کر بیٹھ گئے یعنی مکان کا لینٹر ڈالنے کے مرحلے کے دوران بجلی والوں نے بجلی کے پائپ غلط مقامات پر رکھے اور ایڈوانس رقم لیکر فرار ہو گئے ۔سینٹری والوں نے ادھورا کام کیا اور پیسے پورے وصول کرلئے ،لوہے کی کھڑکیاں اور چوکھٹیں بنانے والا پہلےسے طے شدہ نرخوں سے منحرف ہو گیا۔اس نے کام بھی زائد نرخوں پر کیا اورچوکھٹیں، روشن دان اور کھڑکیاں بھی ٹیڑھی بنائیں۔ نیز میٹریل بھی ناقص استعمال کیا۔ریت والا بغیر آرڈر کے ریت کا ایک ٹرک اتار جاتا تھا اور بعد میں بڑے دھڑلے سے دو ٹرکوں کے پیسے وصول کرتا تھا کہ اس کے بقول اس نے دو ٹرک اتارے تھے۔ مزدور، مستری دس بجے تعمیر کا کام شروع کرتے اور ساڑھے دس بجے ہی سے دوپہر کے وقفے کے لئے گھڑی دیکھنا شروع کر دیتےتھے ،وہ کام کے آغاز میں ڈھیر سارا مسالہ تیار کرلیتے تھے اور شام کو اسے ختم کئے بغیر ریت میں دبا کر رفوچکر ہو جاتے تھے۔
میں نے اپنے دوست سے اس کی یہ ’’المناک‘‘ داستان سنی تو اس کی حالت زار پر ترس آیا اور کہا، عزیز صبر کر؟بولا ’’صبر کیسے کروں ا بھی تو میں نے تمہیں یہ بتانا ہے کہ سیمنٹ کس طرح غائب کیا جاتا ہے، ابھی تو میں نے تمہیں رنگ سازوں اور لکڑی کا کام کرنے والوں ….‘‘مگر میں نے ان کا بیان درمیان ہی میں روک دیا اور گفتگو کا رخ موڑنے کے لئے کہا ’’آئو! ذرا سیر کے لئے باہر چلتے ہیں ‘‘وہ بادلِ نخواستہ اٹھے اور میرے ساتھ ہولئے لیکن چند قدم چلنے کے بعدرک گئے اور بولے اگر مارکس نے کبھی مکان بنایا ہوتا تو وہ کبھی ’’داس کیپٹل‘‘ لکھنے کے جھنجھٹ میں نہ پڑتا، وہ یقیناً مکان بنا سکتا تھا لیکن اس نے کتاب لکھنے کو ترجیح دی، میں تو مکان بنانے کو ترجیح دیتا ہوں۔تھوڑی دیر بعد دوست تو مجھ سے رخصت ہو گئے لیکن میں ایک اورفروعی مسئلے میں الجھ گیا یعنی مارکس کو اپنی زندگی میں مکان بنانے کا تجربہ ہوا تھا یا نہیں؟ ہوا تھا، غالباً نہیں ہوا تھا۔تاہم میں نے سوچا کہ اگر میرے دوست کی یہ ساری باتیں صحیح ہیں تو پھر اس امر کا امکان موجود ہے کہ مارکس نے مکان بنایا ہو اور مزدوروں سے اسی نوع کا سابقہ پڑنے کے بعد اس نے انتقامی کارروائی کے طور پر داس کپیٹل لکھی ہو کہ پترو!اب میں اس کتاب کی صورت میں تمہارے لئے ایسا نظام وضع کر رہا ہوں کہ تمہاری سات پشتیں یاد رکھیں گی۔انسانوں کی بجائے مشینوں کی جون میں آ جائوگے لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے اپنے اس خیال کو جھٹک دیا کیونکہ اکابر مسلم مفکرین کی طرح میں نے بلکہ میری طرح اکابر مسلم مفکرین نے مارکس کی نیک نیتی پر کبھی شک نہیں کیا کیونکہ مارکس وہ سرجن ہے جس کا آپریشن ٹھیک ہے بس قینچی پیٹ میں رہ گئی ہے۔
پس نوشت:میرے اس کالم سے میرے کمیونسٹ دوست ناراض نہ ہوں کیونکہ میں مارکس کی عظمت کو سلام کرنے کے لئے لندن میں اس کی قبر پر بھی گیا تھا اوربراہ کرم علمائے کرام بھی ناراض نہ ہوں کیونکہ میں نے ایک دفعہ الحمد شریف اور تین دفعہ قل شریف پڑھ کر اس کی نذر کیا تھا اور اللہ سے دعا مانگی تھی کہ یااللہ اس نیک بندے نے تیری مخلوق کی بھلائی کے لئے سوچا تھا اسے اس کی نیت کا جو اجر دےسکتا ہے، وہ اسے ضرور دے۔