اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم پاکستان کے مقابلے میں دُنیا کی واحد سپرطاقت اور ’’حقیقی‘‘ جمہوریت کی علامت شمار ہوتے امریکہ میں جنونت کی انتہائوں کو ناقابلِ برداشت حد تک چھورہی ہے۔اس ضمن میں سفاکی کا بھرپور مظاہرہ حال ہی میں امریکی صدر کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ٹرمپ کئی حوالوں سے مجھے اپنا ’’لاہوری‘‘ محسوس ہوتا ہے۔اس کے رویے سے لطف اندوز ہونے کے باوجود مجھے اس کی سیاسی ترجیحات سے شدید نفرت ہے۔ “America First”کی آڑ میں وہ جو خود غرضی دکھارہا ہے وہ دنیا بھر میں انتشار وخلفشار کو بڑھاوا دے رہی ہے۔کئی بار یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ اگر 3نومبر2020کے دن وہ دوبارہ صدر منتخب ہوگیا تو شاید تیسری عالمی جنگ کو روکنا ناممکن ہوجائے گا۔اسی باعث یہ امید باندھے ہوئے ہوں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا بزرگ اور تجربہ کار امیدوار-جوبائیڈن اسےشکست سے دوچار کرے۔حال ہی میں رائے عامہ کے جو سروے آئے انہوں نے میری امید کو تقویت بخشی۔گزشتہ جمعہ کی صبح مگر اس نے ٹویٹ لکھ کر دنیا کو مطلع کیا کہ وہ کرونا کی زد میں آگیا ہے۔اس کی سیاست سے تمام تر نفرت کے باوجود میں نے بہت خلوص سے اس کے لئے خیر کی دُعا مانگی۔کرونا پر نگاہ رکھنے والے ماہرین اگرچہ تواتر سے دعویٰ کررہے ہیں کہ اس مرض کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا۔ہمارے بدن میں فطری طورپر موجود مدافعتی نظام ہی اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد میں لیکن یہ نظام کمزور سے کمزور ترین ہوجاتا ہے۔عورتوں کے مقابلے میں مرد اس ضمن میں زیادہ کمزور ہیں۔ٹرمپ مرد ہونے کے علاوہ 74برس کا بھی ہوچکا ہے۔اس کی صحت یابی لہذا بہت دشوار اور طویل علاج کی طلب گار محسوس ہوئی۔امریکی سیاست پر روایتی انداز سے ہٹ کر نگاہ رکھنے والا ایک صحافی مائیکل مور بھی ہے۔وہ اپنی اشرافیہ کی نگاہ میں بہت کھٹکتا ہے۔اس کی مکاری اور سفاکی کو بے نقاب کرنے کے لئے اس نے بہت لگن سے چند شاندار ڈاکومینٹریاں بھی تیار کی ہیں۔اس صحافی نے اتنہائی اعتماد سے اعلان کردیا کہ ٹرمپ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے کرونا کی زد میں آنے کا ’’ڈرامہ‘‘ لگارہا ہے۔غالباََ وہ یہ ’’ڈرامہ‘‘ لگانے کو اس لئے بھی مجبور ہوا کیونکہ حال ہی میں اس کا بائیڈن کے ساتھ ٹی وی کیمروں کے روبرو جو پہلا مباحثہ ہوا اس نے ٹرمپ کی مقبولیت کو بہت دھچکا لگایا۔اس مباحثے نے یہ پیغام بھی دیا کہ کرونا کی وجہ سے اپنے ملک پر نازل ہوئی قیامت خیز تباہی سے ٹرمپ قطعاََ پریشان نہیں۔بدستور اس احمقانہ خیال پر ڈٹا ہوا ہے کہ کرونا کوئی جان لیوا مرض نہیں۔ امریکی معیشت اس کے نزول کے باوجود خوش حال اور توانا تر ہی رہے گی۔مائیکل مور کی بیان کردہ سازشی کہانی کو میں نے دل وجان سے مان لیا۔کچھ وقت گزرنے کے بعد البتہ اس حقیقت پر غور کرنے کو بھی مجبور ہوا کہ بے تحاشہ تجسس اور کھوج کے عادی امریکی میڈیا کے ہوتے ہوئے ایسے ’’ڈرامے‘‘ لگانا ممکن نہیں۔وائٹ ہائوس میں ہوئی ہر گفتگو ویسے بھی تاریخ کے لئے ریکارڈ ہوتی ہے۔حقائق چھپاتے ہوئے وہاں بیٹھے افسروں اور مصاحبین کو سوبار سوچنا ہوتا ہے۔اس کے بعد خبر یہ بھی آئی کہ ٹرمپ کو وائٹ ہائوس سے ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔یہ اس بات کی واضح علامت تھی کہ ٹرمپ کو کرونا کی وجہ سے ہنگامی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد بھی ٹرمپ نے مگر ایک وڈیو ریکارڈ کروایا۔ اس کے ذریعے اپنی زندگی ’’معمول‘‘ کے مطابق دکھانے کی کوشش کی۔بعدازاں اعلان یہ بھی ہوا کہ وہ ہسپتال میں محض دو دن گزارنے کے بعد پیر کے دن وائٹ ہائوس لوٹنے کو تیاری کررہا ہے۔محض دو دن کے علاج کے بعد وائٹ ہائوس لوٹنے کا دعویٰ اس تناظر میں ’’بڑھک‘‘ سنائی دیا جس نے ہمیں مطلع کیا کہ ہسپتال میں داخلے کے بعد ٹرمپ کو آکسیجن بھی فراہم کرنا پڑی تھی۔اس کے علاوہ اسے جو دوائی دینے کی اطلاع آئی وہ عموماََ وینٹی لیٹر کی جانب بڑھتے مریضوں کو ہنگامی صورت میں فراہم کی جاتی ہے۔حیران کن واقعہ مگر یہ ہوا کہ پیر کے روز ٹرمپ واقعتا وائٹ ہائوس لوٹ آیا۔وہاں پہنچتے ہی کیمروں کے روبرو ایک ٹیرس پر کھڑے ہوکر اس نے اپنے چہرے پر لگے ماسک کو کسی فلمی ہیرو کی طرح ہٹادیا۔ بعدازاں دھڑا دھڑ ٹویٹ لکھنے میں مصروف ہوگیا۔اپنے رویے سے اس نے تاثر یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ کرونااس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پایا۔ ایک ’’سپرمین‘‘ کی طرح بلکہ اس نے اس موذی مرض کو بھی گویا چٹکی بجاکر معجزانہ انداز میں بچھاڑ ڈالا۔مجھ جیسے لوگ ایک بار پھر سوچنے کو مجبور ہوگئے کہ مائیکل مور کی جانب سے ’’ڈرامے‘‘ والا دعویٰ شاید درست ہے۔میرا دل مگر یہ ماننے کو تیار نہیں ہورہا تھا۔بدھ کے روز کئی گھنٹے میں نے اپنا لیپ ٹاپ کھول کر ٹرمپ کی بیماری کے بارے میں تحقیق کی نذر کئے۔بہت اعتماد سے اب یہ لکھ سکتا ہوں کہ ٹرمپ پر کرونا وائرس یقینا حملہ آور ہوا تھا۔اس کے خون میں آکسیجن بھی Drop یعنی کم ہونا شروع ہوگئی تھی۔ہسپتال منتقل ہوتے ہی مگر اسے کرونا کے مؤثر علاج کے لئے بنائی ایک نئی دوا Regeneron آٹھ گرام کی مقدار میں دی گئی۔ہمارے حکیم مختلف موذی امراض کے علاج کے لئے جو دوائیں ایجاد کرتے تھے بسااوقات ان کی ایک ’’پھکی‘‘ ہی شفایاب کرنے کے لئے کافی تصور ہوتی تھی۔ٹرمپ کے ضمن میں فی الوقت نظر بظاہر Regeneronکی آٹھ گرام والی ’’پھکی‘‘ نے ویسا ہی ’’معجزہ‘‘ دکھایا ہے۔یہ دوائی ایک امریکی کمپنی نے چند ہفتے قبل دریافت کرنے کا اپنی ویب سائٹ پر باقاعدہ اعلان کیا تھا۔۔اس دریافت کے لئے جو تحقیق ہوئی اسے ٹرمپ حکومت نے 450ملین ڈالر کی فراہمی کے ذریعے سہارا دیا تھا۔اس دوا کی دریافت کے عمل کو سادہ ترین لفظوں میں بیان کرتے ہوئے بتانا ہوگا کہ اسے سب سے پہلے چوہوں کے ایک خاص گروہ پر آزمایا گیا تھا۔یہ چوہے اس وجہ سے ’’خاص‘‘ تھے کہ ان کے بدن میں موجود خون کو Genetic Engineering کے ذریعے بالکل انسانی خون جیسا بنادیا گیا تھا۔انسانی جسموں میں رواخون میں موجود فطری مدافعتی نظام بھی لہذا چوہوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔اس کے بعد ان چوہوں کو کرونا وائرس کی ’’زد‘‘ میں لایا گیا۔مشاہدہ یہ ہوا کہ کرونا کو کس نوعیت کی فطری مدافعت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ دریافت کرنے کے بعد مدافعتی نظام کو توانا تر بنانے کے لئے کئی ادویات کا استعمال ہوا۔ بالآخر ایک خاص نسخہ دریافت ہوگیا۔Regeneronمگر اسی وقت کارگر ثابت ہوتی ہے اگر آپ کے جسم میں اسے کرونا وائرس کے حملہ آور ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد داخل کردیا جائے۔ Regeneron بروقت انسانی جسم کو میسر ہوجائے تو وہ مستعد اور ہمہ وقت چوکیدار کی مانند کرونا وائرس کو آپ کے پھیپھڑوں میں داخل نہیں ہونے دیتی۔دل کے گرد بھی ایک حصار باندھ دیتی ہے۔انسانی جسم میں کرونا کی اہم ترین ’’پناہ گاہ‘‘ ہمارے پھیپھڑے ہیں۔کرونا وہاں پہنچ کر توانا سے توانا تر ہوجانا شروع ہوجاتا ہے۔ٹرمپ کو کرونا کا Positiveٹیسٹ آنے کے چند ہی گھنٹوں بعد ہسپتال پہنچادیا گیا۔وہاں داخل ہوتے ہی اسے Regeneronکے آٹھ گرام کی پھکی ملی۔کرونا اس کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہی نہ ہوپایا اور ٹرمپ دو دن بعد ہسپتال سے لوٹ کر خود کو Supermanدکھانا شروع ہوگیا۔ربّ کریم اسے زندہ سلامت رکھے۔یہ حقیقت مگر یاد رکھنا ہوگی کہ دنیا میں کرونا نمودار ہونے کے پہلے روز سے ٹرمپ نظر بظاہر جاہلوں کی طرح اس وائرس اور اس کے بار ے میں ہوئی تحقیق کا رعونت سے تمسخر اڑاتا رہا۔طبی تحقیق ہی نے بالآخر مگراسے وہ ’’پھکی‘‘ فراہم کی جو اسے دو ہی روز میں شفایاب کرنے کا سبب ہوئی۔ثابت یہ بھی ہوا کہ کرونا کا ایک حوالے سے علاج دریافت ہوچکا ہے۔اس ضمن میں تیار ہوا’’نسخہ‘‘ مگر اس امر کا تقاضہ بھی کرتا ہے کہ تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر آپ کا کرونا ٹیسٹ ہو۔جیسے ہی وہ Positiveکی گھنٹی بجائے تو فی الفور آپ کے جسم میں Regeneronکے آٹھ گرام ڈال کر آپ کو بچالیا جائے۔قدیم زمانوں میں ایسی سہولت فقط بادشاہوں کو ان کے شاہی طبیب فراہم کیا کرتے تھے۔ٹرمپ دورِ حاضر کا ’’شہنشاہ ‘‘ہے۔ کرونا اس پر حملہ آور ہوا تو وہ نسخہ جو لاکھوں بے وسیلہ شہریوں کو کسی صورت میسر نہیں ایک ’’پھکی‘‘ کی صورت اس کے لئے استعمال ہوا اور وہ دندناتے ہوئے ہسپتال سے وائٹ ہائوس لوٹ آیا۔
میری تحقیق نے یہ حقیقت بھی اجاگر کی ہے کہ Regeneronبہت مہنگی دوائی ہے۔اسے دریافت کرنے والی کمپنی ابھی اسے وسیع پیمانے پر مارکیٹ میں لانے کے قابل بھی نہیں۔فی الوقت کثیر سرمایے کے استعمال سے وہ محض ایک سال بعد اس کی محض دس لاکھ ’’پھکیاں‘‘ تیار کرسکتی ہے۔ظاہر ہے یہ ’’پھکی‘‘ میرے اور آپ جیسے بے وسیلہ انسانوں کو نصیب نہیں ہوگی۔ دنیا کے امیر ترین افراد ہی اس سے فیض یاب ہوپائیں گے۔