کثیرالجماعتی سیاسی و انتخابی اتحادوں میں یوں بھی ہوتا ہے کہ دو تین لیڈروں میں ذہنی قربت، دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحادوں میں، مولانا مودودی (جماعت اسلامی) نوابزادہ نصراللہ خان (عوامی لیگ) اور چودھری محمد علی (نظام اسلام پارٹی) ایک دوسرے کے زیادہ قریب سمجھے جاتے تھے۔ ان میں یہ قربت جنرل یحییٰ خان کے دور میں بھی رہی۔ (اس دوران نوابزادہ صاحب کی عوامی لیگ (8 نکاتی) اور چودھری محمد علی کی نظام اسلام پارٹی، چار جماعتوں کے ادغام سے وجود میں آنے والی پاکستان جمہوری پارٹی (PDP) کا حصہ بن گئی تھیں۔ دیگر دو جماعتوں میں ایئر مارشل اصغر خان کی جسٹس پارٹی اور نورالامین کا نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ (NDF) شامل تھے۔ مولانا مودودی نے 31مئی 1970 کو ملک گیر یومِ شوکتِ اسلام منانے کا اعلان کیا تو پی ڈی پی کے مرکزی صدر نورالامین (اور پی ڈی پی مشرقی پاکستان) اس میں شرکت کے حق میں نہ تھے، لیکن مغربی پاکستان میں پی ڈی پی نے اس میں بھرپور شرکت کی۔ نوابزادہ نصراللہ خان لاہور میں شوکت اسلام کے جلوس میں مولانا مودودی کے ہم نشیں تھے۔ 1970 کے الیکشن سے قبل جماعت اسلامی اور پی ڈی پی سمیت دائیں بازو کی بعض جماعتوں میں ڈھیلا ڈھالا سا انتخابی اتحاد (جسے انتخابی مفاہمت کہنا زیادہ مناسب ہوگا) بھی وجود میں آچکا تھا‘ لیکن لاہور میں حلقہ 3 نے معاملہ بگاڑ دیا۔ یہاں بھٹو صاحب امیدوار تھے، ان کے مقابلے میں فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ پی ڈی پی کی طرف سے ”محافظ لاہور‘‘ جنرل (ر) سرفراز بھی میدان میں تھے۔ بھٹو کے طوفان میں‘ لاہور میں انہیں اگر کوئی ٹف ٹائم دے سکتا تھا، تو وہ فرزندِ اقبال تھے۔ مولانا مودودی بھی اس حقیقت کو سمجھتے تھے۔ جناب مجید نظامی اور آغا شورش کاشمیری بھی فرزندِ اقبال کے پرُجوش سپورٹر تھے‘ لیکن نوابزادہ صاحب اپنے امیدوار کو دستبردار کرانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ مولانا مودودی اور نوابزادہ صاحب میں دیرینہ تعلقات میں تلخی در آئی۔ پورے ملک میں دونوں جماعتوں میں ”انتخابی مفاہمت‘‘ ختم ہوگئی جس سے کارکن اور دائیں بازو کے ووٹر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ لاہور کے حلقہ 3 میں بھٹو صاحب کو جیتنا ہی تھا؛ البتہ فرزند اقبال کی شکست آبرومندانہ تھی۔ جگر مراد آبادی کے الفاظ میں اسے ”شکستِ فاتحانہ‘‘ بھی کہا جا سکتا تھا‘ لیکن نوابزادہ صاحب کے امیدوار اپنی ضمانت بھی نہ بچا سکے (یاد پڑتا ہے، ان کے ووٹ چھ، سات ہزار سے زائد نہ تھے) 1970 کے انتخابات کے بعد مولانا مودودی، جماعت اسلامی کی امارت سے دستبرداری کے ساتھ، عملی سیاست سے بھی ریٹائر ہوگئے۔ اب میاں طفیل محمد ان کے جانشین تھے۔ سیاست سے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے نوابزادہ صاحب کا اپنا نقطۂ نظر تھا۔ ان کے بقول، سیاست ایک کل وقتی کام ہے، یہ ایک مشن ہے، جو صحت اجازت دے، تو تادمِ آخر جاری رہتا ہے اور بابائے جمہوریت اسی پر کاربند رہے۔ ستمبر 2003 میں اپنی وفات سے اڑھائی تین ہفتے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف سے جنرل مشرف کے خلاف آئندہ سیاسی لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کے لیے، وہ لندن اور جدہ بھی ہوآئے تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ (UDF) میں جماعت اسلامی اور پی ڈی پی پھر ہم سفر تھے‘ لیکن شریف الطبع میاں طفیل محمد اور وضعدار وملنسار نوابزادہ کے ذاتی تعلقات میں، مولانا مودودی کے ساتھ تعلقات والی بات نہ تھی۔ 1977میں پیپلز پارٹی کے خلاف نوجماعتی پاکستان قومی اتحاد میں، ایئر مارشل اصغر خان اور مولانا شاہ احمد نورانی باہم قریب تر تھے۔ انتخابات کے بعد، ملک گیر احتجاجی تحریک کے دبائو میں بھٹو صاحب کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا، تو اس میں ایئر مارشل اور نورانی میاں کی سوچ یکساں تھی، اب این ڈی پی کے سردار شیر باز خان مزاری اور بیگم نسیم ولی خاں بھی ان کے ہم خیال تھے۔
اب وزیر اعظم کے خلاف گیارہ جماعتی پی ڈی ایم وجود میں آیا، تو لگتا ہے اس میں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن باہم قریب ترہیں۔ اسے دونوں جماعتوں کی قربت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے قائد کے سیاسی ویژن کو ہی اپنا ڈاکٹرائن قرار دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے بقول، میاں صاحب کا ایک ایک لفظ ان کی جماعت کے لیے کسی بھی چیز سے زیادہ مقدم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قیادت، اس کے ووٹر اور ورکر کو مریم میں میاں صاحب ہی کا چہرہ نظر آتا ہے لیکن اس کا مطلب جناب شہباز شریف (اور ان کے خاندان) کی سیاسی حیثیت کو کم تر کرنا نہیں۔ دونوں بھائی، یک جان دوقالب ہیں، مریم شہباز صاحب کو اپنے والد سے کم درجہ نہیں دیتیں‘ اور شہباز صاحب کے لیے بھی وہ ”گڑیا بیٹی‘‘ ہے۔ مریم اور حمزہ میں بھی بہن بھائیوں جیسا معاملہ ہے۔
بات میاں صاحب اور مولانا فضل الرحمن میں (دوسروں کی نسبت) زیادہ ذہنی قربت کی ہورہی تھی۔ نوزائیدہ اتحاد کی سربراہی کے لیے مولانا کا نام بھی میاں صاحب نے تجویز کیا تھا جس کی خوش دلانہ تائید میں بلاول نے لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی۔ منگل کی شب مولانا لاہور پہنچے۔ وہ یہاں اپنی جماعت کے صوبائی عہدیداران اور مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی وصحافتی حلقوں میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ پی ڈی ایم کی قیادت سنبھالنے کے بعد پہلی بار لاہور آئے ہیں تو کیا مریم نواز سے بھی ملاقات کریں گے؟ یہ تجسس زیادہ دیر جاری نہ رہا۔ مریم اورنگ زیب نے بدھ کی دوپہر، بریکنگ نیوز دیدی، مولانا، مریم نواز سے ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات مسلم لیگ (ن) کے ہیڈ کوارٹر 180-H ماڈل ٹائون میں بھی ہوسکتی تھی‘ کھانے کا اہتمام بھی یہاں ہوسکتا تھا، لیکن مریم نواز کے خیال میں جاتی امرا میں اپنی رہائش پر عشائیے میں مہمانوں کی عزت وتوقیر زیادہ تھی۔ (میاں صاحب نے بھی لندن سے یہی تجویز کیا تھا) مولانا شب آٹھ بجے کے قریب جاتی امرا پہنچے۔ جمعیت علمائے اسلام کے قائدین کے علاوہ، جمعیت علمائے پاکستان میں مولانا شاہ احمد نورانی (مرحوم) کے جانشین اویس نورانی بھی ہمراہ تھے۔ اِدھر شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، ایاز صادق، پرویز رشید، محمد زبیر اور مریم اورنگ زیب بھی موجود تھے۔ پرتکلف عشائیے کے ساتھ پی ڈی ایم اے کے آئندہ لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اندرون و بیرون ملک لاتعداد لوگوں کی نظریں ٹی وی سکرینوں پر لگی ہوئی تھیں۔ گیارہ بجے مولانا اور مریم کیمروں کے روبرو تھے۔ مریم شکریہ ادا کررہی تھیں کہ مولانا نے ان کی دعوت قبول کی۔ وہ مولانا کو اپنا شفیق بزرگ اور اپنے والد صاحب کا ساتھی قرار دے رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں، میاں صاحب کو اور مسلم لیگ کوکسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ ان کے بقول، بیساکھیوں پر کھڑی، سلیکٹڈ حکومت 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ سے شروع ہونے والی تحریک کے سامنے زیادہ دیر کھڑی نہیں رہے گی۔
سول نافرمانی کے حوالے سے ایک سوال پر مولانا کا کہنا تھا، اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ اس سے پہلے ہی گھر چلے جائیں گے۔ مولانا کا کہنا تھا، پی ڈی ایم کے قیام کے بعد اب کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں رہا۔
مولانا سے ایک دلچسپ سوال تھا، آپ پریشان نظر آرہے ہیں۔ مولانا نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، پریشان نہیں پرُعزم ہوں۔ مریم نے گرہ لگائی، مولانا پریشان نہیں، انہیں پریشان کرنے آئے ہیں۔
ایک اور سوال پر مریم نے کہا: وہ سوال نہ کریں جس کے جواب کا بوجھ آپ کا چینل نہ اٹھا سکے… نصف شب گزر چکی تھی، طلوعِ سحر میں ابھی کچھ دیر تھی۔