افغانستان میں ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق افغان صدر اشرف غنی اپنا عہدہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
انھیں اب تک کے نتائج کے مطابق 50.64 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں جبکہ ان کے مخالف امیدوار اور افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کو تقریباً 39 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔
جہاں عبداللہ عبداللہ نے انتخابات کے نتائج پر اعتراض کرتے ہوئے انھیں فراڈ قرار دیا ہے تو وہیں تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اشرف غنی کا دوبارہ انتخاب افغانستان میں امن و امان اور استحکام میں مدد دے سکتا ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور پاکستان کے سابق سیکریٹری داخلہ رُستم شاہ مہمند سمجھتے ہیں کہ اشرف غنی کا دوبارہ انتخاب ملک میں غیر یقینی صورتحال کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب امریکہ کو اس حوالے سے الجھن نہیں ہوگی کہ آیا اس نے عبداللہ عبداللہ سے بات کرنی ہے یا پھر اشرف غنی سے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب اس حوالے سے مزید غیر یقینی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا اور وہ ضرور اشرف غنی پر بھی دباؤ ڈالے گا کہ وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا نہ کریں۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر کیا فرق پڑے گا؟
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر ممکنہ اثرات کے سوال پر رُستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد معاہدے کے بعد امن قائم ہو کیونکہ جب تک وہاں پر دراندازی جاری رہے گی، تب تک اس کا الزام پاکستان پر ڈالا جاتا رہے گا، اور ایسے معاہدے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بحالی کی جانب جائیں گے۔
مگر ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایسی بحالی کے لیے ضروری ہوگا کہ پاکستان زمینی حقائق کو تسلیم کرے۔
’افغانستان میں چاہے جو بھی حکومت ہو، طالبان کی حکومت ہو، وہ انڈیا کے ساتھ قریبی تعلق رکھے گی۔ پاکستان کے لیے یہ مطالبہ جائز ہوگا کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے، پر اگر پاکستان مطالبہ کرے کہ افغانستان کی خارجہ پالیسی بھی پاکستان کے مفادات سے ہم آہنگ ہو تو یہ غلط ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک مان کر ہی ہمیں ان سے روابط رکھنے چاہئیں جس سے پاکستان کے لیے وسطی ایشیا اور افغانستان کے لیے گوادر کے راستے کھلیں گے، فائدہ دونوں کو ہوگا۔
علاقائی سیکیورٹی امور کی ماہر اور امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر کی فیلو ڈاکٹر سِمبل خان بھی اسی نظریے کی حامی ہیں کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بین الافغان مذاکرات کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کی صورت میں اگلا منطقی مرحلہ یہی ہونا ہے۔
وہ نہیں سمجھتیں کہ اشرف غنی کو اتنے کم مارجن سے اکثریت ملی ہے کہ ان کے لیے کوئی مسائل پیدا ہوں گے، باوجود اس کے کہ اس پورے مرحلے پر اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر سِمبل کہتی ہیں کہ افغان معاملے میں پاکستان ایک اہم شراکت دار ہے اور پاکستان کو اپنے خلاف اندرونِ افغانستان موجود منفی تاثر کے باوجود معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
امراللہ صالح کا کردار
اور جہاں ڈاکٹر سِمبل کو افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت سے پاکستان کے لیے کوئی واضح مسائل پیدا ہوتے نہیں محسوس ہوتے، وہیں ان کے نزدیک امراللہ صالح کی بطور نائب صدر کامیابی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
امراللہ صالح افغانستان کے صوبے پنجشیر سے تعلق رکھتے ہیں اور افغان انٹیلیجنس این ڈی ایس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ احمد شاہ مسعود کے جنگجو دھڑے شمالی اتحاد کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو شمالی اتحاد کے عزائم پر شبہات رہے ہیں۔
ڈاکٹر سِمبل کہتی ہیں کہ امراللہ صالح پاکستان کے بہت سخت ناقد ہیں، پاکستان اور اس کے سیکیورٹی اداروں کے کردار پر بہت کھلی تنقید کرتے رہے ہیں، اس لیے اس تعلق میں سنبھل کر راستہ نکالنا ہمارے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے لیے یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے کہ افغانستان کے کسی بھی اندرونی یا سرحدی مسئلے کو دوطرفہ طور پر حل کرنے کے بجائے فوراً اس حوالے سے میڈیا پر الزام تراشی شروع ہوجاتی ہے جس میں امراللہ صالح بھی پیش پیش رہے ہیں۔
’اب دیکھنا پڑے گا کہ غنی کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے بعد وہ اپنے رویے میں کتنی تبدیلی لاتے ہیں۔ اس طرح کی پیچیدگیاں ہمارے لیے رہیں گی جن سے ہمیں نمٹنا پڑے گا۔‘
ان کا مزید خیال ہے کہ پاکستان کے خلاف افغانستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہم افغانستان امن مذاکرات کی حمایت اپنے مفادات کے لیے کر رہے ہیں جس کے ذریعے ہم طالبان کو افغانستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے مطابق اس قسم کے تاثر وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
’افغانستان کا داخلی استحکام بنیادی مسئلہ‘
پاکستان کے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے پشاور میں بیورو چیف اسمٰعیل خان افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا بھی یہی مؤقف ہے کہ اشرف غنی کے منتخب ہونے سے غیر یقینی کیفیت کے بادل چھٹ گئے ہیں اور بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی ہے کیونکہ افغانستان کے آئین اور دیگر کئی معاملات پر طالبان اور افغان حکومت کو بات کرنی ہوگی جو امریکہ اور پاکستان نہیں کر سکتے۔
اس انتخاب کا پاکستان پر کیا اثر ہوگا، اس حوالے سے اسمٰعیل خان کہتے ہیں کہ دونوں ہی جانب سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ، بدگمانیاں اور عدم اعتماد کی فضا رہی ہے۔
’جب جب افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوتا ہے تو اشرف غنی کا لہجہ تبدیل ہوجاتا ہے اور الزام تراشی شروع ہوجاتی ہے، پھر جب مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو پاکستان سے امید بندھ جاتی ہے، اس لیے ان تعلقات میں بنیادی اور وسیع تر مسئلہ افغانستان کا داخلی استحکام ہے۔‘