اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ نہ تو آئین اور نہ ہی کوئی قانون ججوں یا مسلح افواج کے سینئر اراکین کو پلاٹ یا زمین کے ٹکڑوں کے حصول کا حقدار بناتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 9 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-14 اور ایف-15 میں وفاقی حکومت کی ہاؤسنگ اسکیموں کو ختم کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ یہ فرسودہ ہے لیکن یہ دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ججوں کو قانون بنانے کا اختیار نہیں دیا گیا ہے، یہ محض تشریح کرتے ہیں اور اگر کوئی قانون آئین سے ٹکراتا ہے تو اسے ختم کرنا چاہیے۔
اس اسکیم کو ختم کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے نوٹ کیا تھا کہ ان شعبوں سے استفادہ کرنے والے وفاقی وزارتوں، ڈویژنز، منسلک محکموں، سپریم کورٹ کے ججوں، تمام اعلیٰ عدالتوں، آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ اور گلگت بلتستان کی چیف کورٹ اور سپریم اپیلیٹ کورٹ کے ساتھ ساتھ فیڈرل شریعت کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسران اور ملازمین ہیں۔تحریر جاری ہے
تاہم جمعرات کو 4 ججوں کے بینچ نے کھلی عدالت میں سپریم کورٹ میں فیصلہ سناتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے مقامی لوگوں سے حاصل شدہ اراضی پر شروع کیے گئے ایک ہاؤسنگ منصوبے سے متعلق خدشہ ظاہر کیا ہے جبکہ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم بینچ نے کہا کہ زمین کو قانونی طور پر فاؤنڈیشن نے حاصل کیا تھا۔
اس موقع پر جسٹس عیسیٰ نے اپنے اضافی نوٹ میں واضح کیا کہ آئین اور قانون (صدارتی احکامات) چیف جسٹسز اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو پلاٹ یا زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کا اختیار نہیں دیتے، اسی طرح انہوں نے ’تنخواہ، پنشن‘ کے مرتب کردہ صدارتی احکامات کے مینوئل پر روشنی ڈالی جس میں ججوں کی تنخواہ، پنشن اور مراعات کے حوالے سے حکم نامہ، قوانین اور اعلامیے موجود ہیں لیکن اس مینوئل میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹسز اور ججوں کو زمین کے حصے کا حقدار بناتی ہو۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی لوگوں کی نگاہ میں اس کے احترام اور ساکھ کو یقینی بنانے کے لیے لازم و ملزوم ہے لیکن ایگزیکٹو کی جانب سے ججوں کو پلاٹ دینے سے رعایت کا تاثر جاتا ہے۔
جسٹس عیسیٰ نے آبزرویشن دی کہ آئین اعلیٰ عدالت کے ججوں کی خدمات کی شرائط و ضوابط طے کرتا ہے اور وہاں سے کسی چیز کو منہا کیا جاسکتا اور نہ ہی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے، مزید یہ کہ چونکہ طے شدہ شرائط و ضوابط ججوں کو پلاٹ حاصل کرنے کا اہل نہیں بناتے لہٰذا وہ فاؤنڈیشن یا کسی لازمی طور پر حاصل شدہ اراضی سے پلاٹ وصول کرنے کے حقدار نہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس عیسیٰ نے وضاحت کی کہ کسی کو ایک پلاٹ سے زیادہ کچھ نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ وصول کرسکتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ فاؤنڈیشن، حکومت یا حکومت کی جانب سے کنٹرول کی جانے والی کوئی بھی تنظیم دوسرا یا اضافی پلاٹ فراہم نہیں کرسکتی ہے، مزید یہ کہ مخصوص قانونی اجازت کے بغیر وزیر اعظم سمیت کوئی بھی فرد کسی کو بھی زمین، مکان یا اپارٹمنٹ دینے کا صوابدیدی اختیار نہیں رکھتا۔
جسٹس عیسیٰ نے وضاحت کی کہ مسلح افواج میں ملازمت کرنے والوں پر مختلف قوانین نافذ ہیں اور ان قوانین نے بھی یہ نہیں کہا کہ انہیں رہائشی پلاٹ، تجارتی پلاٹ یا زرعی اراضی دی جائے اور نہ ہی انہیں وصول کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس کے باوجود مسلح افواج کے سینئر ممبران کو پلاٹ اور زرعی اراضی مل جاتی ہیں اور جیسے، جیسے ان کے رینک میں اضافہ ہوتا ہے، انہیں اضافی پلاٹ اور زرعی اراضی دی جاتی رہتی ہے‘، مزید یہ کہ جنرل آصف نواز کے بھائی اپنی 655 صفحات پر مشتمل کتاب میں افواج پاکستان میں مراعات، ذاتی فوائد اور علمی بصیرت منظر عام پر لائے۔
جسٹس عیسیٰ نے یاد دلایا کہ جنرل ایوب خان سے قبل کس طرح دو برطانوی افسران نے پاکستان کے آرمی چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں اور جب جنرل گریسی پاک فوج کی کمانڈ کر رہے تھے تو جنرل ایوب خان نے ایک پلاٹ کی درخواست لے کر ان سے رجوع کیا لیکن اس وقت کے آرمی چیف نے ان کی سرزنش کردی تھی، ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک برطانوی افسر نے پاکستان کی سرزمین کو ایک دھرتی کے بیٹے سے بچایا، مزید یہ کہ مصنف نے سبسڈی والے پلاٹوں اور دیگر فوائد کی گرانٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “آہستہ آہستہ فوج کی اکثریت اس طرح کے تمام ‘پیارے’ سودوں کو قابل قبول بنانے کے لیے تبدیل کردی گئی‘‘۔
اسی طرح شجاع نواز نے اپنی کتاب کے باب ‘متحدہ پاکستان: ایک ملک کو کیسے توڑا’ میں لکھا ہے کہ متعدد پلاٹوں کا رواج عام ہو گیا تھا جس سے ایک نئے ‘استحقاق کی ثقافت’ پروان چڑھی جو فوجی اور سول بیورو کریسی دونوں میں شامل ہو گئی اور یہ پاکستانی معاشرے میں سرایت کر گئی۔
جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ سول سروس اور مسلح افواج کے جوان دونوں ہی پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں اور آئین نے ان کے مابین کوئی تفریق پیدا نہیں کی، سول اور مسلح افواج کے اہلکاروں کے لیے بنائے گئے قوانین انہیں رہائشی پلاٹ، تجارتی پلاٹ یا زرعی اراضی حاصل کرنے کا حق نہیں دیتے، اگر اراضی کو صرف ایک ہی زمرے میں دیا جائے جیسا کہ مسلح افواج کے جوانوں کو اور پاکستان کی خدمت کرنے والے عام شہریوں کو نظرانداز کیا جائے تو یہ امتیازی سلوک ہے اور اس سے مساوات کے بنیادی حق کو مجروح کیا جاتا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے جج نے آپزورویشن دی کہ مالی سال 21-2020 میں پینشن کی مد میں خرچ ہونے والی رقم 470 ارب روپے ہوگی جن میں سے 111 ارب روپے ریٹائرڈ شہریوں اور 359 ارب روپے مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکاروں پر خرچ ہوں گے، پینشن ادائیگیوں کی سالانہ لاگت ’سول حکومت کو چلانے‘ کی لاگت کے برابر ہے جو 476 ارب ہے اور پاکستانی عوام یہ پینشن ادا کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس میں سے خود بہت کم رقم ملتی ہے۔
جسٹس عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘پینشن وصول کرنے کے علاوہ سرکاری اراضی بھی لی جاتی ہیں جو سراسر غیر منصفانہ عمل ہے، پاکستان بری طرح مقروض ہے اور لوگ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے بڑی بڑی رقوم ادا کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اس مالی سال کے دوران 20 کھرب روپے سروسز کے قرض پر ادا کیے جائیں گے، اس بڑی رقم میں ایک بھی ڈالر، اسٹرلنگ، یان، یورو یا روپے کی ادائیگی شامل نہیں ہے اور حکومت مزید قرض لینا جاری رکھے ہوئے ہے، جسٹس عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اشرافیہ کی کرپشن نے ایک ‘شکاری ریاست’ پیدا کی ہے جس میں نجی اور عوامی مفادات کے مابین تقسیم کو بالکل ختم کردیا گیا ہے۔