ٹرمپ نے سیاسی حریف کے ساتھ ‘ورچوئل انتخابی مباحثے’ سے انکار کردیا
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی حریف اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے ساتھ ورچوئل انتخابی مباحثے سے انکار کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق امریکی صدر نے کہا ’میں ایک ورچوئل بحث پر اپنا وقت ضائع کرنے والا نہیں ہوں’۔
صدارتی مباحثوں کے انچارج نان پارٹیزن کمیشن کی جانب سے نئے فارمیٹ کے اعلان کے بعد فاکس بزنس کے ساتھ فون پر انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘ورچوئل بحث کوئی بحث نہیں ہوتی’۔
ٹرمپ نے کہا کہ ‘آپ ایک کمپیوٹر کے پیچھے بیٹھ کر مباحثہ کرتے ہیں، یہ مضحکہ خیز ہے اور وہ جب چاہیں آپ کی لائن کاٹ دیں’۔تحریر جاری ہے
امریکی صدر نے کہا کہ وہ اپنے حامیوں کے ساتھ انتخابی جلسوں کے انعقاد کے خواہشمند ہیں۔
دوسری جانب صدارتی انتخاب کے امیدوار جو بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ مباحثہ کمیشن کی سفارشات پر عمل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ اگر ٹرمپ نے حصہ لینے سے انکار کردیا تو وہ کیا اقدام کریں گے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ‘ہمیں نہیں معلوم کہ ٹرمپ کیا کرنے جا رہے ہیں کیونکہ وہ ہر سیکنڈ میں اپنا خیال بدلتے ہیں’۔
صدارتی مباحثوں سے متعلق کمیشن نے کہا کہ انہوں نے ٹاؤن ہال طرز پر مبنی گفتگو کی میزبانی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور رائے دہندگان اور ماڈریٹر میامی میں مباحثے کی اصل جگہ سے امیدواروں سے سوالات پوچھیں گے۔
ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان تین میں سے دوسرے کے لیے ورچوئل بحث کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جبکہ تیسرا انتخابی مباحثہ 22 اکتوبر کو متوقع ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے مابین 15 اکتوبر کو دوسرا سیاسی مباحثہ شیڈول ہے۔
دوسری جانب جو بائیڈن کے ایک معاون نے کہا کہ ڈیموکریٹک کے نامزد امیدوار ابھی بھی انتخابی مباحثے میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔
اس سے قبل جو بائیڈن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ انتخابی مباحثے سے انکار کردیا تھا۔
ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ‘اگر امریکی صدر کووڈ 19 کی وجہ سے بیمار رہے تو وہ اگلے ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ طے شدہ انتخابی مباحثے کا حصہ نہیں بنیں گے’۔
77 سالہ صدارتی امیدوار اور ٹرمپ کے سیاسی حریف نے کہا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ صحت سے متعلق تمام ایس او پیز پر عمل کریں۔
واضح رہے کہ 2 اکتوبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ ملانیا ٹرمپ کورونا وائرس کا شکار ہو گئے تھے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر امریکی صدر نے کورونا وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قرنطینہ میں جارہے ہیں۔
امریکی صدر میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد انہیں والٹر ریڈ ملٹری میڈیکل سینٹر منتقل کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں میڈیا پر امریکی صدر کی صحت سے متعلق متضاد خبریں گردش کر رہی تھیں۔
4 اکتوبر کو امریکی صدر کے معالجین نے کورونا وائرس سے متاثرہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طبیعت میں بہتری کا دعویٰ کیا تھا جبکہ ٹرمپ کی طبیعت سے آگاہی رکھنے والے ذرائع نے کہا تھا کہ ان کی بنیادی تشخیصی عناصر (وائٹل سائنز) کی علاماتیں تشویشناک ہیں اور اگلے 48 گھنٹے اہم ہیں۔
جب ابتدا میں وائرس امریکا پہنچا تو ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ جس طرح آیا ہے ویسے ہی غائب ہو جائے گا جبکہ وہ کئی مرتبہ عوامی مقامات پر ماسک نہ پہننے پر بھی تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔
ملک میں دوبارہ سے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود ٹرمپ نے اپنے گورنرز کو کہا تھا کہ وہ بڑھتی ہوئی اموات پر توجہ دینے کے بجائے دوبارہ کاروبار کھول کر معیشت کی بحالی کے لیے کوشش کریں۔
پہلا انتخابی مباحثہ
یاد رہے کہ 30 ستمبر کو ریپبلکن سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن کے درمیان ٹرمپ کی قیادت میں کورونا وائرس، معیشت اور سلامتی کے حوالے سے پالیسیوں پر زبردست مقابلہ دیکھا گیا تھا جس میں ذاتی توہین، ایک دوسرے کو مختلف ناموں سے پکارنا اور ٹرمپ کی بار بار دخل اندازی دیکھی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق ماڈریٹر کرس والیس بحث کا کنٹرول قائم کرنے میں ناکام نظر آئے۔
مباحثے کے پہلے حصے میں سپریم کورٹ کے حوالے سے گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی بار بار مداخلت سے پریشان جو بائیڈن نے ایک موقع پر کہا تھا ‘کیا تم اپنی بکواس بند رکھو گے؟ یہ بالکل غیر صدارتی ہے’۔
بعد ازاں انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا حوالہ دیتے ہوئے ‘پیوٹن کا کتا، مسخرا، نسل پرست’ کہا اور کہا تھا کہ ‘تم امریکا کے اب تک کے سب سے بدترین صدر ہو’۔