Site icon DUNYA PAKISTAN

اک ٹیس جگر سے اٹھتی ہے۔۔۔

Share

وہ جیل سے رہا ہونے کے بعد میرے گھر آیا اور بولا، جناب میری زندگی تباہ ہوچکی، نوکری کرنا چاہتا ہوں۔ زندگی بدلنا چاہتا ہوں میری مدد کیجیے۔

چھریرے بدن کا یہ 22سالہ نوجوان اسلام آباد کا رہائشی قاسم ستی تھا۔ تقریبا پانچ فٹ قد ، چہرے پرہلکی داڑھی اور گفتگو میں ایسی فصاحت کہ آپ حیران ہوجائیں۔ اس پر اسلام آباد پولیس نے سال2007 میں دھماکہ خیز مواد رکھنے اور پھر ایف ایٹ کچہری میں خودکش حملے کی معاونت کرنے جیسے دہشتگردی کے دو سنگین مقدمات قائم کیے تھے۔

اسے اگست2007 میں پکڑا گیا بعد میں گرفتاری ڈالی گئی اورپھر ایک کے بعد دوسرے کیس میں نامزد کیا گیا۔ دونوں کیسز دہشتگردی کی عدالت میں چلے جہاں کچھ ثابت نہ ہونے کے بعد اسے سال2010 میں رہا کردیا گیا۔

قاسم ایک دلچسپ انسان تھا، زندگی سے بھرپور، جیل میں کم وبیش تین سال قیام کے دوران وہ اپنا مطالعہ وسیع کرچکا تھا۔ توقع تو یہ تھی کہ جیل میں اس کی تعلیم کا سلسلہ رک جاتا مگر جیل کی کال کوٹھڑی اسے تعلیم سے دور نہ رکھ سکی۔ اس نے جیل سے ہی اپنے بھائی کے ہمراہ بی اے کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ قاسم کا بڑا بھائی فیصل ستی تھا۔

یہ نوجوان مذہبی آدمی تھا۔ 16 سال کا تھا کہ نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکہ سے جنگ کرنے افغانستان چلا گیا۔ وہاں سے واپس آیا تو گھر میں والد کی مدد کرنے لگا۔ اسے بھی قاسم کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔اسے آبپارہ میں خودکش حملے کے کیس میں نامزد کیا گیا۔ اس پر بھی کچھ ثابت نہیں ہوا اور وہ بھی قاسم کے ہمراہ ہی رہا ہوا۔

فیصل سے میری ملاقاتیں کم تھیں لیکن قاسم تو الگ ہی دنیا کا شخص تھا۔ اسے مقامی اوربین الاقوامی سیاست ، تنازعات ، دہشتگردی اور جہاد وغیرہ کے امورسے کافی آگہی تھی۔ان دنوں ملک میں دہشتگردی عروج پر تھی اور مجھے اس موضوع کوسمجھنے اور جاننے کا شوق قاسم کے اور قریب لے گیا۔

سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ وہ ایک عام انسان کے طور پر زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے دہشتگرد سمجھا یا بلایا جائے۔ وہ مجھے دو وجوہات سے جانتا تھا۔ اول یہ کہ جیلوں ، قیدیوں اور بالخصوص دہشتگردی کے الزامات میں قیدافراد کے بارے میں میری تحریریں جیل میں وہ پڑھتا رہا تھا۔ دوسری وجہ اس کے والد تھے۔

جن دنوں دونوں بھائی جیل میں قید تھے ان کے عمر رسیدہ والد ایک روز میرے پاس بھی مدد کے لیے آئے۔ ان دنوں میں ایک انگریزی ٹی وی چینل اور اخبار کے لیے کام کرتا تھا۔ میں نے کیس ضرورسنا مگر مدد اس لیے نہ کرسکا کیونکہ ان کا کیس ابھی عدالت میں تھا۔ قاسم سے ابتدائی ملاقاتوں کے بعد پہلے یہ اطمینان کیا کہ کہیں وہ کسی ایسی ویسی سرگرمی میں تو شامل نہیں۔ پھرچند دوستوں سے اس کی نوکری کی درخواست کی مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ دراصل کاروباری لوگ اس کا پس منظر سنتے تو ڈرجاتے۔

ان دنوں میں اپنی کتاب لکھ رہا تھا جوتھی تو تکمیل کے آخری مراحل میں لیکن پھر بھی ریسرچرکے طورپر میں نے قاسم کو اپنے ساتھ رکھ لیا۔ وہ کتاب کا متن پڑھتا، اس میں غلطیوں کی نشاندہی کرتا جنہیں میں ٹھیک کرتا۔ یوں ہم دونوں کا کام چلتا۔

میری کوششیں تو بارآورثابت نہ ہوئیں لیکن قاسم کو اسلامی یونیورسٹی میں نوکری مل گئی۔ جہاں اس نے نوکری کے ساتھ یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں ماسٹرز ڈگری کے لیے بھی داخلہ لے لیا۔ کچھ ہی دنوں میں قاسم کی شادی بھی ہو گئی۔شادی کے بعد قاسم سے میری شب وروز ملاقاتوں میں کمی آگئی۔ وہ زیادہ وقت خاندان کو دینے لگا اور میں مطمئن ہوگیا کہ چلواس کی زندگی نے سمت اختیار کرلی۔ پھر قاسم کے ہاں ایک پیاری سی بیٹی پیدا ہوئی اور وہ بیٹی کے ساتھ اور بھی مگن ہوگیا۔

اسی اثنا میں سال 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشتگردی کا واقعہ رونما ہوا تو ملک بھر سے ان تمام لوگوںکو اٹھائے جانے کی خبر آنے لگی جن کے نام ماضی میں کسی بھی قسم کے دہشتگردی کے واقعے سے جڑے تھے۔

قاسم نے مجھ سے ملاقات کرکے پریشانی کا اظہارکیا تو میں نے یہ کہتے ہوئے تسلی دی کہ تم اور تمہارابھائی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں تو پھر ڈر کس بات کا ہے، وہ بھی مطمئن ہوگیا۔ دن گزرنے لگے۔فروری2016 میں مجھ سےقاسم کے والد نے رابطہ کیا اور بتایا کہ قاسم اور فیصل دونوں کو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے اٹھا لیا ہے۔ انہوں نے پولیس اور پھر لاپتہ افرادکمیشن کے دفاتر رابطہ کیا۔ پولیس نے مقدمہ درج نہ کیا مگرکمیشن کی مداخلت سے مئی میں مقدمہ درج ہوگیا۔

میرا خیال تھا کہ یہ خبر میڈیا میں جاری کرنا چاہیے مگر قاسم کے والد مجھ سے متفق نہیں تھے۔ معاملہ یونہی چلتا رہا۔ کمیشن نے دسمبر 2017 کو دونوں بھائیوں کو پیش کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔ مگر کچھ نہ ہوا۔ میں نے بھی سعی کی۔ اس وقت کے وزیرداخلہ سے بات کی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

اس دوران ہر روز جب میں گھر سے نکلتا تو جونہی میرا گزرقاسم کے گھرکی گلی کے سامنے سے ہوتا توجگر میں اک ٹیس سی اُٹھتی، اگلے روز میں قاسم کے گھر گیا تو دروازے پر قاسم کے والد کے ہمراہ ایک چارسالہ بچی نے میرا استقبال کیا اور پوچھا آپ کدھرہوتے ہیں؟ یہ بچی قاسم کی بیٹی تھی۔ میں اپنا دل تھام کر رہ گیا کہ ایک ماہ کی بچی اب ماشااللہ باتیں کرتی، کھیلتی اور دنیا کو جاننے کی کوشش کرتی ہے۔

نجانے اس کا باپ قاسم اور تایا فیصل کہاں ہیں؟ قاسم کے والد سے مل کر میں تو واپس آگیا لیکن جگر میں اٹھنے والی ٹیس اب شدت اختیار کر گئی ہے۔

Exit mobile version