مردہ آدمی کی ہنسی سے خوفزدہ ادیب
ستمبر 1953 میں حسن عسکری نے ’ساقی‘ میں ایک مختصر سا نوٹ لکھا، ’اردو ادب کی موت‘۔ عسکری صاحب نے محض ایک ادبی تاثر رقم کیا تھا مگر اس پر کراچی سے لاہور تک تتیئے لگ گئے۔ اس ردعمل کی وجہ یہ تھی کہ ادیب ابھی زندہ تھا۔ ادب کی موت کا اعلان ایک پیرائیہ اظہار سے زیادہ کچھ نہیں۔ تخلیق کی مانگ سونی نہیں رہا کرتی۔ پرندے سبز پتوں میں ڈھکی ٹہنیوں پر گا رہے ہیں، پہاڑی ڈھلانوں پر سینہ سپر چٹانوں سے ٹکراتے چشمے بدستور دریاؤں کی جانب ہمک رہے ہیں تو گیت اور افسانہ زندہ ہیں۔ اگر میں اور آپ نہیں لکھیں گے تو کہیں نہ کہیں کوئی آشفتہ سر خلق خدا کے دکھ، محبتیں اور خواب لکھتا رہے گا۔ ادب کو موت نہیں آتی، ادیب کی نبض کا امتحان البتہ کرتے رہنا چاہئے۔
محترم نواز شریف نے لندن میں کہا ہے کہ ’’سیاسی قافلہ میدان میں نکل آیا ہے، صحافیوں کو بھی قوم کے حق میں آواز اٹھانی چاہئے‘‘۔ توجہ فرمائیے کہ نواز شریف نے صحافیوں کو صلائے جہد دی ہے، ادیب کا ذکر نہیں کیا۔ درویش، اللہ کے فضل سے، صحافی ہے نہ ادیب۔ قلم کو دردِ دروں کی زباں جانا تھا، خواہی اسے پارہ نان کا وسیلہ کہو، خواہی بے خواب رات کی خود کلامی۔ کالم نگار تو الاؤ اور منجدھار سے پرے بیٹھ کر قافلہ سخت جاں کا تماشا کرنے والے سرہنگ زادے ہوا کرتے ہیں۔ محمد انور خالد شعر میں تاریخ اور فلسفے کو ایسا برتتے تھے کہ باید و شاید۔ اگست 2005ء میں محض باون برس کی عمر میں رخصت ہو گئے۔ انور خالد نے افتخار جالب کی وفات پر لکھا تھا،
اے رفیقِ شبِ آزار و الم
پہلے ہر شہر میں کچھ لوگ ہوا کرتے تھے
اب کہیں کوئی نہیں
دھوپ سے رنگ اڑا جاتا ہے میدانوں کا
یہ نظم پڑھتے ہوئے خیال آیا، اس ملک میں شیخ صلاح الدین ہوا کرتے تھے۔ ناصر اور انتظار کے رفیق شب نوردی۔ صلاح الدین محمود ہوتے تھے، شجر، پرندے، بیج اور راہوار کی لغت میں جہان گزراں کو غزل میں باندھنے والے۔ محمد صلاح الدین تھے جو میرٹھ سے چل کر کراچی کے مقتل میں تکبیر کہنے آئے تھے۔ مولانا صلاح الدین احمد تھے جو جنوری 1959 کے شمشان گھاٹ میں ایوب خان کو للکارنے کی ہمت رکھتے تھے۔ ایک صلاح الدین کے نام سے اتنے چراغ تو گن لئے۔ اس زمین کے چپے چپے میں جواہر دفن ہیں۔ کل آٹھ اکتوبر کا دن گزرا۔ یہی تو مشکل ہے۔ کسی قوم پر آٹھ اکتوبر اتر آئے تو آسانی سے نہیں گزرتا۔ نسلیں صرف ہوتی ہیں۔ دیکھیے، راشد، فیض، عسکری، جالب اور شہیداللہ قیصر کے اسالیب الگ الگ تھے مگر آٹھ اکتوبر کی مزاحمت میں سب یک زباں تھے۔ حوالے دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اول، آپ سب جانتے ہیں۔ دوم، کالم کا دامن تنگ ہے۔ تیسری وجہ میر شکیل الرحمن سے پوچھ لیجئے گا جب انہیں رہائی ملے۔
صحافت اور ادب میں لفظ کا وسیلہ مشترک ہے، کار منصبی میں کچھ فرق ہے۔ صحافت خبر دیتی ہے۔ درست خبر کی بروقت ترسیل سے تاریخ کا رخ بدل جاتا ہے۔ ادب خبر کے پشتارے کو مرتب کر کے بنیادی سوال تلاش کرتا ہے اور اسے نشان راہ کی صورت تاریخ کی شاہراہ پر نصب کر دیتا ہے۔ صحافت تمدنی خدمت ہے، اپنے عہد میں زمین کا حقیقی دکھ بیان کرنا ادیب کا وجودی تقاضا ہے۔ میاں نواز شریف سیاست دان ہیں، اہل صحافت سے ان کا تقاضا قابل فہم ہے۔ درویش کی رائے میں صحافت تو اس ملک میں حسب توفیق بدستور پنجہ آزما ہے، صحافی کے کندھے سے ادیب کا ہاتھ اٹھ گیا ہے۔ آج کے انور سجاد، فہمیدہ ریاض، منو بھائی اور اختر حسین جعفری کہاں ہیں؟ ادیب تو گھاس کی پتی کا دکھ سن لیتا ہے، تتلی کے پروں کی طاقت جانتا ہے، گھوڑے کی آنکھ میں اداسی پڑھ لیتا ہے۔ ہمارے ادیب کو خبر نہیں کہ انصاف کی دلہن کے گل چیں سینہ گیتی پر دندنا رہے ہیں۔ خون عدل کے چھینٹے دارالحکومت کے کمرہ نمبر ایک سے لاہور میں نصب ترازو تک، کوئٹہ پریس کلب سے کراچی کے خاک آلود گوٹھوں تک، پٹارو جام شورو سے میر علی وزیرستان تک جگہ جگہ ارزاں ہو رہے ہیں۔ شہری کے سر کا منڈاسا کھل کر گلے میں آ گرا ہے، ردائے بانو گرد آلود ہو گئی ہے، وطن بے توقیر ہو رہا ہے۔ صحافی تو دو سالہ بچی، گیارہ سالہ بچے اور 22 سالہ طالبہ کی خبر دے رہا ہے، وہ ادیب کہاں ہے جو جرم کے مفرد واقعے کو اجتماعی، مرکب اور حتمی جرم کے چوکھٹے میں بیان کرے؟ کیا ادیب مرد و زن کا ارتباط ہی بیان کرے گا یا خلوت کی اس تفصیل کو گلی کوچوں میں احترام، تحفظ، آسودگی اور خوشی کی سرگم سے معنی بھی دینا چاہے گا؟ میکارتھی ازم سے آئزن ہاور اکیلا نہیں نمٹ سکتا، آرتھر ملر کی ضرورت پڑتی ہے۔ غلاموں کی آزادی کا اعلان ابراہم لنکن نے نہیں، ہیرٹ بیچر اسٹو نے انکل ٹامز کیبن کی صورت میں لکھا تھا۔ شہری مساوات کے مسودۂ قانون پر لنڈن جانسن نے محض دستخط کئے تھے، اسے کارل گنزبرگ کی نظم Howl نے مرتب کیا تھا۔ دیوار برلن نومبر 1989 میں منہدم نہیں ہوئی، اس آہنی پردے پر آنا اخماتووا، مینڈل سٹام، پاسٹرناک، سولزے نتسن اور کنڈیرا مسلسل پھاوڑا چلا رہے تھے۔ صحافی کی خبر روکی جا سکتی ہے، ٹیلی وژن اسکرین تاریک کی جا سکتی ہے، شعر کا نشتر سنسر نہیں کیا جا سکتا، ناول کا استعارہ نظر بند نہیں کیا جا سکتا، پوچھنا مگر یہ ہے کہ کیا ہمارا ادیب لمحہ موجود کے تضاد سے آگاہ ہے؟ کیا ہمارا ادیب لفظ کی قیمت چکانے پر آمادہ ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے ادیب نے اقتدار کی زور آوری سے ہار مان لی ہے، ہجوم کے تعصب میں پناہ لے لی ہے، آگہی کے بحران کو فنکار کی بے نیازی سمجھ لیا ہے۔ ثروت حسین نے لکھا تھا، ’’مجھے مردہ آدمی کی ہنسی سے خوف آتا ہے‘‘۔ ادیب اپنے خوف کو پہچان کر ہی اس سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ حسن عسکری نے ادب کی موت کا اعلان کیا تھا، خدا ناکردہ، آنے والی نسلیں ہمارے ادیب کی موت کا اعلان کریں۔