پاکستانی حکام نے مختصر دورانیے کی ویڈیوز کی ایپ ٹک ٹاک پر’غیر اخلاقی مواد’ کی شکایات موصول ہونے کے باعث پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
پاکستان میں مواصلات کے ریگولیٹری ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے اس بارے میں باضابطہ طور پر اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔
ادارے نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ‘معاشرے کے مختلف طبقات’ کی جانب سے اس ایپ پر موجود مواد کے خلاف شکایات کی گئی تھیں۔
ٹک ٹاک کی جانب سے اس پابندی پر فوری طور پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
پی ٹی اے کے مطابق ادارے کی جانب سے ٹک ٹاک پر شائع کیے جانے والے مواد اور اس حوالے سے شکایات کی نوعیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایپلیکیشن کو حتمی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
ادارے نے مؤقف اپنایا ہے کہ اس نے ٹک ٹاک کو جواب دینے اور ‘غیر قانونی آن لائن مواد’ کو متحرک انداز میں روکنے کے لیے ‘ایک مؤثر طریقہ کار’ وضع کرنے کی خاطر کافی وقت دیا تھا، تاہم یہ ایپ ان ہدایات پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کر سکی۔
چنانچہ حکام کے مطابق ملک میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک کو بتا دیا گیا ہے کہ پی ٹی اے مذاکرات اور اپنے فیصلے پر نظرِثانی کے لیے تیار ہے۔ تاہم اس کے لیے ٹک ٹاک کو غیر قانونی مواد کے خلاف ایک اطمینان بخش طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں ماہانہ دو کروڑ افراد ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔
پی ٹی اے کی جانب سے رواں سال 20 جولائی کو بیگو پر بھی ‘غیر اخلاقی، فحش، اور غیر مہذب’ مواد کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ٹک ٹاک کو بھی حتمی وارننگ جاری کر دی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
تنقید اور تنازعات میں گھری ایپ ٹک ٹاک پاکستان کی قومی ائیرلائن کے عملے کی معطلی کی وجہ بنی تو کبھی حریم شاہ کی وزارت داخلہ میں داخلے پر انکوئری کی گئی۔ لیکن اس ایپ کا جادو دیکھیے کہ روز بروز اس کے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اور پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں ماہانہ دو کروڑ افراد ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں پابندی کی خبر کے بعد ٹک ٹاک ٹرینڈ کر رہا ہے اور لوگ شکایت، حکام پر تنقید اور میمز شیئر کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ جولائی میں انڈین حکومت نے ٹک ٹاک سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ اس تناظر میں کئی افراد طنزیہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ کوئی تو ایسا موضوع ہے جس پر دونوں ممالک متحد ہوئے ہیں۔
آکاش ورما نامی صارف نے لکھا کہ ’سرحدوں کی وجہ سے جدا لیکن ٹک ٹاک کے ذریعے پیسہ کمانے والوں کو بیروزگار کرنے میں متحد‘۔
اس ٹویٹ کے جواب میں شبنم نامہ صارف نے لکھا کہ ’پہلی بار تاریخ میں دونوں ملکوں کو کسی چیز نے متحد کیا ہے‘۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے زیادہ مواقع دستیاب نہیں ہیں، وہاں ٹک ٹاک ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتا رہا ہے جہاں نوجوان اپنے فن کا اظہار کرتے دکھائی دیے اور خاص کر کہ دور دراز کے دیہی علاقوں سے ایسے ایسے ویڈیوز سامنے آئے جنہوں نے لوگوں کو حیران کر دیا۔
اس تناظر میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کی کہ انھیں اس بات پر بہت حیرانی ہوئی تھی کہ ٹک ٹاک پاکستان کے دور دراز دیہی علاقوں میں کس طرح استعمال کیا جا رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف لوگ کمائی کر سکتے تھے بلکہ کھل کر حکومتی پالیسیوں پر تنقید بھی کر رہے تھے۔ انوں نے اس پابندی پر عمران خان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
میاں عمر نامی صارف نے وبا کے دوران قرنطینہ کے دنوں میں بوریت مٹانے پر کئی ٹک ٹاکرز کی تصاویر کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ ان پر کئی وجوہات کی وجہ سے تنقید کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمیں انٹرٹینمینٹ فراہم کرتے ہیں۔‘
جہاں لوگوں کو شکایت ہے وہیں کئی افراد سکھ کا سانس لیتے اور پی ٹی اے کے اس اقدام کو سراہتے بھی نظر آئے۔
امریکہ اور انڈیا میں بھی ٹک ٹاک پر پابندی
رواں سال اگست میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس کے ساتھ کسی قسم کی لین دین پر پابندی ہوگی۔
اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کو قومی سلامتی کے پیشِ نظر ٹک ٹاک کے مالکان کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنا ہوگی۔
ٹک ٹاک ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ اس کے ڈیٹا پر چینی حکومت کا کنٹرول ہے یا اس تک چینی حکومت کو رسائی حاصل ہے۔
ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس نے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ تقریباً ایک سال تک مذاکرات کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں اپنایا گیا اور ان کا سامنا ایک ایسی انتظامیہ سے ہوا جو ‘حقائق کو چنداں توجہ’ نہیں دیتی۔
اس کے علاوہ جولائی میں انڈین حکومت نے ٹک ٹاک سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
چین کے ساتھ لداخ کے سرحدی علاقے میں کشیدگی کے دوران انڈین حکومت نے اس فیصلے کو ایمرجنسی حل اور قومی سلامتی کے لیے ضروری قدم بتایا ہے۔
انڈیا کے وزیر اطلاعات اور نشریات روی شنکر پرساد نے اس وقت اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ‘یہ پابندی سکیورٹی، خود مختاری اور سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ ہم انڈین شہریوں کے ڈیٹا اور پرائیویسی میں کسی طرح کی جاسوسی نہیں چاہتے ہیں۔’