کچھ لوگ بےتکلف ہونے میں کوئی جواب نہیں رکھتے، وہ منٹوں سیکنڈوں میں بےتکلف ہو جاتے ہیں اور آپ اُن کا منہ ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایک صاحب مجھے برخورداروں کی طرح ملا کرتے تھے، پھر یوں ہوا کہ ملاقات میں کچھ وقفہ پڑ گیا۔ چنانچہ کوئی دو سال بعد اُن سے سرراہے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے مجھے ایک دو ہتڑ رسید کیا اور قہقہہ لگا کر کہا ’’یار تُوں ملدا ای نئیں‘‘۔ میں اُن کے اِس اچانک حملے سے گھبرا گیا اور پیشتر اِس کے کہ کوئی ’’مناسب‘‘ سا جواب دیتا، اُنہوں نے مجھے پریشان دیکھ کر مزید ارشاد فرمایا ’’کیہہ گل اے، توں وڈا آدمی ہو گیا ایں‘‘ اور پھر اُنہوں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا ’’اے اوہوای روزنِ دیوار والا اے، پر اپنا یار اے، خیر بھئی کدی ملاقات ہونی چائی دی اے‘‘، اور اُس کے بعد یہ صاحب میری بےتکلفی کا مظاہرہ دیکھے بغیر مجھے ایک دو ہتڑ مزید رسید کر کے آگے بڑھ گئے۔
خیر افراد سے بےتکلفی کا مظاہرہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ کچھ لوگ تو موسموں کے ساتھ بےتکلفی سے بھی باز نہیں آتے۔ میرے ایک دوست ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں اور اُن کی موسم کے ساتھ بےتکلفی خاصی منفرد قسم کی ہے۔ مثلاً موصوف اپنے ٹھنڈے ٹھار کمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں، باہر گرمی ہے اور اچانک اُن کے پائوں کی تلی میں خارش ہوتی ہے اور یہ موسم کو دوہتڑ رسید کرنے اور اُس سے یہ پوچھنے کے لئے کہ ’’یار توں کدی ملدا ای نئیں‘‘، گھر سے نکل کر باہر سڑک پر آ جاتے ہیں مگر موسم اُن صاحب سے زیادہ ستم ظریف ہے۔ چنانچہ وہ بڑھ کر اُن سے معانقہ کرتا ہے اور یہ وہ معانقہ ہے جس کے لئے زیادہ مناسب لفظ ’’جن جپھا‘‘ ہے، جس پر یہ صاحب خاصے تلملاتے ہیں مگر موسم کی بےتکلفی اُس کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ اُنہیں گرمی کے دو چار تھپیڑے بھی رسید کرتا ہے اور یوں اُنہیں چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے، جس پر میرے یہ دوست اپنی بےتکلفی کی اس عادت پر لعنت بھیجتے ہیں اور واپس اپنے ٹھنڈے کمرے میں آ کر پناہ لیتے ہیں مگر اُن کی یہ پسپائی عارضی ہوتی ہے کیونکہ موسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے لئے تھوڑی دیر بعد وہ پھر باہر سڑک پر آ جاتے ہیں، اُن سے زیادہ ’’بےتکلف موسم اُن کے استقبال کے لئے‘‘ اٹینشن کھڑا ہوتا ہے۔
میرے دوست سینمائوں کی کثرت کے زمانے میں بےتکلفی کا مظاہرہ کرنے کے لئے اکثر نو سے بارہ بجے کا فلم شو باریک سی قمیص اور اِس سے زیادہ باریک دھوتی پہن کر دیکھنے جاتے۔ سینما ہال میں تو خیر اُن کی بچت ہو جاتی کیونکہ اسکرین پر نظر آنے والے مناظر اور ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی گرم سانسیں اُنہیں موسم کے حملے سے محفوظ رکھتیں لیکن جب یہ فلم دیکھ کر باہر نکلتے ہیں تو موسم اُن کے ساتھ بےتکلفی پر اُتر آتا اور یہ بھی اکڑ اکڑ کر چلتے ہوئے اُس کے ساتھ چُلیں کرتے رہتے مگر جب مین روڈ کے ہجوم اور روشنیوں سے نکل کر یہ کسی تاریک گلی میں داخل ہوتے تو فوراً بغلوں میں ہاتھ دے کر سُو سُو کرتے ہوئے جھک کر چلنا شروع کرتے ، جس کا مطلب موسم سے یہ گزارش کرنا ہوتا کہ بھائی بہت مذاق ہو گیا، اب جان چھوڑو مگر موسم جان نہیں چھوڑتا بلکہ ہوتا یوں کہ موصوف بغلوں میں ہاتھ دیے سُو سُو کرتے، کبے ہو کر چل رہے ہوتے کہ اچانک کوئی راہگیر سامنے آ جاتا اور پوچھتا پہلوان جی ٹیم کی کیتا جے؟ جس پر یہ بغلوں سے ہاتھ نکال کر چلنا شروع کر دیتے اور آواز کی کپکپاہٹ پر قابو پا کر کہتے ’’اک وجن والا اے بھئی‘‘ اور پھر یوں ہوتا کہ گھر پہنچ کر انہیں زکام ہو جاتا لیکن اگلے روز یہ موسم کے ساتھ بےتکلفی کا مظاہرہ کرنے کے لئے پھر اُسی باریک سی قمیص اور باریک سی دھوتی میں گھر سے نکل پڑتے ۔
کچھ اس قسم کا رویہ میرے اس دوست کا موسمِ برسات کے ساتھ بھی ہے۔ پہلے بارش کا انتظار کرتے ہیں، اُس کے بعد کیچڑ کا اور جب دیکھتے ہیں کہ اب چاروں طرف کیچڑ ہے تو موصوف ہوائی چپل پہن کر گھر سے باہر نکل آتے ہیں اور یہ تو میں سب جانتا ہوں کہ تمام موسموں میں موسمِ برسات سب سے زیادہ بےتکلف موسم ہے چنانچہ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ اُن کا پائوں آگے کی طرف جا رہا ہے لیکن دھڑ پیچھے کی طرف آ رہا ہے۔ موصوف کو یہ چال غالباً زیادہ پسند ہے کیونکہ کیچڑ میں لت پت ہو کر گھر پہنچتے ہیں تو اگلے روز پھر بارش کا انتظار کرتے ہیں، اُس کے بعد یہ کیچڑ کے لئے ہوائی چپل پہن کر گھر سے باہر نکل آتے ہیں۔ ایک روز میں نے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ ’’یار تم موسموں کے ساتھ بےتکلفی سے باز نہیں آ سکتے؟‘‘ جس پر اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’یہ بات تم موسموں سے کیوں نہیں کہتے؟ تم دیکھتے نہیں ہر موسم دادا گیری کرتا ہے۔ نہ گرمی جینے دیتی ہے، نہ سردی جینے دیتی ہے اور نہ برسات چین لینے دیتی ہے، اِن سب موسموں کے نام الگ الگ ہیں مگر کام ایک ہی ہے اور وہ ہے خلقِ خدا کو عذاب میں مبتلا کرنا! اِنہیں سمجھائو، میں خود ہی سمجھ جائوں گا‘‘۔ اب اُنہیں کون سمجھائے کہ موسم اتنے سمجھ دار نہیں ہوتے۔ اگر یہ سمجھ دار ہوتے تو اُنہیں سمجھانے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ یہ بات موسم بھی جانتے ہیں کہ کوئی موسم سدا نہیں رہتا۔ اُس کے باوجود اگر یہ اپنی چیرہ دستیوں سے باز نہیں آتے تو یہ بادچھا لوگ ہیں اور ’’بادچھا‘‘ لوگوں کو کون سمجھا سکتا ہے؟