Site icon DUNYA PAKISTAN

نواز شریف کے علاوہ دیگر کے نام ایف آئی آر سے حذف

Share

پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے خلاف حال ہی میں لاہور کے شاہدرہ پولیس اسٹیشن میں ‘غداری’ اور ‘بغاوت پر اکسانے’ کے الزامات میں درج کیے جانے والا مقدمہ برقرار رکھا گیا ہے تاہم اس میں نامزد دیگر رہنماؤں کے نام حذف کر دیے گئے ہیں۔

پنجاب پولیس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کی جانب سے تشکیل دی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے ابتدائی تحقیقات کے بعد ایف آئی آر میں سے چند دفعات کو بھی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان دفعات میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 121A ت پ، 123A ت پ، 124ت پ اور 153A شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ ان تمام دفعات کا تعلق ریاست کے خلاف جرائم جو غداری یا بغاوت وغیرہ کے زمرے میں آتے ہیں اور ایسے جرائم میں کسی عام شہری کی درخواست پر ریاست کی اجازت کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔

نواز شریف اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 120، 120 اے، 120 بی، 121، 121 اے (ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانا)، 123 اے، 124، 124 اے (غداری)، 153، 153 اے، 505 اور سائبر کرائم ایکٹ پیکا کی دفعہ دس بھی شامل ہے۔

پولیس کے جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کے حکم سے قائم شدہ سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے بدر رشید نامی شہری کی جانب سے تھانہ شاہدرہ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف درج مقدمہ کی تفتیش شروع کر دی ہے۔

‘سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے تفتیش کرتے ہوئے سب سے پہلے مقدمہ میں مدعی مقدمہ کا بیان قلم بند کیا اور اس کے بعد ایف آئی آر کی تحریر سے مطابقت نہ رکھنے والی دفعات کو حذف کر دیا۔’

ساتھ ہی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے ان دو ویڈیو بیانات کا جائزہ بھی لیا جن کے حوالے سے نواز شریف اور دیگر پر الزامات عائد کیے گئے تھے۔

‘مدعی مقدمہ کا بیان اور ان دونوں ویڈیو بیانات کا جائزہ لینے کے بعد پولیس ٹیم اس نتیجہ پر پہنچی کہ ایف آئی آر میں نامزد دیگر رہنماؤں کے خلاف شواہد ناکافی ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔’

نواز شریف کے علاوہ جن رہنماؤوں کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا ان میں راجہ ظفر الحق، سردار ایاز صادق، شاہد خاقان عباسی، خرم دستگیر، سینٹر جنرل ریٹائرڈ عبدل قیوم، سلیم ضیاء ، اقبال ظفر جھگڑا، صلاح الدین ترمذی، مریم نواز شریف، احسن اقبال، شیخ آفتاب احمد، پرویز رشید، خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ شامل تھے۔

ان کے علاوہ ن لیگ کے رہنماؤں میں بیگم نجمہ حمید، بیگم ذکیہ شاہ نواز، طارق رزاق چوہدری، سردار یعقوب نثار، نوابزادہ چنگیز مری، مفتاح اسماعیل، طارق فزاق چوہدری، محمد زبیر، عبدالقادر بلوچ، شزا فاطمہ خواجہ، مرتضیٰ جاوید عباسی، مہتاب عباسی، میاں جاوید لطیف، مریم اورنگزیب، عطااللہ تارڑ، چوہدری برجیس طاہر، چوہدری محمد جعفر اقبال، عظمیٰ بخاری، شائستہ پرویز ملک، سائرہ افضل تارڑ، بیگم عشرت اشرف، وحید عالم، راحیلہ دورانی بلوچستان، دانیال عزیز،راجہ فاروق حیدر، خواجہ سعدرفیق، امیر مقام اور عرفان صدیقی وغیرہ کے نام بھی شامل تھے۔

انویسٹیگیشن ونگ پنجاب پولیس لاہور کے مطابق ان تبدیلیوں کے بعد ‘باقی مقدمے کی تفتیش قانون، شواہد اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق مکمل کی جائے گی۔’

ایف آئی آر کی قانونی حیثیت

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بغاوت کے مقدمے کے اندراج پر بی بی سی بات کرتے ہوئے قانونی ماہر اسد جمال کا کہنا تھا کہ ‘ایف آئی آر میں درج دفعات بنیادی طور پر ریاست کے خلاف جرم کی ہیں

اور ایسے مقدمات میں عام شہری کی درخواست پر ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔

تاہم ان کے مطابق پاکستان میں اس قسم کے سنگین مقدمات عام شہریوں کی جانب سے جمع کروائی جانے والی درخواستوں کی بنیاد پر درج کیے جانے کی روایات موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے یا نہیں اس حوالے سے قانون میں ابہام ہے تاہم قانون میں یہ لکھا ہے کہ یہ دفعات عدالت کے اختیارِ سماعت میں نہیں آتیں۔

اسد جمال کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ملک کی عدالتیں دو قسم کی رائے رکھتی ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ عدالت کی سماعت کے دائرہ اختیار میں نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ایف آئی درج نہیں ہو سکتی۔

تاہم ایسے فیصلے بھی موجود ہیں جن میں عدالت نے یہ کہا ہے کہ عام شہری کی درخواست پر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی کیونکہ کسی ایف آئی آر کا مطلب ہے کہ معاملہ عدالت کے لیے سماعت کے قابل ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اصولاً ان دفعات کے تحت مقدمات کے اندراج کے لیے ریاست کے ذمہ دار ادارے سے اجازت لینا ضروری ہے۔’

ایف آئی آر کی قانونی حیثیت

،تصویر کا کیپشنوزیر اعظم عمران خان: نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے، یہی الطاف حسین نے کیا تھا

اسد جمال کے مطابق اس طرح ایک عام شہری مقدمے کے لیے درخواست دے سکتا ہے تاہم اس کو متعلقہ ادارے کو بھجوایا جانا ضروری ہے اور اس کے بعد ریاست اگر سمجھے کے الزامات اس نوعیت کے ہیں تو ریاست کے خلاف جرائم کے قانون کے تحت کارروائی کر سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح سائبر کرائم ایکٹ پیکا کے تحت مقدمہ درج کرنے کے حوالے سے بھی پہلے مجسٹریٹ سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اسد جمال کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے اس قسم کے مقدمات دیکھنے میں آ رہے ہیں جو عام شہریوں کی طرف سے درخواست پر درج کیے جاتے ہیں اور ان کا مقصد آواز اور آزادی رائے کو دبانا ہے۔‘

بشکریہ بی بی سی اُردو

Exit mobile version