Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے غیر ملکی لوٹنے پر مجبور

Share

لیگیا اور رابرٹ اپنے دس ماہ کے بیٹے کے ساتھ ایک تصویر کھینچوانا چاہتے تھے تاکہ وہ دبئی میں گزارے اپنے خوشگوار وقت کو یاد کر سکیں۔

انھوں نے یہ تصویر ایک پیشہ ور فوٹوگرافر سے ساحلِ سمندر پر کھینچوائی جہاں تصویر میں ان کے پیچھے برج العرب ہوٹل دیکھا جا سکتا ہے۔

اس شہر میں جہاں لیگیا اور رابرٹ نے گذشتہ دس سال گزارے ہیں، انھیں ایک دوسرے سے محبت ہوئی، انھوں نے فیملی شروع کی، آج وہ اس کو چھوڑ رہے ہیں۔

لیگیا اور رابرٹ دونوں ٹریول انڈسٹری سے منسلک تھے اور کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے ان کی نوکریاں ختم ہو گئیں۔

اپنی بہترین کوششوں کے باوجود انھیں یہاں نئی نوکریاں نہیں ملیں اور اب وہ اپنے آبائی ملک برازیل لوٹنے پر مجبور ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے ہمیشہ سوچا کہ ہماری بیٹی یہاں ہی بڑی ہوگی مگر ہمارے پاس کوئی آمدنی نہیں ہے۔ ہم یہاں رہ نہیں سکتے۔‘

یہی مسئلہ متحدہ عرب امارات میں ہزاروں تارکینِ وطن مزدوروں کا ہے۔

ان میں سے بہت سے لوگ کئی دہائیوں سے اس ملک میں ہیں مگر مستقل رہائش یا شہریت حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے پاس واپس جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

جب فوٹوگرافر پؤلا ہینی کو ان مسائل کا پتا چلا تو انھوں نے ملک چھوڑنے کی تیاری کر رہے تارکینِ وطن کو مفت فوٹو سوٹ آفر کیے۔ وہ حیران ہوئیں کہ اس پیشکش کے لیے انھیں بہت سے لوگوں کا پیغام آیا۔ وہ کہتی ہیں ’بہت سے خاندان یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ مگر عموماً وہ واپس جاتے تب ہیں جب وہ جانا چاہتے ہیں۔ مگر اس بار وہ واپس جانے پر مجبور ہیں۔ اسی لیے ان تصاویر میں جذبات بالکل مختلف ہیں۔‘

برطانوی تجزیہ کار کمپنی آکسفورڈ اکانومکس کا اندازہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں نو لاکھ نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں اور ایک کروڑ سے کم آبادی والے اس ملک میں یعنی 10 فیصد تک لوگوں کو چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔

اور یہ بات نہیں کہ صرف تعلیم یافتہ لوگ کو یہ مشکلات ہو رہی ہیں۔ بلو کالر یعنی مزدور طبقے کو بھی یہی مشکلات ہو رہی ہیں۔

گذشتہ ماہ مومن بنگلہ دیش لوٹے ہیں۔ انھوں نے متحدہ عرب امارات میں آٹھ سال تعمیراتی شعبے میں گزارے۔

مارچ میں وہ جس پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے، وہ رک گیا جب ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے پہلی ہلاکت ہوئی۔

ایک مہینے بعد ان کو بتایا گیا کہ جن کی وہ ملازمت کر رہے ہیں وہ ان کی تنخواہ نہیں دے سکیں گے مگر جب تک وہ اپنے گھروں لوٹ نہیں سکتے، کمپنی انھیں لیبر کیمپ میں رہنے دے گی۔

وہ کہتے ہیں ’میں اپنی فیملی کا ذریعہِ آمدن تھا اور اب بنگلہ دیش میں اس وبا کی وجہ سے نوکری ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔‘

متحدہ عرب امارات کا معاشی ماڈل ان غیر ملکیوں کی بنیاد پر کھڑا تھا جو کہ ملک کی نوے فیصد آبادی بنتے ہیں۔

ملک کی سات ریاستوں میں دبئی کی معیشت ان شعبوں پر بہت زیادہ منحصر ہے جو کہ لوگوں کے پیسے خرچنے پر چلتی ہیں جیسے کہ ہوٹلوں کی صنعت، پرتعیش ریٹیل، تعلیم اور سیاحت۔

امریکی تھینک ٹینک امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ میں مشرقِ وسطیٰ کے امور کی ماہر کیرن یونگ کو توقع نہیں ہے کہ متحدہ عرب امارات میں صورتحال جلد تبدیل ہوگی۔ بزنس سروے کہتے ہیں کمپنیاں نوکریاں نہیں دے رہیں اور روزگار کی سطح عام طور سے کہیں کم ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’آئندہ نو سے بارہ ماہ میں (کمپنیاں) دوبارہ کاروبار کھڑے کرنے کی کوشش کریں گی۔

مگر متحدہ عرب امارات کے برعکس دیگر خلیجی ممالک غیر ملکی مزدوروں کو ملک چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔ جولائی میں کویت کی قومی اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا جس میں قومیت کی بنیاد پر غیرملکیوں کی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

غیر ملکی کویت کی آبادی کا 70 فیصد ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ یہ شرح 30 فیصد پر آ جائے۔

جولائی میں ہی عمان کی حکومت نے ریاستی کمپنیوں سے کہا کہ وہ غیر ملکیوں کے بجائے عمانی شہریوں کو نوکریاں دیں۔

کئی دہائیوں سے غیر ملکی ورکرز نے ان خلیجی ممالک کی معیشتیں بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اہم شعبوں کے افرادی قوت فراہم کی ہے۔

گلف کواپریشن کونسل کے چھ رکن ممالک، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان، بحرین، سعودی عرب اور قطر میں ہی عرب ممالک میں موجود 23 ملین غیر ملکی ورکرز کی زیادہ تر تعداد مقیم ہے اور ان میں سے زیادہ ایشیائی ممالک سے آئے ہیں۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ اس سال معاشی ڈاؤن ٹرن کا شکار رہے گا جو کہ 2008-2009 کے معاشی بحران سے کہیں زیادہ بدتر ہوگا۔

اور کچھ خلیجی ممالک اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے معاشی ماڈل تبدیل کر رہے ہیں اور غیر ملکی ورکرز پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیرن یونگ کہتی ہیں کہ سعودی عرب، عمان، اور کویت جیسے ممالک میں آپ دیکھیں گے کہ ان کے اپنے شہری نجی شعبے میں نوکریاں کرنے لگیں گے اور یہ سماجی طور پر ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔‘

مگر دیگر ممالک کے برعکس متحدہ عرب امارات کو مقامی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے غیر ملکی ورکرز اور سیاح درکار ہیں۔

گذشتہ ماہ دبئی نے اس سلسلے میں ایک اقدام کیا کہ ریٹائری ویزا پروگرام متعارف کروایا جس میں 55 سال کی عمر سے زیادہ کے امیر غیر ملکیوں کے پانچ سال کا ویزا متعارف کروایا گیا ہے۔

اس وقت رابرٹ اور لیگیا کے لیے یہ پروگرام ایک آپشن نہیں ہے کیونکہ وہ عمر اور مالیت پر پورا نہیں اترتے۔ مگر لیگیا کو امید ہے کہ مستقبل میں جب مالی حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو ان کی فیملی یہاں لوٹ سکے گی۔

وہ کہتی ہیں ’یہ ہمارا گھر تھا، ہم یہاں واپس آنا ضرور پسند کریں گے۔‘

Exit mobile version