ذہنی مسائل کا علاج، جس میں پیسہ پانی کی طرح بہتا ہے
’میں نے اپنی ذہنی صحت کی دیکھ بھال کرنے کی کوشش میں اب تک ایک لاکھ 61 ہزار 800 روپے خرچ کیے ہیں۔‘
‘ذہنی صحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے اور یہ بہت مہنگا بھی ہے۔ کیوں کہ انڈیا میں صحت کی سہولیات خراب ہیں۔’
ایک میڈیا ادارے میں کام کرنے والی کرنیکا کوہلی نے رواں سال 21 جولائی کو یہ ٹویٹ کی تھی۔
انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں مقیم کرنیکا اچھی ملازمت کرتی ہیں اور ان کی آمدن اچھی ہے۔ اس کے باوجود انھیں یہ محسوس ہوا کہ افسردگی اور اضطراب کے علاج میں انھوں نے بہت پیسہ خرچ کیا ہے۔
یہی خیال مولشری کلکرنی کا بھی ہے۔ وہ اب تک کونسلنگ تھراپی میں 50 سے 60 ہزار روپے خرچ کر چکے ہیں۔
علاج میں پیسہ پانی کی طرح بہتا ہے
اب سوال یہ ہے کہ اگر دارالحکومت دہلی میں رہنے والے اور اچھی آمدن والے لوگ ذہنی صحت سے متعلق مسائل کے علاج میں ہونے والے اخراجات سے پریشان ہیں تو غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لیے اس کا علاج کتنا مشکل ہو گا؟
پچھلے کچھ برسوں میں ذہنی صحت کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا ہوئی ہے۔
آج ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن ماہرین نفسیات کی بھاری فیسیں کہاں سے آئیں گی یہ ابھی بھی بحث کا موضوع نہیں۔
دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں کونسلنگ کے ایک سیشن (40-45 منٹ) کی فیس اوسطاً ایک ہزار سے تین ہزار روپے ہے۔
ذہنی پریشانیوں کی صورت میں یہ کونسلنگ طویل عرصے تک جاری رہتی ہے۔ کونسلنگ اور تھراپی کے لیے عام طور پر یہ 20 سے 30 سیشنز ہوتے ہیں۔ ایسے میں پیسہ بھی پانی کی طرح بہانا پڑتا ہے۔
ہیلتھ انشورنس بھی نہیں
کرنیکا اور مولشری دونوں کی ہیلتھ انشورنس میں ذہنی صحت شامل نہیں۔
صورتحال کس قدر نازک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بالی ووڈ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کیس میں ذہنی صحت پر بحث تیز ہوئی تو سپریم کورٹ کو پوچھنا پڑا کہ انشورنس کمپنیاں ذہنی صحت کے علاج کو میڈیکل انشورنس میں شامل کیوں نہیں کرتی ہیں۔
جسٹس نریمن، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس گوائی نے مرکزی حکومت اور آئی آر ڈی اے (انشورنس ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جون میں ایک عرضی کی سماعت کے دوران اس بابت وضاحت طلب کی تھی۔
کیا واقعی ذہنی بیماریوں کا علاج اتنا مہنگا ہے؟ اور اگر ہاں، تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟
دہلی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن بیہیویئر اینڈ الائیڈ سائنسز (ابہاس) کے سینیئر سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر اوم پرکاش نے بی بی سی سے تفصیل سے بات کی۔
انھوں نے اس بابت جن اہم باتوں کی نشاندہی کی وہ مندرجہ ذیل ہیں:
- اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ذہنی بیماریوں کا علاج مہنگا ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ مشاورت اور تھراپی مہنگی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے سرکاری ہسپتالوں میں ماہر نفسیات کی شدید قلت ہے۔ اصل مسئلہ پہلے ہی سے صحت کی خراب حال خدمات میں ذہنی صحت کی بدتر حالت ہے۔
- مرکزی اور بیشتر ریاستی حکومتیں ذہنی صحت کے معاملے میں بالکل حساس نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہسپتالوں میں ماہر نفسیات اور ماہر نفسیات کی تقرری نہیں کرتے ہیں۔ حکومتیں ہسپتالوں میں ذہنی صحت کا محکمہ ہونا ضروری نہیں سمجھتی ہیں۔
- اگر منتخب سرکاری ہسپتالوں میں نفسیاتی ماہروں کی تقرری کی جاتی ہے تو انھیں بھی کانٹریکٹ پر رکھنے پر زور دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے لیے سرکاری معاہدے کی نوکریوں میں نہ تو کافی رقم ہے اور نہ ہی سہولیات۔
- اس کے برعکس نجی ہسپتال ماہرین نفسیات کو اچھی تنخواہ اور بہتر سہولیات کی پیشکش کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی ڈاکٹر سرکاری نوکری کے بجائے نجی ہسپتالوں میں کام کرنے کو ترجیح دے گا۔
- چونکہ بہت کم سرکاری ہسپتالوں میں ذہنی بیماریوں کا علاج ممکن ہے اور جہاں یہ سہولت میسر ہے وہاں ڈاکٹروں کی کمی اور مریضوں کی افراط ہے۔ ایسی صورتحال میں نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کی فیس کا بڑھنا لازمی ہے۔
ایک لاکھ پر ایک ڈاکٹر بھی نہیں
ڈاکٹر اوم پرکاش کا خیال ہے کہ حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کی سہولیات کو بگاڑ کر نجی ہسپتالوں کو پھلنے پھولنے کا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ اس سے کچھ تاجروں اور کمپنیوں کا فائدہ ہوتا ہے لیکن عام لوگوں کا ایک بہت بڑا حصہ ضروری علاج و معالجے سے محروم رہ جاتا ہے۔
ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں ذہنی امراض کے شعبے میں خدمات انجام دینے والے ماہر نفسیات ستیہ کانت تریویدی کا کہنا ہے کہ نجی ہسپتالوں میں کسی بھی ماہر نفسیات ڈاکٹر کی تقریبا اتنی ہی فیس ہوتی ہے جنتی کسی فزیشین کی۔
وہ کہتے ہیں: ’لیکن چونکہ ڈپریشن، اضطراب، او سی ڈی یا بائیپولر جیسے ذہنی امراض کا علاج طویل عرصے تک جاری رہتا ہے اس لیے مریض کو مسلسل ڈاکٹر کے پاس آنا جانا ہوتا ہے۔ اس طرح سے علاج کی کل لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر ستیہ کانت سرکاری ہسپتالوں میں نفسیاتی امراض کے ماہرین کی کمی اور ہسپتالوں میں دماغی صحت کی سہولیات کی کمی کو مہنگے علاج کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔
مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے گذشتہ سال بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ ملک میں نفسیاتی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی کمی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 16-2014 تک انڈیا میں ایک لاکھ افراد کے لیے 0.8 ماہر نفسیات تھے یعنی ایک لاکھ کے لیے ایک سے بھی کم ڈاکٹر۔ یہ تعداد ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق تین سے زیادہ ہونی چاہیے۔
ذہنی صحت پر بجٹ کا ایک فیصد بھی خرچ نہیں ہوتا
ان سنگین خامیوں کے باوجود حکومت ذہنی صحت کے لیے سرمایہ کاری کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ہے۔
انڈین جرنل آف سائکیاٹری کی سنہ 2019 کی رپورٹ کے مطابق ملک کے بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم ذہنی صحت کے حساب میں آتا ہے۔
ڈاکٹر اوم پرکاش کہتے ہیں ’صحت عامہ کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے دو شعبوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انفراسٹرکچر اور ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم دونوں محاذوں پر بہت پیچھے ہیں۔‘
ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز میں ذہنی صحت کی پیشہ ور اور غریب طبقے کے لوگوں کو کونسلنگ دینے کا تجربہ رکھنے والی ہیمانی کا خیال ہے کہ ذہنی صحت کی سہولیات تو مہنگی ہیں ہی لیکن یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ جو لوگ فیس ادا کر سکتے ہیں وہ بھی سہی ڈاکٹر یا ہسپتال تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’ذہنی صحت کے بارے میں اتنی کم معلومات موجود ہیں کہ ہم ان چند جگہوں کے بارے میں بھی نہیں جانتے جہاں علاج آسانی سے دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر اگر گاؤں میں رہنے والے فرد کی اچھی آمدن ہے تو وہ ذہنی امراض کے ڈاکٹر کی فیس ادا کرے گا لیکن انھوں سائکیاٹرسٹ کہاں ملے یہ اپنے آپ میں بڑا مسئلہ ہے۔ یہ رسائی کی پریشانی ہے۔‘
ذہنی صحت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ہر سال دس اکتوبر کو ’ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے‘ منایا جاتا ہے۔
ہر سال اس دن کا ایک الگ موضوع ہوتا ہے اور عالمی ادارہ صحت کا رواں سال تھیم ’ذہنی صحت سب کے لیے: وسیع تر رسائی، زیادہ سرمایہ کاری‘ ہے یعنی ذہنی صحت کے میدان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جانی چاہیے اور ان خدمات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔
انشورنس کا مسئلہ کیا ہے؟
مینٹل ہیلتھ کیئر ایکٹ 2017 کے تحت حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انڈیا کے ہر شہری کو سستی اور قابل حصول ذہنی صحت کی خدمات فراہم کرے۔
اس قانون کی دفعات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ انشورنس کمپنیوں کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ دوسری بیماریوں کی طرح ذہنی بیماریوں کا بھی احاطہ کریں۔
اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف انڈیانے اپنے رہنما خطوط میں واضح کیا ہے کہ انشورنس کمپنیوں کے لیے ذہنی بیماریوں کا احاطہ کرنا لازمی ہو گا۔
تمام مسائل کا ایک حل
لیکن ان سب کے باوجود آج بھی صرف کچھ بیمہ کمپنیاں ہی ذہنی بیماریوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کمپنیاں بھی او پی ڈی جیسے امراض کا احاطہ نہیں کرتی ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ کانت نے کہا: ’چونکہ بہت کم ذہنی بیماریاں ایسی ہیں جن میں کسی مریض کو داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ تر مریضوں کے لیے او پی ڈی خدمات کافی ہوتی ہیں۔ لہذا او پی ڈی خدمات کے انشورنس کوریج سے باہر ہونے سے بہت سے لوگ انشورنس کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔
میکس بوپا ہیلتھ انشورنس کے نمائندے اشوک گوئل نے بی بی سی کو بتایا کہ او پی ڈی خدمات کی کوریج کرنے کی پالیسی بہت مہنگی ہوتی ہے جس کا خرچ مالی طور پر زیادہ مضبوط لوگ ہی برداشت کر سکتے ہیں۔
گویل نے کہا: ’ہماری پالیسی ذہنی بیماریوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن او پی ڈی خدمات اس کا حصہ نہیں ہیں۔ ذہنی بیماریوں کا علاج بہت طویل عرصہ تک چلتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے لیے او پی ڈی خدمات کو انشورنس کے دائرے میں رکھنا آسان نہیں ہے۔‘
جبکہ ڈاکٹر اوم پرکاش کا خیال ہے کہ ذہنی صحت کی سہولیات کے لیے انشورنس کمپنیوں پر انحصار سے نجی شعبے کو فائدہ ہو گا۔
وہ کہتے ہیں: ’اگر یہ انشورنس کے دائرے میں آ بھی جائے تو بھی اس سے غریبوں کو کتنا فائدہ ہو گا؟ اور انشورنس کمپنیوں پر انحصار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم گھوم پھر کر صحت کے شعبے کو نجی کمپنیوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ اس سے ملک کی بڑی آبادی کا فائدہ نہیں ہو گا۔‘
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ صحت کی خدمات کے سرکاری نظام میں بہتری لانا ہی اس کا عملی حل ہے کیونکہ ذہنی صحت کا قانون تو تین سال پہلے ہی بن چکا ہے لیکن اس پر عملدرآمد ابھی باقی ہے۔