پاکستان ایشیا پیسیفک گروپ کی ‘مزید نگرانی’ کی فہرست میں برقرار
اسلام آباد: منی لانڈرنگ سے متعلق ایشیا پیسیفک گروپ(اے پی جی) نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے لڑنے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی تکنیکی سفارشات پر معمولی پیشرفت کے لیے پاکستان کو اپنی ‘مزید نگرانی’ کی فہرست میں برقرار رکھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پیرس میں ایف اے ٹی ایف سے وابستہ علاقائی گروپ اے پی جی کی جانب سے پاکستان کی باہمی تشخیص کے بارے میں پہلی فالو اپ رپورٹ نے پاکستان کی انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق ایف اے ٹی ایف کی 40 سفارشات میں سے دو پر مکمل تعمیل کو یقینی بنایا ہے۔
ٹھیک ایک سال پہلے ایک چیز کی تعمیل کی گئی تھی، پاکستان کی پیشرفت بڑی حد تک بدستور برقرار رہی ہے جہاں چار معاملات پر بالکل بھی پیشفت نہیں ہوئی، 25 نکات پر جزوی پیش رفت ہوئی ہے اور 9 سفارشات پر بڑے پیمانے پر عمل کیا گیا ہے۔تحریر جاری ہے
اے پی جی نے اپنی 12 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا کہ پاکستان تیز تر بہتری کی جانب گامزن ہے اور انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات پر عمل درآمد کو مستحکم کرنے کے سلسلے میں پیشرفت کے بارے میں اپنی رپورٹ جاری رکھے گا۔
مجموعی طور پر پاکستان نے تکنیکی تعمیل کی کمی کو دور کرنے میں کچھ پیشرفت کی ہے جس کی نشاندہی باہمی تشخیصی رپورٹ میں کی گئی ہے اور ایک سفارش پر اس کی ریٹنگ کی گئی ہے۔
اس پیشرفت کی بنیاد پر تجویز 29 کی دوبارہ ریٹنگ کرتے ہوئے دوبارہ ‘موافق’ قرار دیا گیا ہے، یہ بہتری انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 (سیکشن 216) پر مبنی ہے جو اب فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو ٹیکس ریکارڈوں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے زیر انتظام معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے، نیز انسداد دہشت گردی کے صوبائی محکموں انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت تفتیشی اور استغاثہ ایجنسیوں کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، اس سے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو عدالتی حکم کے بغیر سی ٹی ڈی کو معلومات پھیلانے کی اجازت ہوگی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی بچت، پاکستان پوسٹ اور ریئل اسٹیٹ ڈیلروں کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق خطرے سے متعلق پہلی سفارش پر اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن کہا گیا ہے کہ یہ پیشرفت ابھی تک ریٹنگ کی توجیہہ کے لیے ناکافی ہے، اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تجویز 6 کی درجہ بندی اور تجزیے کو بڑے پیمانے پر اختلاف اور ایشیا پیسیفک گروپ کے طریقہ کار سے مطابقت رکھنے سے مشروط کیا گیا ہے اور اس کو ایشیا پیسیفک گروپ کے اگلے اجلاس میں ہونے والے مباحثے کے لیے بھیجا گیا تھا لہٰذا اس رپورٹ کے لیے اس پر غور نہیں کیا گیا، اس کا تعلق دہشت گردی اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق ہدف شدہ مالی پابندیوں سے ہے۔
اکتوبر 2019 میں شائع ہونے والی باہمی تشخیصی رپورٹ میں پاکستان ایک تجویز پر عمل پیرا تھا، چار پر عمل نہیں کر رہا تھا، جزوی طور پر 26 پر عملدرآمد جاری تھا اور نو سفارشات پر بڑی حد عمل کیا گیا تھا، گزشتہ ایک سال کے دوران صرف ایک تبدیلی آئی ہے کہ ایک سفارش جس پر جزوی طور پر عملدرآمد کیا گیا تھا، اس پر مکمل عملدرآمد کیا گیا ہے۔
پاکستان نے گزشتہ سال اکتوبر میں اے پی جی کے جزوی طور پر مطابقت پذیر تین معاملات پر دوبارہ ریٹنگ کی درخواست کی تھی، بین الاقوامی ماہرین کے اطمینان کے لیے ‘ناکافی’ پیشرفت کی وجہ سے ایک معاملے پر درخواست کر لی گئی جبکہ دو معاملات پر غیرتسلی بخش قرار دے کر اسے مسترد کردیا گیا۔
اگرچہ ایشیا پیسیفک گروپ کی یہ رپورٹ ایف اے ٹی ایف کے ورچوئل جائزہ میٹنگ سے صرف دو ہفتوں پہلے سامنے آئی ہے جو 21 سے 23 اکتوبر تک منعقد ہو گا، اس کا پاکستان کے آئندہ جائزے پر فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کہ آیا اسے برقرار رکھنا چاہیے یا گرے لسٹ سے ہٹا دینا چاہیے، ایشیا پیسیفک گروپ کی کارکردگی کا جائزہ تکنیکی سفارشات پر اس سال فروری تک ملک کی کارکردگی پر مبنی ہے، پاکستان نے حالیہ عرصے میں 15 شعبوں میں اہم قانون سازی سمیت اس سلسلے میں 27سفارشات پر بہت تیزی سے پیشرفت کی ہے۔
41 رکنی ایشیا پیسیفک گروپ نے آسٹریلیا کے کینبرا میں 13 سے 18 اگست تک اجلاسوں کے دوران پاکستان کے بارے میں تیسری باہمی تشخیصی رپورٹ اپنائی تھی اور اکتوبر 2018 تک عام بین الاقوامی مالیاتی معیار کو پورا کرنے کے سلسلے میں تکنیکی خامیوں پر ملک کی تنزلی کرتے ہوئے مزید نگرانی کی کیٹیگری میں ڈال دیا تھا، اس کے نتیجے میں اس کے بعد پاکستان کو ایشیا پیسیفک گروپ کو سہ ماہی ترقی کی رپورٹس پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ منی لانڈرنگ کے انسداد اور دہشت گردوں کی مالی معاونت ک خاتمے کے سلسلے میں اپنے تکنیکی معیار میں بہتری لائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی سے متعلق مالی اعانت کی رسک اسسمنٹ اور نقد اسمگلنگ سے متعلق شعبہ جاتی جائزے لے کر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے متعلق مالی اعانت کے خطرات کی زیادہ جامع شناخت اور تشخیص کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں، اس کو ہر دو سال بعد اپ گریڈ کیا جائے گا، آخر کار نومبر 2019 میں پاکستان نے اہم دہشت گرد تنظیموں کے بین الاقوامی دہشت گردی کی مالی اعانت کے خطرات کی پروفائلز کے بارے میں ایک خفیہ مقالہ جاری کیا، البتہ نامزد غیر مالیاتی کاروبار اور پیشہ ور افراد کے ساتھ ساتھ قانونی افراد اور قانونی انتظامات کے ساتھ منسلک خطرے کی تشخیص ابھی بھی فطرت میں بہت عام ہیں اور یہ محدود اعداد و شمار پر مبنی معلوم ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے 12 دہشت گرد تنظیموں کا جائزہ لیا جن میں اقوام متحدہ کی نامزد کردہ 8 خطرناک قرار دی گئی تنظیمیں بھی شامل ہیں لیکن ان کا دہشت گردی کی سرگرمیوں کی حمایت کرنے کے لیے فنڈز کی آنے تک کا تعلق ہے اور فنڈز وہاں سے کسی اور دیے جانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ این آر اے 2019 نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دہشت گردی کی مالی اعانت کے لیے غیر منافع بخش تنظیموں کا غلط استعمال گھریلو اور بیرونی طور پر ایک خاص خطرہ ہے اور خیراتی ادارے اور فنڈ اکٹھا کرنا تقریباً تمام ایمرجنسی آپریشن سسٹم کے لیے فنڈز کا ایک ذریعہ ہے، اس کے علاوہ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں غیر منافع بخش تنظیموں کے استعمال کے لیے مشہور تھیں جن میں رجسٹرڈ خیراتی ادارے جیسے فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) بھی رجسٹرڈ تھا جسے لشکر طیبہ کے ساتھیوں نے قائم کیا تھا۔