کراچی: غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس تک رسائی سے متعلق قوانین کے بارے حکومت کی جانب سے جاری کردہ نئے ایس آر او کے بارے میں نیوز رپورٹس سامنے آنے کے ایک روز بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ کچھ تبدیل نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ’مرکزی بینک کی جانب سے جاری ایک سرکلر میں کہا گیا کہ فارن ایکسچینج ریگولیشنز (غیرملکی زرمبادلہ قوانین) کے تحت لوگوں کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے عام یا خصوصی اجازت دینے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘۔
واضح رہے کہ 6 اکتوبر کو حکومت نے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 کے تحت غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کے قوانین جاری کیے تھے، تاہم الجھن اس وقت پیدا ہوئی جب اس میں موجود الفاظ سے ظاہر ہوا کہ قوانین نے ایف ای 25 فارن کرنسی اکاؤنٹس میں اوپن مارکیٹ سے خریدی گئی غیر ملکی کرنسی کے جمع کرانے پر پابندی عائد کردی۔
بعد ازاں اسٹیٹ بینک کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نئے قوانین بینک کے فارن ایکسچینج مینوئل (ایف ای ایم) میں درج پرانے قوانین کی طرح ہی ہیں۔
مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ ایف ای ایم کے باب 6 کے پیراگراف نمبر 4 کے مطابق غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کو بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر، پاکستان سے باہر سے جاری ہونے والے ٹریولرز چیکس اور حکومت پاکستان کی جاری سیکیورٹیز کے معاوضے سے بھرا جاسکتا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ پاکستان کے اندر پاکستانی شہری کا غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کو نقد غیرملکی کرنسی سے صرف اس وقت بھرا جاسکتا ہے اگر اکاؤنٹ ہولڈر فائلر ہو، جیسا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں بیان کیا گیا ہے۔
سرکلر میں مزید کہا گیا کہ حال ہی میں جاری ہونے والے قوانین کا مقصد ایک فرد کے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کے آپریشن کے لیے ریگولیٹری فریم ورک فراہم کرنا ہے، اس طرح کا فریم ورک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے نظام کو مضبوط کرنے کی کوششوں اور اسے مزید مارکیٹ کے مساوی بنانے کے تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک لوگوں کو اپنی غیرملکی زرمبادلہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بینکنگ چینلز کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی سہولت فراہم کرنے کے لیے اقدامات جاری رکھے گا۔