Site icon DUNYA PAKISTAN

وادیٔ نلتر

Share

ہمدمِ دیرینہ آفتاب گلگتی کو اس جہان فانی سے گزرے کئی برس بیت گئے ہیں اب جا کر اس کی خواہش کی تکمیل ممکن ہو سکی۔ دل سے اس کیلئے ایک بار پھر دعا نکلی۔ کیا شاندار انسان تھا اور کیا مخلص دوست۔ ایسے دوست تو اب نایاب بلکہ عنقا ہو گئے ہیں۔ ہمہ وقت دوستوں کیلئے جان دینے کیلئے تیار۔ یہ بات میں محاورتاً یا مبالغہ آمیزی میں نہیں لکھ رہا ‘وہ واقعتاً ایسا ہی تھا۔ دوستوں کیلئے کسی کی جان لے بھی سکتا تھا اور دے بھی۔ اس کا طبعی موت مرنا بھی سمجھیں ایک معجزہ ہی تھا۔
قریب چار عشرے پہلے جب میں درہ خنجراب سے واپسی پر گلگت ایک دن رک کر ملتان واپس آیا تو دو چار دن بعد نشتر کالج کی کینٹین پر آفتاب سے ملاقات ہوئی۔ تب آفتاب نشتر میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا‘ بلکہ وہ وہاں کا مستقل طالبعلم تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں گلگت سے ہو کر آیا ہوں۔ پوچھنے لگا: کہاں ٹھہرے تھے؟ بتایا کہ ایک فارغ قسم کے ہوٹل میں رات گزاری تھی۔ پہلے تو اسی بات پر جھگڑا ہو گیا کہ جب آپ کا اپنا گھر وہاں موجود تھا‘ ہوٹل میں ٹھہرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر تم وہاں ہوتے تو اور بات تھی مگر تم تو یہاں ملتان میں تھے‘لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ وہ یہ بات سمجھنے پر تیار ہی نہیں تھا ۔ ویسے بھی آفتاب مرحوم کو کوئی ایسی بات سمجھانا جس کے بارے میں وہ خود پہلے سوچ چکا ہو اور نتیجہ اخذ کر چکا ہو بالکل نا ممکنات میں سے تھا۔ اس کی سوئی جہاں ایک بار پھنس گئی تو پھر پھنس گئی۔ لاکھ سمجھائیں‘ سر پٹخیں لیکن سب رائیگاں۔ کہنے لگا: آپ میرے گھر جاتے اگر میرے گھر والے آپ کو اپنا بیٹا نہ سمجھتے اور میرے بھائی آپ کو بھائی نہ سمجھتے تو خدا کی قسم میں واپس کبھی گلگت نہ جاتا۔ ہمیں اس کی بات پر پورا یقین تھا کہ وہ ایسا ہی کرتا۔ وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اسے باقاعدہ منت ترلے کر کے منایا گیا اور معافی نامہ پیش کیا گیا تب جا کر بات بنی۔ اب ایسے دوست کہاں ہوتے ہیں؟
جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو پوچھنے لگا کہ کیا تم نے نلتر کا نام سنا ہے؟ میں نے کہا: سنا ہے۔ پھر اگلا سوال ہوا تم نلتر گئے تھے؟ میں نے کہا: نہیں۔ کیوں نہیں گئے تھے؟ یہ اگلا سوال تھا۔ میں نے صاف کہا کہ جیپ والا جتنے پیسے مانگ رہا تھا اگر وہ جیپ والے کو دے دیتا تو واپسی کیلئے گلگت میں چندہ اکٹھا کرنا پڑتا۔ اس بات پر ایک بار پھر اسے تاؤ آ گیا اور کہنے لگا: کیا آفتاب گلگتی مر گیا ہے کہ آپ کو گلگت میں چندہ مانگنا پڑتا۔ بھائی آپ کو وہاں لے جاتا‘ آپ ایسی خوبصورت وادی دیکھنے سے محروم رہ گئے صرف اس لیے کہ جیپ کا کرایہ نہیں تھا۔ اس بات کو چار عشروں سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ تب سے دل میں عہدکر رکھا تھا کہ اب جب بھی کبھی گلگت گیا‘ نلتر ضرور جاؤں گا۔ اس دوران کئی بار آفتاب نے گلگت بلایا مگر جب بھی ارادہ کیا کوئی نہ کوئی اڑچن آ گئی۔ کبھی آفتاب اسلام آباد اپنی نوکری پر ہوتا‘ کبھی موسم خراب ہوتا اور میری گلگت کی فلائٹ کینسل ہو جاتی اور کبھی کوئی اور مجبوری آن پڑتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت معین ہے اور وہ اس سے ایک لمحہ ادھر اُدھر نہیں ہوتی‘ باقی سب تاویلات ہیں اور دنیاوی جواز ہیں۔
ملتان سے دونوں بچوں کے ساتھ روانہ ہوا تو دوسرا سٹاپ گلگت تھا۔ رات گلگت گزاری‘ تب پروگرام یہ تھا کہ صبح سویرے گلگت سے نلتر اور شام وہاں سے کریم آباد چلے جائیں گے‘ لیکن کسی سمجھدار نے مشورہ دیا کہ رات نلتر میں گزاریں کہ آپ ایک دن میں واپس نہیں آسکیں گے۔ راستہ انتہائی خراب ہے ‘شاہراہ قراقرم سے نیچے اتر کر محض بیس کلو میٹر کا راستہ اگر دو گھنٹے میں طے ہو جائے تو غنیمت ہے۔ پھر نلتر سے آگے اگر آپ نیلی جھیل اور ست رنگی جھیل تک نہیں جاتے تو پھر سمجھیں یہ ساری مشقت بیکار ہے۔ نیلی جھیل تک کا فاصلہ تو شاید آٹھ نو کلو میٹر سے بھی کم ہے لیکن راستہ بہت ہی خراب اور مشکل ہے‘ اس کے لیے آپ کو نلتر سے ہی جیپ لینی چاہیے۔ اللہ مشورہ دینے والے کا بھلا کرے۔ جب اس راستے پر سفر کیا تو مصطفی زیدی کا یہ شعر بہت یاد آیا۔
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
نلتر کی سڑک بن رہی تھی اس لیے راستہ زیادہ ہی مشکل ہو گیا تھا‘ لیکن بعض جگہیں ایسی تنگ کہ بس‘ گاڑی بمشکل ہی گزرتی تھی۔ اگر سامنے سے گاڑی آ جائے تو کراسنگ نا ممکنات میں سے تھی۔ کئی بار میں نے گاڑی پیچھے ہٹائی اور کئی بار سامنے سے آنے والے نے۔ پہلے نلتر پائیں یعنی نلتر زیریں اور پھر نلتر بالا۔ نلتر میں سکی انگ کی ایک چھوٹی سی سائٹ ہے اور ایک مختصر سی چیئر لفٹ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جو سکی انگ کرنے والوں کو اوپر لے کر جاتی ہے۔ یہ سہولت دو ماہ بعد شروع ہو گی جب برفباری ہو گی۔ ابھی چیئر لفٹ نہ صرف بندتھی بلکہ اس کا سامان بھی کھلا پڑا تھا۔ سیزن ختم ہو چکا تھا اس لیے نلتر سیاحوں سے تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ ہوٹل ویران تھے اور ریسٹ ہاؤسز سنسان تھے۔ گلگت سے نلتر آتے ہوئے راستے میں ایک جگہ سامنے سے آنے والی جیپ کے ڈرائیور نے بمشکل گاڑی کو پاس سے گزارتے ہوئے دو منٹ کیلئے روکا اور اسی دوران بزنس ڈیل کرتے ہوئے اپنے کسی جاننے والے ڈرائیور کا نمبردے دیا۔ نلتر پہنچ کر گاڑی سے سامان اتارا‘ کافی بنائی‘ جس کا سامان میں اپنے ساتھ لے کر چلا تھا اور پھر نلتر کا نظارہ کرنے پیدل نکل پڑے۔ شام کو جیپ ڈرائیورافسر جان کو فون کر کے صبح سویرے جھیلوں پر جانے کیلئے پابند کر دیا۔ افسر جان صبح سات بجے ہمارے دروازے پر تھا۔
راستے میں اتنے پتھر تھے کہ زندگی میں اتنے پتھر پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ہر طرح کے اور ہر سائز کے‘ اور اتنی مقدار میں کہ عقل دنگ رہ گئی کہ اتنے پتھر کہاں سے آگئے۔ ایک پرانی کہانی یاد آ گئی جس میں کسی شخص نے ایک جن غلام بنا لیا اب جن اسے ہر وقت یہ کہتا تھا کہ مجھے کام بتاؤ ورنہ میں تمہیں کھا جاؤں گا۔ وہ غریب اسے جو کام بتاتا وہ لمحوں میں کرتا اور واپس آ کر نئے کام کی فرمائش کر دیتا۔ ٹی وی کا ایک پروگرام تھا ”عینک والا جن‘‘ اس میں بھی زکوٹا جن ہر وقت یہ کہتا نظر آتا تھا کہ” مجھے کام بتاؤ‘ میں کیا کروں‘ میں کس کو کھاؤں‘‘۔ زکوٹا تو کسی اور کو کھانے کی بات کرتا تھا مگر جو کہانی میں نے پڑھی تھی اس میں جن اپنے مالک کو ہی کھانے کی دھمکی دیتا تھا۔ میں نے اسد کو یہ کہانی سنائی اور کہا: اگر وہ جن مجھے مل جائے اور کام بتانے کی فرمائش کرے تو میں اسے نلترمیں پتھر ڈھونے پر لگا دوں گا۔ وہ جتنا بھی پھرتیلا اور طاقتور ہی کیوں نہ ہو اگلے کئی سال تک لگا رہے تو بھی ساری وادی تو کجا‘ صرف ایک مربع کلو میٹر کا دسواں حصہ بھی صاف نہ کر سکے گا اور واپس آ کر نہ صرف معافی مانگے گا بلکہ آئندہ کیلئے کام کرنے کے مطالبے بھی ہمیشہ کیلئے دستبردار ہو جائے گا۔
ایک مشکل اور ہڈیاں ہلا دینے والے سفر کے بعد جب ہم نیلی جھیل کے پاس پہنچے تو سامنے پانی میں رنگوں کی ایسی کہکشاں بکھری ہوئی تھی کہ کسی کیمرے میں وہ مجال کہاں کہ وہ ان رنگوں کی حقیقی منظر کشی کر سکے۔ یہ ایک ایسا نظارہ تھا جسے صرف محسوس ہی کیا جا سکتا تھا۔ گو کہ بچوں نے وہاں درجنوں تصاویر لیں لیکن وہی مختار مسعود والی بات کہ مسافر کو اس منظر سے دور جانے کا قطعاً کوئی ملال نہیں۔ مسافر جب چاہتا ہے یادوں کے دریچے وا کرتا ہے اس منظر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

Exit mobile version