دنیابھرسے

بنگلہ دیش: ’ریپ‘ مجرمان کے لیے سزائے موت کا قانون نافذ

Share

بنگلہ دیش کی حکومت نے ملک میں ’ریپ‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز پر ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے بعد قوانین میں ترمیم کرکے مجرمان کے لیے سزائے موت کا سخت قانون نافذ کردیا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بنگلہ دیش کی کابینہ نے 12 اکتوبر کو ہنگامی بنیادوں پر ’ریپ‘ قوانین میں ترمیم کی منظوری دی۔

کابینا کے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے کی، جنہوں نے ملک میں بڑھتے ’ریپ‘ واقعات پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔

بنگلہ دیش کی حکومت نے ’ریپ‘ قوانین میں ہنگامی بنیادوں پر ترامیم کرکے ان کی منظوری دی اور قوانین کی روشنی میں 13 اکتوبر کو صدارتی آرڈیننس بھی جاری کردیا گیا۔تحریر جاری ہے‎

بنگلہ دیشی نشریاتی ادارے بی ڈی نیوز 24 نے اپنی رپوٹ میں بتایا کہ کابینا کی منظوری کے بعد صدر محمد عبدالحامد نے 13 اکتوبر کو آرڈیننس پر دستخط کرنے کے بعد صدارتی حکم نامہ جاری کردیا۔

بنگلہ دیش بھر میں ہونے والے مظاہروں میں نوجوان لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی—فوٹو: ڈھاکا ٹربیون
بنگلہ دیش بھر میں ہونے والے مظاہروں میں نوجوان لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی—فوٹو: ڈھاکا ٹربیون

بنگلہ دیشی حکومت نے دی ویمن اینڈ چلڈرن ریریشن پرونشن ایکٹ 2000 میں ترمیم کرکے اب ’ریپ‘ مجرمان کو سزائے موت دینے کی منظوری بھی دی ہے۔

یہ پہلا موقع ہےکہ بنگلہ دیش کی حکومت نے ’ریپ‘ مجرمان کے لیے اتنی بڑی سخت سزا کا قانون نافذ کیا ہے، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ حکومت مذکورہ آرڈیننس کی مدت کے بعد ممکنہ طور پر سخت سزائیں واپس لے گی۔

اس وقت بنگلہ دیش پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا، جس وجہ سے حکومت نے ’ریپ‘ قوانین میں ترمیم کرکے انہیں نافذ کرنے کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کیا ہے۔

حکومت نے ایک ایسے وقت میں ’ریپ‘ قوانین میں ترمیم کی ہے جب کہ ملک بھر میں بڑھتے ریپ واقعات اور خواتین کے استحصال کے خلاف کئی شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔

بنگلہ دیش میں اگرچہ رواں برس کے آغاز سے ہی ’ریپ‘ واقعات کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے تاہم کورونا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مظاہروں میں کمی ہوگئی تھی لیکن اب دوبارہ واقعات رپورٹ ہونے کے بعد مظاہرے شروع ہوئے، تاہم اب خیال کیا جا رہا ہے کہ ملک گیر مظاہرے بھی ختم ہوجائیں گے۔

ملک گیر مظاہروں کے پیش نظر حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر قوانین نافذ کیے—فوٹو: رائٹرز
ملک گیر مظاہروں کے پیش نظر حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر قوانین نافذ کیے—فوٹو: رائٹرز

ملک گیر ہونے والے مظاہروں میں حکومت پر ’ریپ‘ ملزمان کو سیاسی پشت پناہی دیے جانے کے الزامات بھی لگائے گئے۔

حکومت پر مذکورہ الزامات گزشتہ ماہ اس وقت لگائے گئے جب ایک خاتون کو اغوا کے بعد گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور مذکورہ گینگ ریپ میں ملوث افراد کا تعلق حکمران جماعت کی طلبہ تنظیم سے تھا۔

حکمران جماعت کی طلبہ تنظیم کے نصف درجن لڑکوں نے خاتون کو کالج سے شوہر کے سامنے اغوا کرکے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔

علاوہ ازیں 2 ستمبر کو بنگلہ دیش کے شہر نواکھلی میں ایک خاتون کو گینگ ریپ کا نشانہ بناکر اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے کے بعد بھی ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیو میں ایک خاتون کو نصف درجن سے زائد افراد کی جانب سے ایک گھنٹے تک کپڑے اتار کر انہیں گینگ ریپ اور بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش میں خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیم عین و سالش کینڈرو نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملک بھر میں جنوری سے لے کر ستمبر تک 975 خواتین کا ریپ کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ ہونے والے مذکورہ واقعات میں سے 208 واقعات گینگ ریپ کے ہیں جب کہ 45 واقعات میں خواتین کو ریپ اور استحصال کے بعد قتل کیا گیا۔

اسی طرح ریپ اور استحصال کا نشانہ بننے والی 12 خواتین نے خودکشی کی۔

مذکورہ تنظیم کے مطابق بنگلہ دیش میں ریپ کی شکار بننے والی خاتون یا لڑکی پر پولیس ہی اعتبار نہیں کرتی اور جب وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی رپورٹ درج کروانے جاتی ہے تو اسے ہی قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔

خواتین کے مطابق ان کا استحصال ہونے کے باوجود پولیس انہیں جھوٹا قرار دیتی ہے—فوٹو: رائٹرز
خواتین کے مطابق ان کا استحصال ہونے کے باوجود پولیس انہیں جھوٹا قرار دیتی ہے—فوٹو: رائٹرز