موٹروے گینگ ریپ کیس: مرکزی ملزم عابد ملہی 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے موٹروے گینگ ریپ کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
ملزم کو سخت سیکیورٹی میں عدالت پہنچایا گیا اس دوران اس کا چہرہ کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا جسے سماعت کے دوران ہٹا دیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران جج ارشد حسین بھٹہ نے پراسیکیوشن کی جانب سے ملزم کے شناختی پریڈ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
اس کے علاوہ کیس کے دوسرے ملزم شفقت کو بھی آج انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔
پولیس نے عدالت سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ملزم کو 28 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
خیال رہے کہ عابد ملہی کو ایک روز قبل لاہور کی کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) نے صوبائی دارالحکومت سے 33 کلومیٹر دور منگا منڈی کے علاقے سے گرفتار کیا تھا۔
ملزم کی گرفتاری پولیس کی جانب سے اس کے والدین، بھائی اور اہلیہ کی رہائی اور انہیں پرانی موبائل سمز استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بعد عمل میں آئی تھی۔
پنجاب آپریشن ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سہیل سکھیرا نے کہا کہ ملہی کے اہلِ خانہ کو رہا کرنے کی پولیس کی حکمت عملی اس وقت کامیاب ثابت ہوگئی جب ملزم نے اپنی والدہ سے فون پر رابطہ کیا۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ پولیس کی خصوصی ٹیمز ہائی الرٹ تھیں اور انہوں نے فیصل آباد کی کال ٹریس کی جہاں ملزم روپوش تھا۔
ان کے مطابق ملزم کی والدہ نے اسے کہا کہ انہیں اور خاندان کے دیگر افراد کو پولیس نے رہا کردیا ہے جس پر اس نے منگا منڈی میں والدہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور منصوبے کے مطابق اپنی والدہ کے گھر پہنچ گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جیسے ہی عابد گھر میں داخل ہووا وہاں تعینات پولیس ٹیم نے چھاپہ مار کر بغیر کسی مزاحمت کے ملزم کو گرفتار کرلی۔
تفتیشی ٹیم کیلئے 50 لاکھ روپے انعام کا اعلان
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے موٹروے گینگ ریپ کیس کی تفتیشی ٹیم کے لیے 50 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا۔
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے انسپکٹر جنرل پنجاب (آئی جی) انعام غنی اور ان کی پوری ٹیم کو سراہتے ہوئے کہا کہ جتنے بھی ہائی پروفائل کیسز ہیں ان سب کے ملزمان گرفتار ہیں۔
موٹروے ریپ کیس
خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ ‘خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں’۔
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔
15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
اسی روز پولیس نے شریک ملزم شفقت علی کی جانب سے دوران تفتیش فراہم کی گئی معلومات پر تیسرا ملزم اقبال عرف بالا کو گرفتار کرلیا تھا۔