منتخب تحریریں

گوجرانوالہ جلسے کا مومنٹم بن چکا

Share

سیاست کے کھیل میں اہم ترین بات پیش قدمی ہوتی ہے۔انگریزی میں اسے Initiativeکہتے ہیں۔شطرنج میں چلایا پہلا مہرا۔ تاش میں پھینکا پہلا پتہ۔حکمرانوں کی یہ خواہش ہی نہیں بلکہ ضرورت ہوتی ہے کہ Initiative ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہے۔عمران خان صاحب نے حکومت سنبھالنے کے بعدمگر Initiativeکی اہمیت کوسمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔بنیادی طورپر ایک بائولر ہوتے ہوئے اپوزیشن کے دور کی طرح مخالفین کی وکٹ اُڑانے کو بے چین رہے۔ بھول جاتے ہیں کہ اگست 2018سے بلاّ سنبھالے کریز پر وہ موجود ہیں۔کامیابی کے لئے ا نہیں اپنی ’’اننگز‘‘ کو ہر صورت لمبا کرنا ہے۔زیادہ سے زیادہ دیر تک کریز پر جمے رہنا ہے۔’’بائولنگ‘‘ کیونکہ اب دوسری جانب سے ہورہی ہے۔

عمران خان صاحب کی خوش نصیبی رہی کہ ان کی مخالف ٹیم کے ’’بائونسر‘‘ نیب کی فرض شناسی کی بدولت کئی مہینے ’’کریز‘‘ سے باہر رہے۔اپوزیشن کے باقی کھلاڑی بھی خود کو اس سے ’’زخمی‘‘ ہونے سے بچانے کی فکر میں مبتلا ہوگئے۔دریں اثناء آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے سے قبل سیاست کی پچ یعنی پارلیمان کی جانب ایک ’’گرنیڈ‘‘اچھال دیا۔ خدشہ تھا کہ وہ پھٹ گیا تو سارا کھیل ہی ختم ہوجائے گا۔ ’’گیم‘‘ کو جاری رکھنے کی فکرمیں اپوزیشن جماعتوں نے تمام گلے شکوے بھلاکر ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی میعادِ ملازمت میں اضافے کو قواعدوضوابط کے عین مطابق بنانے کے لئے ایک اہم ترین قانون تاریخی عجلت میں تیارومنظور کروانے میں دل وجان سے تعاون کیا۔عمران خان صاحب مگراس ’’تعاون‘‘ کی بابت شکر گزار نظر نہیں آئے۔’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی بابت بلکہ اس گماں میں مبتلا رہے کہ اپنی ’’جند‘‘ بچانے کے لئے ان کے پاس حکومت کی جانب سے آئے قوانین پر عاجزانہ انداز میں انگوٹھے لگانے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔ 

اپوزیشن جماعتوں کی بھی لیکن ایک Constituencyہوتی ہے۔ایک ’’ووٹ بینک‘‘ ہوتا ہے جسے ہر صورت قائم ودائم رکھنا لازمی ہے۔فیصل واوڈا جب ایک ٹی وی پروگرام میں میز پر ’’بوٹ‘‘ رکھ کر فاتحانہ خطاب فرمائیں تو یہ ’’ووٹ بینک‘‘ شرمسار ہوجاتا ہے۔’’ووٹ بینک‘‘شرمساری سے پریشان ہوکربکھرنا شروع ہوجائے تو ’’خلا‘‘ پیدا ہوجاتا ہے اور سیاست میں ’’خلا‘‘ زیادہ دیر تک موجود نہیں رہتے۔حکومت مخالف جذبات کی ترجمانی کے لئے ’’نئے‘‘ لوگ نمودار ہوجاتے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کو لیکن ’’نئی ‘‘‘ آوازوں اور چہروں والا امکان پریشان کردیتا ہے۔اس امکان سے پریشان ہوکر ہی نوازشریف نے طویل خاموشی کے بعد 20ستمبر2020کے روز اے پی سی کے اجلاس سے ’’کفن پھاڑ‘‘خطاب کا فیصلہ کیا۔کوئی پسند کرے یا نہیں اس خطاب کے بعد سیاسی کھیل کا Initiativeنوازشریف کے ہاتھ چلا گیا ہے۔

وہ ان دنوں لندن میں ہیں۔ان کے خلا ف’’غداری‘‘ کے مقدمات قائم کرنے کے بعد شہزاد اکبر صاحب کی تمام تر ذہانت بھی برطانوی حکومت کو انہیں ہتھکڑی لگاکر حکومت ِ پاکستان کے حوالے کرنے کو مائل کرہی نہیں سکتی۔اپوزیشن جماعتوں کے تمام رہ نمائوں کو جیل میں ڈال دیا جائے تب بھی نواز شریف لندن میں بیٹھے ٹویٹر ،فیس بک اور یوٹیوب کے شاطرانہ استعمال کے ذریعے ملکی سیاست میں ہلچل مچاتے رہیں گے۔ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کے پاس کھیلنے کو بہت ’’پتے‘‘ ہیں۔مریم نواز صاحبہ سے کسی رابطے کے بغیر میں یہ بڑھک انتہائی اعتماد سے لگاسکتا ہوں کہ ان میں سے کئی ’’پتوں‘‘ کا انہیں بھی اندازہ نہیں ہے۔ عمران حکومت کے اصل خیرخواہوں کو War Gamingیہ کرنا ہوگی کہ ذہن پر زور دیتے ہوئے نواز شریف کے پاس موجود ’’پتوں‘‘ کو Imagineکریں۔

محمد خان جونیجو کوئی ذہین وفطین سیاست دان نہیں تھے۔’’سنڈھری‘‘ سے اُبھرے پیر پگاڑا کے یہ مرید 1985کے بعد وزیر اعظم نامزد ہوئے تو پاکستان کی اکثریت کے لئے قطعاََ اجنبی شخص تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد مگر انہوں نے اپنے حامی اراکین اسمبلی کے طویل اجلاس منعقد کرنا شروع کردئیے۔کابینہ کے اجلاس میں بھی وہ بہت دھیان سے وزراء کے مابین ہوئے دھواں دھار مباحث کو برداشت کرتے۔مسلسل اور عاجزانہ مشاورت سے انہوں نے اقتدار کے کھیل سے جڑی کئی حیران کن چالیں کھیلنے کا ہنر سیکھ لیا۔

سنا ہے کہ عمران خان صاحب بھی اپنی کابینہ کے اجلاسوں کے دوران وزراء اور مصاحبین کو طویل خطاب کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ’’کپتان‘‘ کے صبر نے بلکہ ان کے کئی دیرینہ شناسائوں کو حیران کردیا ہے۔ہر نوعیت کی یاوہ گوئی کو صبرسے سننا ہی مگر ’’بادشاہ‘‘ کے لئے کافی نہیں ہوتا۔طویل تر گفتگو سے بھی بالآخر کوئی یک سطری نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بروقت فیصلہ محض وزیر اعظم کا اختیار وذمہ داری ہے۔

طویل جلاوطنی کے بعد مثال کے طورپر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپریل 1986میں وطن لوٹنے کافیصلہ کیا تو اس فیصلے کے اعلان کے چند ہی گھنٹے بعد مرحوم محمد خان جونیجو نے قطعی انداز میں طے کردیا کہ انہیں ملک بھر میں جلسے جلوس منعقد کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے۔ جنرل ضیاء ان کے فیصلے سے بہت ناراض ہوئے۔جونیجومرحوم مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔بالآخر محترمہ وطن لوٹیں۔ انہوں نے ملک بھر میں تاریخی اور ریکارڈ توڑ اجتماعات سے خطاب فرمایا۔ 14اگست 1986کے بعد مگر ان کا طلسم برقرار نہ رہا۔بالآخر مئی 1988میں انہیں محترمہ بے نظیرکی قیادت میں چلائی کسی عوامی تحریک نے فارغ نہیں کیا تھا۔جنرل ضیاء نے بذاتِ خود اپنی ’’تخلیق‘‘‘ کو اپنے ہی ہاتھوں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔

ماضی کے ٹھوس واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران حکومت کی جانب سے واشگاف الفا ظ میں کئی دن پہلے یہ اعلان ہوجانا چاہیے تھا کہ اگر PDM 16اکتوبر سے ملک بھر میں جلسے جلوسوں کا انعقاد کرنا چاہ رہی ہے تو ’’سو بسم اللہ‘‘۔ لاہور کے شاہدرہ میں تعین ایک فرض شناس تھانے دار نے لیکن رات کے دو بجے ایک محب وطن شہری کی فریاد پر پاک فوج کے تین سابق جرنیلوں اور آزادکشمیر کے منتخب وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (نون) کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ’’غداری‘‘ کی ایف آئی آر کاٹتے ہوئے قطعاََ مختلف پیغام دیا۔ یہ پرچہ درج ہونے کے بعد روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی عمران حکومت کے سرکاری اور رضا کارانہ ترجمانوں نے سینہ پھیلاتے ہوئے یہ پیغام دینا شروع کردیا کہ ’’ریڈ لائن‘‘ کھینچ دی گئی ہے۔’’ریڈ لائن‘‘ کا ڈھول پٹ چکا تو پیر کے دن سے اعلان ہونا شروع ہو گیا کہ عمران خان صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ PDMکو جلسوں کے ضمن میں اپنا ’’آئینی حق‘‘ استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ پیر کے دن ہی مگر عاصم سلیم باجوہ صاحب کا استعفیٰ بھی منظور ہوگیا۔اس ’’خبر‘‘ کے بعد پیمرا نے ’’آج‘‘ ٹی وی کی عاصمہ شیرازی کی جانب سے مریم نواز کے ساتھ ہوئے تفصیلی انٹرویو کو بھی نشر ہونے دیا۔

ایک ہی دن ہوئے ان تین ٹھوس واقعات کی بدولت عمران حکومت Push Backہوتی نظر آئی۔ ’’ریڈ لائن‘‘ والی بڑھک کے بعد ہوئے ان واقعات نے بلکہ حکومت کو ’’بکری‘‘ ہوادکھایا۔ ایک پنجابی محاورے میں بیان ہوا ’’نانی‘‘ اور اس کے ’’خصم‘‘ والا معاملہ ہوگیا۔

میری دانست میں ان واقعات کے بعد یہ سوال فروعی اور لایعنی ہوگیا ہے کہ مریم نواز صاحبہ کو 16اکتوبر کے روز گوجرانوالہ کے جلسے سے خطاب کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔مذکورہ جلسے کا Momentumبن چکا ہے۔مریم نواز گوجرانوالہ پہنچ پائیں یا نہیں اس شہر میں حکومت مخالفین کی ایک کثیر تعداد ہر صورت جمع ہوجائے گی۔جذباتی افراد کی مؤثر تعداد کسی مقام پر جمع ہوجائے تو جن رہ نمائوں کو دیکھنے یا سننے کے لئے وہ اکٹھے ہوتے ہیں اگر دستیاب نہ ہوں تو ایسے اجتماعات ’’خودمختار‘‘ ہوجایا کرتے ہیں۔کائیاں انتظامیہ کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایسے اجتماع کو پولیس کے ذریعے ’’قابو‘‘ میں لانے کی کوششوں میں ریاستی قوت ضائع کرنے کے بجائے Command and Controlکی تمام تر ذمہ داری ان کے ’’رہ نمائوں‘‘ کے سپردکردی جائے۔گوجرانوالہ کے جلسے کی بابت بھی اب ایسی ہی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔