منتخب تحریریں

پاکستانی اخلاقیات کو لاحق دائمی خطرات

Share

قومی سلامتی حساس معاملہ ہے لیکن اس کو درپیش خطرات کا علاج ہو سکتا ہے۔ بڑی فوج ہے، کروز میزائل ہیں، ایٹمی صلاحیت بھی ہے۔ یہ اور بات کہ سب سازوسامان کے ہوتے ہوئے بھی اکابرینِ پاکستان کو انجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے‘ لیکن قومی سلامتی سے بھی زیادہ حساس مسئلہ پاکستانی اخلاقیات کا ہے۔
قومی سلامتی کے حوالے سے دشمن کا تعین کرنا اتنا مشکل نہیں لیکن اخلاقیات کے حوالے سے تو خطرات ہمہ گیر اور ہر اطراف سے موجود رہتے ہیں۔ اسی لیے محافظانِ ملت کا ہمہ وقت چوکس رہنا کوئی عجیب بات نہیں۔ اسی روش کے تحت چینی ایپ ٹک ٹاک پہ پابندی لگا دی گئی ہے۔ جواز وہی کہ ٹک ٹاک کے بے دریغ استعمال سے پاکستانی قوم کی اخلاقیات کو خطرات لاحق ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے ‘ٹنڈر‘ جیسی ایک دو ایپس پہ پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ کوئی مثال نہ پیش کی گئی کہ اخلاقیات کو خطرات کس نوعیت کے ہیں‘ لیکن ہماری پرانی روایت ہے کہ جس کسی چیز پہ بھی پابندی لگائی جا سکتی ہو اس پہ لگا دی جاتی ہے۔
ام الخبائث پہ پابندی بھٹو صاحب نے لگائی تھی۔ اُن کا یہ اقدام اس حوالے سے مذاق سے خالی نہ تھا کہ جیسے دنیا جانتی ہے موصوف خود شوق فرمانے والوں میں سے تھے‘ لیکن 1977ء کی تحریک چلی اور اس تحریک پہ اسلامی رنگ لگ گیا تو بھٹو صاحب کے وزیر برائے مذہبی امور مولانا کوثر نیازی نے یہ رائے دی کہ مولویوں کے غبارے میں سے ہوا نکالنے کا بہترین طریقہ یہ رہے گا کہ جناب بھٹو صاحب کچھ اسلامی اقدامات کا اعلان کر دیں۔ 10 اپریل 1977ء کو لاہور میں زبردست ہنگامے ہوئے اور گولی بھی چلی۔ کچھ لوگ جاں بحق ہوئے۔ پاکستانی فوج کے تین بریگیڈیئرز نے استعفیٰ دے دیا‘ اس بناء پہ کہ وہ اپنے لوگوں پہ گولی نہیں چلا سکتے۔ 15 اپریل 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی اقدامات کا اعلان کر دیا۔ اتوار کے بجائے جمعہ کو چھٹی ٹھہری۔ گھوڑے کی دوڑوں پہ جو جواء چلتا تھا اس کی بندش ہو گئی لیکن ہم گناہگاروں کے حوالے سے سب سے اہم بات ام الخبائث پہ پابندی تھی۔ اس کی فروخت بند کر دی گئی اور ملک میں جو تھوڑے بہت ٹھکانے تھے اُن پہ تالے لگ گئے یعنی پابندی اُن ہاتھوں سے لگی جو خود شوق فرماتے تھے۔ ان اقدامات کا اثر ذرہ برابر بھی نہ ہوا۔ متاثر ہونے کے بجائے تحریک چلانے والوں نے ان اقدامات کو سیاسی کمزوری کا اعتراف سمجھا اور نتیجہ یہ کہ بھٹو مخالف تحریک نے مزید زور پکڑ لیا۔ گناہِ بے لذت تو محاورہ ہے لیکن بھٹو صاحب کی طرف سے یہ ثوابِ بے لذت ثابت ہوا۔
بہرحال کہنے کی بات یہ ہے کہ جب پابندی لگ گئی تو اُسے کافی سمجھنا چاہیے تھا‘ لیکن جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پہ قبضہ کیا اور دیگر اقدامات کے علاوہ مخصوص مشروب پہ جو پابندی لگ چکی تھی اُس پہ حدود آرڈیننس کی شکل میں مزید پابندی لگا دی‘ یعنی اس کی فروخت اور اس کا استعمال غیر قانونی قرار دے دئیے گئے اور انہیں مزید غیر قانونی بنا دیا گیا۔ ایسی عقلمندی کی باتیں ہمارے ہاں ہوتی رہتی ہیں۔
قانون میں ایک گنجائش البتہ غیر مسلموں کیلئے ہے۔ محکمہ ایکسائز سے انہوں نے پرمٹ لیا ہو تو چند مخصوص مقامات سے مشروب کی محدود سپلائی حاصل کر سکتے ہیں۔ گنجائش تو یہ ہے لیکن نہایت ہی معمولی نوعیت کی۔ اب کیا ہے کہ اس معمولی سی گنجائش کو مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔ یعنی زور اس طرف جاتا ہے کہ جو ویسے ہی بھٹکے ہوئے لوگ ہیں اُن کی زندگیاں تھوڑی مزید سخت کر دی جائیں۔ ایک دو روز لاہور رہ کے آئے ہیں اور کیا بتائیں کہ اخلاقیات کے نام پہ وہاں کیا صورتحال پیدا کی جا رہی ہے۔ زیادہ کھل کے بات نہیں کی جا سکتی کیونکہ مملکتِ خداداد میں قومی سلامتی سے زیادہ حساس مسئلہ مذکورہ مشروب کا ہے۔ اس کا ذکر کیا تو گویا اخلاقیات کی ریڈ لائن عبور ہو گئی۔
دوسرا بڑاخطرہ پاکستانی اخلاقیات کو خواتین کے رسم و چلن سے ہے۔ بسا اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تشکیل کا بنیادی سبب ہی خواتین پہ پابندیاں عائد کرنا تھا۔ خواتین یہ نہیں کر سکتیں، وہ نہیں کر سکتیں، نظریں اُن کی نیچی ہونی چاہئیں، میک اپ زیادہ شوخ نہ ہو، لباس زیادہ خود نمائی والا نہ ہو۔ سر ہمیشہ ڈھانپا رہنا چاہیے۔ شرم وحیا کی وہ پیکر ہوں۔ یہ سب درست ‘ لیکن صحیح معنوں میں تو پابندی مردوں پر لگنی چاہیے۔ خاتون گزرے اور غلطی سے وہ خوبرو ہو یا برقعے کے پیچھے سے اندیشہ ہائے خوبصورتی ہو تو پاکستانی مردوں کی آنکھیں ایسے گھومنے لگتی ہیں کہ اُس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔ معاشرے میں انصاف نام کی چیز ہو تو مردوں کی آنکھوں پہ چمڑے کے وہ پردے لگیں جو تانگے والے گھوڑوں کو پہنائے جاتے ہیں۔ برسرِ عام ہوس کا پرابلم ہے تو وہ مردوں کا لیکن اخلاقیات کا سارا زور عورتوں پہ پڑتا ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کاکمال ہے۔
اتنی پابندیوں کے بعد تو پاکستانی قوم کو دنیا کی اول مخلوق ہونا چاہیے۔ مشروبات پہ پابندی، ہر قسم کی بے راہ روی پہ پابندی، عورت ذات کو سیدھے راستے پہ چلنے کی معاشرتی تلقین۔ عبادت گاہوں کی یہاں کوئی کمی نہیں۔ مفتیانِ دین کی بھی کمی نہیں۔ ہر دوسرا شخص وعظ و نصیحت پہ مامور لگتا ہے۔ وزیر اعظم بھی ریاستِ مدینہ سے کم کسی چیز کی بات نہیں کرتے۔ اقوامِ متحدہ بھی جائیں تو باقی دنیا کو وعظ و نصیحت فرما رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی قوم کو مثالی قوم ہونا چاہیے۔ جھوٹ اور فریب اس معاشرے میں نہ ہوں۔ رشوت نہ ہو، ملاوٹ نہ ہو اور ہر جگہ انصاف اور نیکی کا بول بالا ہو۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ موصوف ایک اور دلچسپ بات بھی کہا کرتے تھے کہ پاکستان گناہگار مسلمانوں کا معاشرہ ہے‘ یعنی پاکستانی قوم کا اسلام سے عقیدہ اٹل ہے اور اُس میں کوئی لغزش نہیں آ سکتی لیکن روزمرّہ زندگی میں یہاں کے مسلمان دیگر انسانوں کی طرح اِدھر اُدھر بھٹکنے سے محفوظ نہیں رہتے۔ یہ الفاظ بڑے متوازن قسم کے ہیں۔ اصل میں دیکھا جائے تو جتنا جھوٹ یہاں بولا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کسی چیز میں اور جہاں کہیں کٹ لگ سکتا ہے ہم لگاتے ہیں۔ افسر ہوں تو بغیر رشوت کے کام نہیں کریں گے۔ پولیس، محکمہ مال، واپڈا والے غرضیکہ جس محکمے کو بھی اُٹھا کے دیکھ لیں بغیر کچھ دئیے کوئی کام نہیں ہو گا۔
اس لیے حیرانی ہوتی ہے کہ ایک طرف اتنے وعظ اور نصیحتیں اور دوسری طرف معاشرے کا اصل چہرہ۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر وعظ و نصیحت کو ذرا کم نہیں ہونا چاہیے؟ کرنا اگر ہم نے سب کچھ ہے تو نیکی کا لبادہ تو اتنا بھاری بھرکم نہ اوڑھیں۔ قول و فعل میں فاصلہ ذرا کم ہو تو منافقت کی شرح بھی کم ہو جاتی ہے۔ نامور شاعر مصطفی زیدی نے کچھ اتنا درست نہیں کہا تھا کہ شہر میں ہر کسی نے دستانے پہن رکھے ہیں۔ دستانے تو ہوں گے لیکن معاشرے نے اپنے اوپر ایک لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ آئینِ پاکستان ہے تو اس کا دیپاچہ یا پرنسپلز آف پالیسی اسلامی اصطلاحات سے بھرا پڑا ہے۔ آئین میں اگر اتنا اسلام ہے تو معاشرے میں کتنا ہے؟
زیادہ نہ جانتے ہیں نہ کہہ سکتے ہیں سوائے اس کے کہ خدارا کچھ تو خواہ مخواہ کی بیان بازی اور منافقت میں کمی ہو۔ پاکستان اتنا آسودہ حال معاشرہ نہیں ہے۔ یورپ وغیرہ سے ہمارا کیا مقابلہ۔ اگر وہ کچھ نہیں کر سکتے جو ان ممالک نے کیا ہے تو کم از کم ہم جو اپنے اوپر اتنا جبر کرتے ہیں اس میں تو کچھ کمی آ جائے۔