پنجاب پولیس موٹر وے ریپ کیس کے مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟
پنجاب پولیس کو موٹروے ریپ کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو گرفتار کرنے میں 35 دن کا طویل عرصہ لگا۔ پنجاب پولیس نے ایک ماہ سے زائد عرصے تک کی اپنی ناکامی کو کامیابی میں کیسے بدلا؟
بی بی سی نے اس حوالے سے پولیس کے اعلیٰ افسران سے تفصیل سے بات کی ہے۔
پنجاب پولیس کے مطابق ان کی 28 ٹیموں نے، جن میں کم و بیش 100 سے زائد پولیس افسران اور اہلکار موجود تھے، مرکزی ملزم عابد ملہی کی تلاش میں دن رات ایک کیے رکھے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود مرکزی ملزم کے قریب پہنچ کر بھی پولیس کم از کم چار بار اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہی۔
سرکاری افسران کے مطابق پولیس کی ٹیموں کے علاوہ آئی بی، سی ٹی ڈی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاربھی ملزم کی تلاش میں اپنی کوششوں میں مصروف تھے۔
سی آئی اے پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب موٹروے پر یہ افسوسناک واقعہ ہوا اور اگلے روز ڈی این اے رپورٹ سے ملزم عابد ملہی کی شناخت ہوگئی تو اس کے ماں، باپ اور بیوی بچوں سمیت تمام رشتہ داروں کو اٹھا لیا گیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کرکے تفتیش شروع کردی گئی۔
سی آئی اے افسر کے مطابق، تمام رشتہ دار ایک ایک کرکے آتے گئے اور مختلف تفتیشی افسران کو اس بات کی یقینی دہانی کے بعد واپس جاتے رہے کہ ملزم عابد کا جب بھی ان سے رابطہ ہوا وہ اس کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں گے۔
‘پولیس کی ٹیموں کو پہلے دن سے مختلف ٹاسک سونپے گئے تھے اور وہ ٹیمیں ملزم عابد کے تمام رشتہ داروں، دوستوں پر دن رات نظر رکھے ہوئے تھیں کہ جیسے ہی اس کا ان میں سے کسی سے رابطہ ہو اسے دھر لیا جائے گا۔
کچھ ٹیمیں اس واقعہ کے مشکوک کرداروں اقبال اور شفیق کے گھروں کے آس پاس جبکہ کچھ ملزم شفقت کے گھر کے آس پاس نگرانی پہ معمور تھیں’۔
سی آئی اے افسر کے مطابق پولیس ٹیموں کے مختلف دستوں کو مختلف اوقات میں تعینات کیا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ دن میں ڈیوٹی کرتے اور کچھ رات میں لیکن ملزم روپوش ہی رہا۔
’ملزم کے پاس نہ موبائل فون تھا اور نہ کوئی اور ڈیوائس‘
ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور عبد الغفار قیصرانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی جب ملزم کے پاس موبائل نہ ہو، اسے پکڑنے کے لیے کوئی ٹیکنیکل مدد بھی میسر نہ ہو تو پھر ایسے ملزموں کو پکڑنا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔
ان کے بقول جب ملزم عابد متعدد بار پولیس حراست سے بچا تو اس نے بھی اپنی حکمت عملی بدلی اور موبائل کا استعمال بند کردیا، جس سے پولیس کا ٹاسک اور بھی مشکل ہو گیا۔ پولیس کے پاس اب اسے ٹریس کرنے کے لیے ٹیکنیکل آلات کی مدد بھی کارآمد ثابت نہ ہوئی۔
عباد الغفار قیصرانی کے مطابق پولیس کی کچھ ٹیموں کو صوبے کے مختلف شہروں کے بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پہ تعینات کردیا گیا تھا اور کچھ کو درباروں کے آس پاس اس شبے میں کہ ہوسکتا ہے ملزم پیسوں کی تنگی کے بعد کھانا کھانے کے لیے ان جگہوں کا رخ کرے اور وہیں دھر لیا جائے۔
انھوں نے کہا ایک روز قبل اطلاع ملی کہ یہ فیصل آباد میں اپنے رشتہ داروں کو ملنے جانا والا ہے ہم نے فوری اپنی ٹیکنیکل اور ریڈنگ ٹیمیں وہاں بھیجیں لیکن اسے پتہ چل گیا اور یہ وہاں سے بھی بھاگ نکلا اور مانگا منڈی آگیا جہاں سے اسے ایک قریبی عزیز کے گھر سے گرفتارکیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ پولیس سے بچنے کے لیے ملزم عابد شیخوپورہ، ننکانہ، قصور،فیصل آباد،چنیوٹ اور مانگا منڈی سمیت مختلف شہروں کی طرف گیا۔
عبد الغفار قیصرانی نے بتایا جب ملزم کو گرفتار کیا گیا تو اس کی داڑھی اور سر کے بال بڑھے ہوئے تھے اور پاؤں میں چل چل کر زخموں کے نشانات بھی پڑے ہوئے تھے لیکن جسمانی طور پر بالکل ٹھیک تھا۔
‘اس (عابد) کے پاس نہ پیسے تھے نہ کھانے پینے کی چیزیں اس لیے یہ بھاگتا رہا اور اسے پکڑے میں مشکل بھی پیش آئی’۔
ملزم عابد کی گرفتاری یا خود کو پولیس کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے متضاد اطلاعات پہ عبد الغفار قیصرانی نے کہا کہ ملزم کو کسی نے پولیس کے حوالے نہیں کیا بلکہ پولیس کے عام لوگوں سمیت مختلف جہگوں پر اپنے ’سورس‘ ہوتے ہیں اور مانگا منڈی میں بھی ملزم عابد کو گرفتار کرنے کے لیے ان ذرائع کو بھی استعمال کیا گیا۔
عبدالغفار قیصرانی کے مطابق ‘ملزم عابد اب کہتا ہے کہ میرا پلان تھا خود کو پیش کرنے کا لیکن کل تک بھی اس کا خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا یہ تو ہم نے بڑے طریقے سے ٹریپ کیا ہے اور گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘
’میڈیا پر معاملہ ٹھنڈا ہوا تو کنگلے ملزم کو پکڑنے میں آسانی ہوئی‘
پولیس افسر کے مطابق یہ ’کنگلا‘ ملزم تھا اس لیے اسے پکڑنے میں مشکلات پیش آئیں۔ کنگلا کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس کے پاس پیسے اور وسائل نہیں تھے اور وہ اپنے دن اور راتیں کبھی کہیں اور کبھی کہیں بسر کرتا تھا اور اکثر یہ سڑک کنارے بھی سوجایا کرتا تھا۔
آئی جی پنجاب انعام غنی نے لاہور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم عابد ملہی گرفتاری سے بچنے کے لیے فورٹ عباس، مانگا منڈی اور چنیوٹ جاتا رہا۔
آئی جی پنجاب کے مطابق پہلا ملزم تو ہم نے دوسرے تیسرے دن ہی گرفتار کر لیا تھا لیکن عابد کو گرفتار کرنے میں ہمیں تیس دن لگ گئے کیونکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ملزم اقبال عرف بالا مستری نے اسے اطلاع کردی تھی کہ اس کی تصاویر ٹی وی پر چل چکی ہیں اس اطلاع کی وجہ سے پکڑنے میں تاخیر ہوئی۔
انعام غنی نے تصدیق کی کہ ملزم عابد ملہی کو پولیس نے مانگا منڈی سے گرفتار کیا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ عابد ملہی کافی عرصہ چنیوٹ میں ایک زمیندار کے پاس مزدوری کرتا رہا اور بھینسوں کو چارہ ڈالتا رہا۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کے فیصل آباد جانے کا پتہ چل چکا تھا لیکن ہماری ٹیم کے وہاں جانے سے پہلے یہ وہاں سے بھاگ نکلا اور اپنے والد اور بیوی بچوں سے ملنے مانگا منڈی چلا آیا۔ جیسے ہی یہ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوا ہماری پہلے سے وہاں ٹیم نے اسے پکڑ لیا۔
انعام غنی نے کہا کہ اسے پتہ تھا کہ ہم نے اس کی بیوی اور والد کو چھوڑ دیا ہے اور معاملہ میڈیا پہ بھی ٹھنڈا ہوا، جس کی وجہ سے اسے گرفتار کرنے میں مدد ملی۔