ایپل کے متعارف کرائے گئے نئے فون میں لگائی گئی چِپ نے سمارٹ فون کو سمارٹ ترین فون بنا دیا
ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے منگل کو اپنے تازہ ترین آئی فون 12 کو متعارف کروایا اور جس کے بارے میں کمپنی کا کہنا ہے کہ نئے ورژن کے آئی فونز میں جدید ترین چپ لگی ہوئی ہے۔
فون کی تقریب رونمائی میں بتایا گیا ہے کہ اس فون کے صارفین اب پہلے کی نسبت کم بیٹری کا استعمال کرتے ہوئے 4K ویڈیو میں ترمیم کرنے کے علاوہ تصاویر کی ریزولوشن بڑھانے اور گرافکس سے بھرپور ویڈیو گیمز بہتر طریقے سے بغیر کسی رکاوٹ کے کھیل سکیں گے۔
اس فون میں استعمال کیے گئے ’فائیو نینو میٹر پروسیس‘ سے مراد اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ چپ کے ٹرانزسٹرز کا سائز مزید چھوٹا کر دیا گیا ہے۔
آن آف والے چھوٹے سوئچ کی چوڑائی اب صرف 25 ایٹم ہے جس سے مزید اربوں سوئچز کو شامل کرنے کی جگہ بن گئی ہے۔
اس کا مطلب ہے زیادہ سمارٹ فون
صرف چار سال پیچھے چلے جائیں تو اُس وقت اِس صنعت سے وابستہ کئی افراد نے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی پیش گوئی کر دی تھی لیکن اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کا سہرا بہت حد تک ایک ڈچ کمپنی ’اے ایس ایم ایل‘ کے سر ہے۔
اس کمپنی نے انتہائی الٹرا وائیلٹ (EUV) لتھوگرافی نامی ایک عمل کے ذریعے سیلیکون میں سرکٹ کے نمونوں کو تراشنے کا ایک راستہ پیش کیا۔
ایسا کرنے کے لیے درکار مشینوں کی ہی قیمت 12 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے جو کہ سیمی کنڈکٹر بنانے والی صنعت کے دیگر آلات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
فی الوقت یہ واحد کمپنی ہے جو یہ چپ بنا رہی ہے اور اس کے خراب ہونے کا امکان کم ہونے کی وجہ سے دیگر متبادل آلات کی نسبت یہ زیادہ مہنگی نہیں ہے۔
ایننڈ ٹیک سے وابستہ ڈاکٹر این کرٹس کا کہنا ہے کہ اتنے ننھے پرزے بنانے میں کمال مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ اتنا ہی مشکل ہے جیسے آپ مریخ کی سطح پر لگے کسی ٹکٹ کو ایک کاغذی جہاز سے نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اے ایس ایم ایل اپنی اس ٹیکنالوجی کو مارکر پین کے استعمال سے ایک باریک لائنر کی طرف قدم قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس میں روشنائی کی جگہ جو چیز استعمال کی جاتی ہے اسے وہ ’مہین سی روشنی‘ کہتے جو ایک حیران کن طریقے سے پیدا کی جاتی ہے۔
کمپنی کے ترجمان سینڈر ہومن نے اس سارے عمل کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ پگھلے ہوئے ٹن کی ایک چھینٹ یا بوند پر انتہائی طاقت ور صنعتی درجے کی لیزر شعاع ڈالی جاتی ہے جس سے یہ بخارات میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ’پلازما‘ بن جاتا ہے۔ اس پلازما سے الٹرا وائیلٹ (بلائے بنفشی) منعکس ہوتی ہے۔
یہ سارا عمل ایک سیکنڈ میں پچاس ہزار مرتبہ ہو گا، لہذا پچاس ہزار بوندیں یا چھینٹیں نشانہ بنتی ہیں جن سے اتنی روشنی منعکس ہوتی ہے جو دنیا کے سب سے سپاٹ شیشوں پر پڑتی ہے۔
چپ بنانے والی صرف دو کمپنیوں نے اس طریقے کو صنعتی سطح پر بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
تائیوان کی سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنی (ٹی ایس ایم سی) ایپل کو اس کے آئی فونز، آئی پیڈ اور میک کمپیوٹر کے لیے اے 14 فراہم کرنے والی واحد کمپنی ہے۔
جنوبی کوریا کی سام سنگ جو اینڈروائڈ فون کے لیے کوالکوم پروسیس بناتے ہیں وہ اس سال دسمبر میں اس کے نئے ماڈل کا افتتاح کرے گا۔
یہ دونوں کمپنیاں اور امریکہ کی انٹل اے ایس ایم ایل میں شراکت دار ہیں۔ انٹل بھی سنہ 2021 سے اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دے گی۔
لیکن اس کے ایک اور بڑے حریف کو باہر کر دیا گیا۔
چین کے سیمی کنڈکٹر مینوفیچرنگ انٹرنیشنل کارپوریش (ایس ایم آئی سی) نے اطلاعات کے مطابق آرڈر دیا تھا لیکن امریکی حکومت نے مداخلت کرتے ہوئے اے ایس ایم ایل مشینوں کی برآمد کو روک دیا تھا اس خدشے کے پیش نظر کہ اس کی پیداوار کو چینی فوج کے لیے جدید ہتھیار بنانے میں استعمال نہ کیا جائے۔
ایس ایم آئی سی 14 نینو میٹر کی چپ ٹینالوجی میں بہت پیچھے ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس کو پانچ نینو میٹر کی چیپ بنانے میں مہارت حاصل کرنے میں کافی وقت درکار ہو گا۔
گارٹنر کمپنی کے تحقیق کار جان ایرنسن کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے چینی کمپنی اور چین کی حکومت کی چپ انڈسٹری کے منصوبوں کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کا یہی مقصد تھا۔
پانچ نینو میٹر کا مطلب کیا ہے؟
ایک میٹر کے اگر ایک ارب حصہ کیے جائیں تو ایک اربواں حصہ نینو میٹر بنتا ہے۔ ایک سیکنڈ میں انسانی بال جتنا بڑا ہوتا ہے نینو میٹر تقریباً اس کے برابر ہوتا ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ ایپل کے نئے ٹرانسسٹرز کتنے باریک ہوتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مربع ملی میٹر میں 17 کروڑ سے زیادہ ٹرانسسٹرز پھیلائِے جا سکتے ہیں۔
ایک اور بڑی چینی کمپنی ہواوے بھی اپنی پانچ نینو میٹر چپ بنانے میں ناکام رہی ہے اور جس کی بڑی وجہ امریکہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیاں ہیں۔
سمارٹ ترین سمارٹ فون
یہ سب کچھ پانچ نینو میٹر سمارٹ فون کو اور زیادہ سمارٹ بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
جدید ترین چپ کے ذریعے یہ ممکن ہو سکے گا کہ جو معلومات کمپیوٹر سرور کو پراسسنگ کے لیے بھیجی جاتی تھیں وہ سمارٹ فون کے اندر ہی ہو جائے گی۔
ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ سمارٹ فون اس قابل ہو گئے ہیں جو آواز کو تحریر میں بدل دیں اور انٹرنیٹ سے جڑے بغیر لوگوں کی تصاویر کے ذریعے ان کی شناخت کر لیں۔
اب اس سے بھی پیچیدہ ’آرٹیفیشل انٹیلیجنس‘ یعنی مصنوعی ذہانت کے کام ممکن ہو گئے ہیں، جو سمارٹ فونز کو اپنے ارگرد کی دنیا کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔
چھوٹے ٹرانسسٹر بڑے سائز کے ٹرانسسٹر کے مقابلے میں کم برقی قوت استعمال کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ جلد کام کرتے ہیں۔
اس بنیاد پر ٹی ایس ایم سی کا کہنا ہے کہ پانچ نینو میٹر سات نینو میٹر کی چپ کے مقابلے میں پندرہ فیصد تیز رفتاری سے کام کرتی ہے جب کہ اس کو اتنی ہی برقی توانائی چاہیے ہوتی ہے جتنی سات نینو میٹر استعمال کرتے ہیں۔
اس کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ چپ ڈیزائن کرنے والے کو اور گنجائش ملی جاتی ہے کہ وہ اس میں خصوصی حصہ بنا سکیں جنھیں ایکسلیریٹر کہا جاتا ہے۔
توقع ہے کہ آنے والے وقتوں میں دیگر سمارٹ فون کمپنیاں بھی اس چپ کا استعمال شروع کر دیں گی۔