پاکستان میں حکومتوں کی جانب سے مختلف ادوار میں بیرون ملک سے سرمائے کو ملک میں لانے کے لیے مراعاتی سکیمیں لائے جانے کی ایک طویل تاریخ ہے جن میں تازہ ترین اضافہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی جانب سے گذشتہ ماہ متعارف کروائی گئی ’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ‘ سکیم ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس سکیم کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی تارکینِ وطن ’روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ‘ کے ذریعے سرمایہ کاری کر کے ملک کی مدد کر سکتے ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر پاکستان کے ہاؤسنگ سیکٹر میں جاری ’زبردست سرگرمی‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سیکٹر میں تارکینِ وطن کے لیے سرمایہ کاری کے نہایت ’پُرکشش مواقع‘ ہیں۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والی رقوم، چاہے وہ سرمایہ کاری کی شکل میں ہوں یا ترسیل زر کی، ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 12 اکتوبر کو وزیر اعظم نے قوم کو ملکی معیشت کے حوالے سے یہ خوشخبری سنائی کہ گذشتہ سال ماہ ستمبر کے مقابلے میں رواں برس اسی ماہ کے دوران بیرون ممالک پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں آنے والے ترسیل زر 31 فیصد زیادہ ہیں۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا کے باوجود معیشت میں یہ صحتمند رجحان دیکھا گیا ہے اور ماہ ستمبر وہ چوتھا لگاتار ایسا مہینہ تھا جس میں ترسیل زر دو ارب ڈالر ماہانہ سے زیادہ رہی۔
تاہم اگر پاکستان میں تارکین وطن کی جانب سے کی جانے والی پرکشش سرمایہ کاری سکیموں کی بات کی جائے تو معیشت اور مالیاتی امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ماضی میں ایسی سکیمیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی سکیموں کا اجرا تو بہت ہوتا رہا ہے لیکن ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے درکار مربوط حکمت عملی اور مارکیٹنگ کا طریقہ کار یا تو مکمل طور پر عنقا رہا یا پھر بہت ہی ناقص۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں معاشی ماہرین روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سکیم کی کامیابی کے بارے میں زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر رہے ہیں۔
ماضی کی مراعاتی سکیمیں
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سکیم اس نوعیت کا پہلا اقدام نہیں ہے۔ سنہ 2019 کے شروع میں ڈالر بانڈ کی صورت میں ’پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ‘ کا اجرا کیا گیا تھا جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کرنے کے بدلے پُرکشش شرح منافع کی پیشکش کی گئی تھی۔
اس سکیم کا مقصد ڈالروں کو ملک میں لا کر زرمبادلہ کے ذخائر کو استحکام دینا تھا۔ تاہم یہ سکیم پُرکشش شرح منافع پیش کرنے کے باوجود کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی اور صرف 26 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہی حاصل ہو پائی۔
سرمایہ کاری کی اس سکیم میں بیرونِ ملک مقیم لگ بھگ نوے لاکھ پاکستانیوں میں سے صرف چھ سو تارکین وطن نے دلچسپی ظاہر کی تھی۔
تحریک انصاف کی موجودہ حکومت سے قبل پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنے دور، 2018-2013، میں پاکستان بانڈز کا اجرا کیا تھا تاہم اس میں بھی کچھ بڑے سرمایہ کاروں نے کچھ سرمایہ کاری کی اور ریٹیل انویسٹر نے اس میں دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔
اسی طرح مختلف ادوار میں ایمنیسٹی سکیموں کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرنے کی کوششیں کی گئیں جو کسی خاص کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ ان سکیموں کے ذریعے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں کو کالا دھن سفید کرنے کی پیشکش کی گئی تھی اور حکومتی خزانے میں ایک مخصوص شرح پر رقم جمع کرا کر غیر قانونی ذرائع سے کمائی جانے والی رقم کو قانونی صورت دی جا سکتی تھی۔
ماہرین کے مطابق ماضی کی سکیموں کے مقابلے میں روشن ڈیجیٹل پاکستان سکیم کی انفرادیت سرمایہ کاری پر ڈالروں کی صورت میں منافع کی ادائیگی ہے۔
پاکستان میں سرمایہ کاری سکیموں کی ناکامی کی وجوہات
پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دینے والی سکیموں اور ان کی ناکامی کے بارے میں بات کرتے ہوئے مالیاتی امور کے ماہر محمد سہیل نے بتایا کہ اِن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تو سرمایہ کاری کے لیے ضروری سازگار ماحول کی کمی ہے، وہ ماحول جو سرمایہ کاروں کو اعتماد دلا سکے کہ ان کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔
انھوں نے کہا اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی سٹاک مارکیٹ ہے جہاں امیر پاکستانی بھی سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ دوسرا ملک میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع کو واپس لے جانے میں درپیش دشواریاں ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس حکومت کی گذشتہ ’پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ‘ سکیم میں سرمایہ کاری کرنے پر شرحِ منافع بہت پرکشش تھا تاہم اس کے قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکنے کی وجہ اس سے جڑے کچھ قانونی پہلو تھے۔
انھوں نے کہا اس کے ساتھ ہمارے ہاں ان سکیموں کے لیے مناسب مارکیٹنگ بھی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے سرمایہ کار اس جانب راغب نہ ہو سکے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی غیر یقینی صورتحال یہاں سرمائے کو لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بیرونی سرمایہ کار ہوں یا بیرون ملک مقیم پاکستانی وہ پاکستان میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے یہاں پیسہ لگانے سے کتراتے ہیں۔
انھوں نے کہا پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ میں شرح منافع بہت زیادہ تھا تاہم اعتماد کی کمی نے اس میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں ہونے دی۔
ڈاکٹر صدیقی نے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری کا سازگار ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری بھی متاثر ہو رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سنہ 2018 کے مالی سال کے اختتام پر ملک میں مجموعی سرمایہ کاری پانچ ارب ڈالر تھی، جو اگلے سال یعنی مالی سال 2020-2019 میں دو بلین ڈالر تک گر گئی۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر احمد چنائے نے ماضی کی سکیموں کی ناکامی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک وجہ ان سکیموں کے لیے مؤثر مارکیٹنگ کی کمی تھی اور ان کے لیے مناسب روڈ شوز بھی نہیں کیے گئے جن کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو ان کے بارے میں صحیح آگاہی نہیں مل سکی تھی۔
انھوں نے کہا ایک اور وجہ ماضی کی سکیموں کا بڑے سرمایہ کاروں کے تک محدود ہونا تھا۔ مثلاً نواز لیگ کے دور میں پاکستان بانڈز میں سرمایہ کاری بڑے سرمایہ کاروں کے مالی استعداد تک محدود تھی، جس میں چھوٹا سرمایہ کار پیسہ لگانے سے قاصر تھا۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سکیم کی کامیابی کا کتنا امکان ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے احمد چنائے نے کہا وہ اس سکیم کی کامیابی کے بارے میں پُرامید ہیں جس کی وجہ بہت نچلی سطح سے سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کا پلان ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سکیم کے ذریعے گراس روٹ لیول کے سرمایہ کار کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ لگائیں اور اس سے منافع کمائیں۔
انھوں نے کہا اس سرمایہ کاری پر منافع ڈالر کی صورت میں ادا کیا جائے گا جو ایک انتہائی پُرکشش پہلو ہے۔
محمد سہیل نے اس سلسلے میں کہا ڈالر کی صورت میں منافع کی بیرون ملک واپسی ایک پرکشش پیش کش ہے اور یہ سکیم کو کامیاب کو سکتا ہے تاہم ماضی کے تجربات کی روشنی میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سکیم کامیابی سمیٹ پائے گی یا نہیں۔
ڈاکٹر صدیقی اس سکیم کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈالروں کی صورت میں منافع کی واپسی ملک سے ڈالروں کے فرار کی صورت میں نکل سکتی ہے۔ انھوں نے کہا ڈالروں کی بیرون ملک روانگی ملک کے لیے اچھا نہیں ہے اور لوگ منافع کی آڑ میں بیرون ملک ڈالر بھیج سکتے ہیں جو معیشت کے لیے مزید خرابی پیدا کرے گا۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سکیم کیا ہے؟
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سکیم نان ریزیڈنٹ پاکستانیوں (این آر پیز) کے لیے ہے۔ اس اکاؤنٹ کے ذریعے این آر پیز پاکستان کے بینکاری اور ادائیگیوں کے نظام سے مکمل طور پر منسلک ہو جائیں گے۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار این آر پیز پاکستان میں یا کسی سفارتخانے اور قونصلیٹ میں موجودگی کی شرط کے بغیر اپنا اکاؤنٹ کھول سکیں گے اور اس اکاؤنٹ کے ذریعے انھیں پاکستان میں بینکاری خدمات اور پرکشش سرمایہ کاری کے بھرپور مواقع تک رسائی حاصل ہو جائے گی، ان مواقع میں حکومت کی طرف سے متعارف ہونے والے ’نیا پاکستان سرٹیفیکیٹس’ کے علاوہ سٹاک مارکیٹ اور ریئل سٹیٹ بھی شامل ہیں۔
ان کھاتوں کے فنڈز مکمل طور پر قابل منتقلی ہوں گے اور انھیں سٹیٹ بینک سے کسی پیشگی منظوری کے بغیر پاکستان سے واپس بھجوایا جا سکتا ہے۔